Inquilab Logo

۱۹۷۱ء میں مشاعرے کے موقع پر پہلی مرتبہ ریزرو بینک کی دیواریں اُردو شعر وشاعری سےآشنا ہوئی تھیں

Updated: November 12, 2023, 2:39 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

مدنپورہ کے ۸۲؍سالہ خالد شیخ نے ریزروبینک میں ۳۸؍سال تک ملازمت کی،اس دوران مختلف عہدوںپر فائز رہنے کے بعد وہ اسسٹنٹ منیجر کے طور پر ۲۰۰۱ء میں سبکدوش ہوئے، انہوں نےبینک کی بزمِ اُردو کی باگ ڈور تقریباً ۲۵؍سال تک سنبھالی تھی۔

Khalid Sheikh. Photo: INN
خالد شیخ۔ تصویر :آئی این این

مدنپورہ کے علمی و ادبی حلقوں میں ایک اہم نام خالد احمد شیخ کا ہے جن کی ہمہ جہت شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے ۔وہ انتہائی سادگی پسند،بے لوث اور خاموش طبیعت کے مالک ہیں ۔ ۲۲؍سال قبل ملازمت سے سبکدوش ہوئے لیکن عمر کے اس مرحلے پر بھی ان کی مصروفیات کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کے روزانہ کےمعمول میں ایک سماجی تنظیم کی جانب سے دی گئی ذمہ داری ادا کرنے کےعلاوہ ضرورتمندوں کی خاموشی سے خدمت کرناشامل ہے۔علاوہ ازیں شروع ہی سے ان کےپڑھنے لکھنے کا اپنا معمول ہے۔ 
 خالد شیخ نےکالم نگار کو اتوار ۲۹؍اکتوبر شام ۷؍بجے مارواڑی چال، جہاں اب ۱۵؍منزلہ کے اے ایس الاف ٹاور بن گیا ہے ،کی ۱۳؍ویں منزل کے فلیٹ نمبر۱۳۰۴ءمیں ملنے کا وقت دیاتھا۔ مقررہ وقت پرلفٹ سے باہر نکل کرمتذکرہ فلیٹ کی گھنٹی بجانے پر خالد شیخ نے خود دروازہ کھول کرراقم کا استقبال کیا۔ فلیٹ کے ہال میں ایک طرف کتابوں سے بھری اور سجی الماری تھی۔ اسے دیکھ کر ان کی علمی دوستی کا بخوبی اندازہ ہوا۔ ہال کی دیوار سے لگےصوفہ پربیٹھتے ہی ان کے بیٹے ندیم شیخ نے پانی سے تواضع کی۔ ابھی خیر وخیریت دریافت کرنے کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ فلیٹ کی گھنٹی بجنے پر خالد شیخ نے دروازہ کھولا۔ وہاں سے ایک خاتون اندر آئیں اورسلام کیا۔ خالدصاحب نے تعارف کرایا کہ یہ میری بیٹی نسرین ہیں ، جوخلافت ہائوس بی ایڈ کالج کی پرنسپل ہیں۔ تعارف کےبعد ہماری گفتگو پھر شروع ہوئی جو ایک گھنٹے سے زیادہ چلی۔
خالد شیخ کی پیدائش ۲۹؍ ستمبر ۱۹۴۱ء کوہوئی تھی ۔انجمن اسلام سی ایس ٹی سے میٹرک اور اسماعیل یوسف کالج سے ۱۹۶۳ءمیں بی اے کیا۔ ممبئی یونیورسٹی سے ۱۹۶۶ءمیں اے ایم کرنےکابھی انہیں شرف حاصل رہا۔ حالانکہ گھریلو حالات سازگار نہیں تھے، اسلئے والد پر پورامالی بوجھ نہ پڑے،انہوں نے بی اے کرنےکےبعد ہی انجمن خیرالاسلام اسکول تھانےمیں ملازمت کرلی تھی۔ اسی ملازمت کے دوران اسٹیٹ اور ریزرو بینک میں ملازمتوں کے اشتہار نکلنےپر دونوں بینکوں میں ملازمت کی درخواست دی تھی۔ اتفاق سے دونوں ہی بینکوں سے ملازمت کی پیشکش آنےپر انہوں نے ریزرو بینک کا انتخاب کیااور یہیں سے ۳۰؍ستمبر ۲۰۰۱ء کو بحیثیت اسسٹنٹ منیجر سبکدوش ہوئے۔ ریزرو بینک کی ۳۸؍سالہ ملازمت کے دوران وہ مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ ان کا خیال ہےکہ سبکدوش ہونےکےبعدلوگوں کیلئے مصروف رہنا مسئلہ ہوتاہے لیکن ان کے ساتھ ایسانہیں ہواکیونکہ انہیں شروع ہی سے پڑھنے لکھنےکا شوق رہا جو اَب بھی جاری ہے ۔متعدد اخباروں ، رسالے اور میگزین میں ان کے مضامین، کہانیاں ، افسانے اور ادبی تخلیقات شائع ہوتے رہےہیں جن میں روزنامہ انقلاب میں ادارتی صفحہ پر ۱۹؍ سال (۲۰۰۴ء سے ۱۶؍ مارچ ۲۰۲۳ء) تک شائع ہونے والے مضامین بھی شامل ہیں۔
خالد شیخ کے والدنورمحمد شیخ کا تعلق بھی علم وادب اور صحافت سے تھا۔ ن م شیخ اور نمش بابوکےنام سے انقلاب اور مختلف رسالوں میں لکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پڑھنےلکھنےکا شوق انہیں وراثت میں ملا۔ اس کی وجہ سے اسکول کے دور ہی سے اخباروں اور میگزین میں ان کے مضامین، کہانیاں اورافسانے شائع ہوتے رہے۔ اسی شوق سےوابستہ ایک یادگار واقعہ کاذکرکرنا ضروری ہے۔ یہ ۶۷۔۱۹۶۶ءکی با ت ہے۔ معروف رسالہ بیسویں صدی میں ’مسیحا‘ کےعنوان سے ان کا ایک افسانہ شائع ہوا، جو کافی مقبول ہو اتھا۔ میگزین میں نام کے ساتھ افسانہ نگار کا پتہ بھی شائع ہوتا تھا۔ افسانہ شائع ہونےکے ایک ہفتے بعد، خالدشیخ مارواڑی چال کے گھر کی کھڑکی سے مولاناآزاد روڈکا نظارہ کررہےتھے۔اچانک عین کھڑکی کےسامنے ایک بڑی موٹرکار آکر رکی، کار سے اُترکر ایک صاحب نے انہی سے دریافت کیا کہ یہاں خالد شیخ کہاں رہتےہیں ؟ انہوں نے جواب دیاکہ میں ہی خالد شیخ ہوں ۔ اس شخص نے کہاآپ کچھ دیر کیلئے نیچے آنے کی زحمت کریں گے ،کچھ بات کرنی ہے۔حیران وپریشان خالد شیخ نیچے آئے ۔ اس شخص کو قریب واقع آزاد انڈیا ہوٹل میں چائے پلانے لے گئے۔ دوران گفتگو اس شخص نےبتایا کہ میں فلم رائٹر گلزار صاحب کے دفتر سے آیاہوں ۔ انہوں نے آپ سے ملنے کیلئے بھیجاہے۔ آپ کا افسانہ’ مسیحا‘ انہیں بہت پسند آیا۔ وہ چاہتےہیں کہ آپ ان کی ٹیم کاحصہ بنیں ۔ یہ سن کر خالد شیخ کو حیرت کے ساتھ خوشی بھی ہوئی ۔ انہوں نے اس شخص سےکہاکہ مجھے فلمی دنیا کاتجربہ نہیں ہے ۔ جس پراس شخص نے کہا کہ آپ اس کی فکر نہ کریں ۔ ایسے میں ان کیلئے اچانک کوئی فیصلہ کرنا مشکل تھا۔ کیونکہ حال ہی میں ریزرو بینک میں ان کی ملازمت لگی تھی۔ وہ ملازمت چھوڑنے کاخطرہ مول نہیں لیناچاہتےتھے، اس لئےانہوں نے ان سے معذرت کرلی۔
  اُردو زبان وادب کی ترقی اور فروغ کیلئے۱۹۶۷ءمیں علی سردار جعفری، کیفی اعظمی،ظ انصاری، پروفیسر محی رضا (مہاراشٹر کالج ) اور اس دور کی فعال سماجی شخصیت سید محمد زیدی کی سرپرستی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ سیدمحمد زیدی کے چھوٹے بھائی رضی زیدی سے تعلقات ہونےکی بناپر اس کمیٹی میں خالد شیخ کو بھی شامل کیاگیا تھا۔ کمیٹی کے سیکریٹری سید محمد زیدی تھے۔ کمیٹی کو جاری رکھنےکیلئے فنڈ کی ضرورت تھی۔ایسےمیں کمیٹی نے ثقافتی پروگرام کےذریعےفنڈ جمع کرنےکی تجویز پیش کی۔ پروگرام میں فلمی شخصیات کو مدعوکرنےکا منصوبہ طے پایا۔خالد شیخ کو پروگرام کا سیکریٹری بنایاگیا۔ متفقہ رائے سے پروگرام میں اس وقت کےمعرو ف فلم اداکار دلیپ کمار کو مدعوکرنےکیلئے سردارجعفری، کیفی اعظمی، پروفیسر محی رضا ،خالد شیخ اور سید محمدزید ی کی بھنڈی بازارکی آفس سےباندرہ کیلئے روانہ ہوئے ۔ورلی پہنچنےپر خیال آیاکہ کیوں نہ فلم اداکارہ نمی سے ملاقات کرلی جائے ،اگر وہ پروگرام میں آجائیں تو ، بہتر ہوگا۔مصروفیت کی وجہ سے نمی سے ملاقات نہیں ہوسکی ،اس کےبعد یہ لوگ میناکماری کی رہائش گاہ پہنچے لیکن ان سے بھی ملاقات نہیں ہوسکی ۔ وہاں سے روانہ ہونے پر سردار جعفری نےکہاکہ آج جمعہ ہے ،کل ہی دلیپ کمار کی فلم رام شیام ریلیز ہوئی ہے،اسلئے ان کےگھر جانے سے قبل شکیل بدایونی کےگھر چلتے ہیں تاکہ فلم کے کامیاب یافلاپ ہونےکی معلومات لے لی جائے،اس کےبعد ہم دلیپ کمار کے پاس جائیں گے۔شکیل بدایونی نے فلم کے تعلق سے مثبت رپور ٹ دی۔ بعدازیں یہ لوگ دلیپ کمارکے گھر گئے۔ دلیپ کمار اُردو کی فروغ کیلئے پروگرام میں آئے ۔اس طرح کمیٹی کیلئےفنڈ جمع کرنےکامقصد پورا ہوا۔
 ریزرو بینک کی ملازمت سے خالد شیخ کی یو ں تومتعدد یادیں وابستہ ہیں لیکن ۱۹۶۹ءمیں یہاں قائم کئے گئے شعبہ بزم ِ اُردو سےانہیں خاص شغف رہا۔۱۹۶۹ء سے قبل ریزرو بینک میں دیگر زبانوں کی ادبی وثقافتی تنظیمیں تھیں لیکن اُردوکی تنظیم نہیں تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ’’بینک میں ایک سکھ سینئر آفیسر تھے جن کا اصلی نام تو یاد نہیں لیکن انہیں اُردو زبان و ادب سے بڑی دلچسپی تھی۔ وہ اُردو جانتے تھے۔ان کی غزلیں اُردو ماہناموں اوررسالوں میں شائع ہوتی تھیں ۔ ان کا تخلص ضیاء فتح آبادی تھا۔ انہوں نے بڑی کوشش اور جدوجہد سے۱۹۶۹ء میں ریزرو بینک (فورٹ) میں بزمِ اُردوکی بنیاد رکھی تھی جس سے خالد شیخ کےعلاوہ بینک کےدیگر مسلم اہلکار اور اُردو سےتعلق رکھنےوالے برادران وطن مثلاً اوپی بیری، میگئی سراور پی این ایّر وغیرہ بھی جڑ گئے ۔۱۹۷۱ءمیں بزم ِ اُرد و کے تحت ریزرو بینک کی امربلڈنگ میں پہلا مشاعرہ منعقد کیاگیا جس میں بشمول ندا فاضلی اس دور کےمعروف اور معتبر شعراکرام نے شرکت کی تھی۔ یہ پہلاموقع تھا جب ریزرو بینک کی دیواریں اُردو شعر وشاعری سے آشنا ہوئی تھیں ۔ اس مشاعرہ کےبعد یہاں غزلوں کا پروگرام بھی منعقدہونے لگا۔ بعد کے برسوں میں غزل سنگر طلعت عزیز اور جگجیت سنگھ کےپروگرام بھی ہوئے۔ بزم اردوکےپروگرام کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگاسکتےہیں کہ ریزرو بینک کے ملازمین دریافت کرتےتھےکہ بزم ِاُردو کااگلاپروگرام کب ہوگا؟بعدازیں عید ملن اور حالات حاضرہ کے موضوعات پر بھی اسی تنظیم کے معرفت پروگرام منعقد کئے گئے جن میں اس دورکی معروف سماجی ،علمی اور ادبی شخصیات کو مدعو کیا گیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK