ملک کے سابق چیف الیکشن کمشنر آنجہانی ٹی این سیشن نے اپنی خود نوشت ’تھرو دی بروکن گلاس‘ میں کئی اہم باتوں کا انکشاف کیا ہے۔ یہ کتاب ان کے انتقال کے بعد گزشتہ سال منظر عام پر آئی ہے۔
EPAPER
Updated: May 19, 2024, 12:33 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai
ملک کے سابق چیف الیکشن کمشنر آنجہانی ٹی این سیشن نے اپنی خود نوشت ’تھرو دی بروکن گلاس‘ میں کئی اہم باتوں کا انکشاف کیا ہے۔ یہ کتاب ان کے انتقال کے بعد گزشتہ سال منظر عام پر آئی ہے۔
آئین نے ملک میں بروقت اور غیرجانبدار انتخابات کی ذمہ داری الیکشن کمیشن آف انڈیا پر ڈالی ہے۔ جمہوریہ کے قیام سے اب تک کل ۲۵؍ چیف الیکشن کمشنر صاحبان نے اس ادارہ کی قیادت کی لیکن ان میں سب سے نمایاں نام ٹی این سیشن کا ہے۔ سیشن نے ہندوستانی انتخابات کے عمل پر اپنی دبنگ شخصیت کی بدولت ایسے اثرات مرتب کئے ہیں جنھیں آج بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ’تھرو دی بروکن گلاس‘(شیشے کی کرچیوں سے) ٹی این سیشن کی خود نوشت ہے جو بعد از مرگ، گزشتہ برس کے آخر میں منظر عام پر آئی۔
سیشن، ۱۵؍ مئی ۱۹۳۳ء کو کیرالا کے ایک تعلیم یافتہ خاندان میں پیدا ہوئے۔ اسکول میں تاریخ پیدائش ۱۵؍ دسمبر۱۹۳۲ء لکھوائی گئی۔ ذہین طالب علم رہے۔ آئی اے ایس کا امتحان پاس کرکے افسر شاہی کا حصہ بنے۔ سلسلۂ افسران کی چوٹی یعنی کابینہ سیکریٹری کے عہدہ تک پہنچے۔ بالآخر ملک کے دسویں چیف الیکشن کمشنر بنے۔ پھر ۶؍ برس پوری گھن گرج کے ساتھ اور زبردست مخالفتوں کے باوجود الیکشن کے عمل کو زیادہ بامعنی، شفاف اور ناپسندیدہ اثرات سے پاک بنانے میں لگے رہے۔ ۱۹۹۶ء میں سُبکدوشی کے بعد صدرجمہوریہ کے الیکشن میں اُمیدواری کی لیکن جیت نہ سکے۔ روحانیت، موسیقی اور دیگر دلچسپیوں میں خود کو مصروف رکھتے ہوئے ۲۰۱۹ء میں عالم بالا کے سفر پرروانہ ہوگئے۔ کتاب میں انھوں نے اپنے بچپن، زمانہ طالب علمی اور شادی وغیرہ کے احوال درج کئے ہیں لیکن ہماری دلچسپ الیکشن کمیشن میں ان کے کام میں تئیں ہی زیادہ ہے لہٰذا اختصار کی خاطر ہمیں کتاب میں شامل بہت ساری دلچسپ باتیں نظر انداز کرنی پڑ رہی ہیں۔
زبرد ست انتخابی اصلاحات
ٹی این سیشن کی میعاد یعنی ۱۹۹۰ء سے ۱۹۹۶ء تک الیکشن کمیشن ایک طاقتور اور بااثر ادارہ بن کر اُبھرا۔ ہندوستانی عوام کی نظروں میں الیکشن کی اہمیت میں اضافہ ہوا۔ آبادی کے تناسب سے رائے دہندگان کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہوا۔ سیشن کو انتخابی اصلاحات پرعمل درآمد کیلئے ۱۹۹۶ءمیں بین القوامی ریمن میگ سیسے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اور یہ بالکل سچ ہے کہ الیکشن کے نظام میں اصلاحات کی ٹھوس اورموثر کوششیں صحیح معنی میں سیشن کے دور ہی میں شروع ہوئیں۔
• دھاندلی سے پاک انتخابات کیلئے ڈیڑھ سو ممنوعہ افعال کی فہرست مرتب کی گئی۔ اس دوران رائے دہندگان کو شراب اور نقد رقم کے لالچ دینے پر سختی کے ساتھ کاروائیاں ہوئیں۔ دیواروں کو بدنما کرنے والے پوسٹروں کی ممانعت سے لے کر لاوڈاسپیکر کے بیجا استعمال پر قدغن تک، نہ جانے کتنے اقدامات اٹھائے گئے۔ ان کے دورمیں عوام نے بڑی راحت محسوس کی۔
• تمام ریاستوں میں کمیشن کے نگراں مقرر کئے گئے جو اشتعال انگیز تقریروں، ووٹروں کو دھمکانے، ووٹوں کی چوری اور تشدد جیسے معاملات پر نظر رکھیں۔ الیکشن کے عمل کی ویڈیو گرافی کا آغاز ہوا الیکشن کے دوران ہونے والے تشدد میں کافی کمی واقع ہوئی۔
• ووٹروں کے شناختی کارڈ بنانے کا عمل شروع ہوا جس نے جعلی ووٹنگ پر لگام لگانے میں بہت مدد کی۔ مختلف بوتھوں کے بیلٹ پیپر کو پہلے آپس میں ملا جُلا کرکے پھر ان کی گنتی کرنے کے نئے طریقہ کو متعارف کروایا گیا۔
• انتخابات کا مِثالی ظابطۂ اخلاق اُن کے دور تک محض ایک اکیڈمک دلچسپی کی دستاویز تھا۔ سیشن نے اس کو ایک قابل دید عمل میں ڈھالا۔ امیدواروں کو برتاؤ اور انتخابی خرچ سے متعلق سخت ڈسپلن کا پابند بنایا گیا۔ پارٹیوں کے نشانات پر نظر ثانی کی گئی مثلا سواستک کے نشان کو حذف کیا گیا۔ پرندوں کے نشان ختم کئے گئے کیونکہ الیکشن مہم کے دوران پرندوں کا استعمال کیا جا رہا تھا جس سے ان کو تکلیف ہوتی تھی۔
یہ بھی پڑھئے: وزیرقانون نے مجھے چائے پر مدعو کیا لیکن اپنےعہدہ کا پاس رکھتے ہوئے میں نے منع کردیا
بے خوفی، بیباکی، درشتی
ہر انسان اپنے آپ میں کچھ نمایاں خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ جولوگ اپنی صلاحیتوں کو پہچانتے ہیں، کامیابی کے امکانات کواپنے قریب پاتے ہیں۔ جو قابلیتوں کے ادراک کے ساتھ ان کی نشوونما کرتے ہیں، وہ انسانی معاشرے پر اپنا نقش چھوڑ جاتے ہیں اور سیشن کا شمار انہیں میں ہے۔
افسری کے شروعاتی دور میں اُن کو مشکل کاموں سے نبٹنے کا خوب تجربہ حاصل ہوا۔ ۱۹۶۵ءمیں جب حکومت نے شیخ عبداللہ کو زیرِحراست لیا تو کوڈائی کنال میں سیشن ہی پر اُن کے رہنے سہنے کے انتظام کی ذمہ داری آپڑی۔ حکومت کے خفیہ حکم کے مطابق کشمیر کےقدآور لیڈر کو کسی قسم کی تکلیف ہونے نہ دینا ضروری تھا۔ دوسری طرف شیرِکشمیر کے مزاج کو جھیلنا بھی ایک کارِدشوار تھا۔ نوجوان سیشن نے یہ کام بخوبی انجام بھی دیا۔ کتاب میں اپنی زندگی کے حالات بیان کرتے ہوئے سیشن ہمیں بیحد صاف گو شخص دکھائی دیتے ہیں۔ ظاہر و باطن کے تضادات سے پاک، مزاج کی سختی اورغیر مصالحانہ رویہ ان کی شخصیت کے نمایاں پہلو تھے۔ اُنھیں اس کا کوئی افسوس نہ تھا۔ سیشن نے ان خصائص کو کمزوری کے بجائے اپنی طاقت بناتے ہوئے اپنے فرائض بخوبی ادا کئے۔
۱۹۷۲ میں وزیراعظم اندرا گاندھی سیشن کو شعبۂ جوہری توانائی سے شعبۂ خلائ سائنس میں منتقل کرنا چاہتی تھیں لیکن اُس وقت سیشن کے افسر ڈاکٹر ہومی سیٹھنا نے ان کی مخفی فائل پرمنفی ریمارکس لکھے۔ اِندرا نے سیشن کو اپنے دفتر بلوایا۔ ’ تو تم سیشن ہو۔ تم سیٹھنا سے اتنی بدتمیزی سے کیوں پیش آتے ہو ؟‘ پھر یکے بعد دیگرے انھوں ریمارکس پڑھ کر سنائے۔ ’’کیا تم جارح (Aggressive)، رگڑنے والے (Abrasive)اور دھونس جمانے والے بدمعاش (Bully)ہو؟ ‘‘ سیشن نے وزیراعظم سے کہا کہ پہلے دو القاب سے وہ اتفاق کرتے ہیں لیکن ایسا سب کچھ وہ کام کروانے کے مقصد سے کرتے ہیں۔ البتہ وہ بدمعاش نہیں ہیں اور کبھی کسی کمزور کو پریشان نہیں کرتے۔ حقیقتاً وہ صرف طاقتور لوگوں سے جھگڑے مول لیتے رہے۔ اندرا گاندھی جیسی شخصیت کے سامنے اس خود اعتمادی ہی کی بدولت انھیں ترقی کے زینے پر اوپر کی جانب قدم بڑھانے کا موقع ہاتھ آیا۔
۱۹۹۵ء میں نیو یارک ٹائمز کے ایک مضمون میں سیشن کو ’ہندوستان کے گھر کی صفائی کرنے والا دیو‘ بتایا گیا۔ یہ ایک طرح کی تعریف تھی۔ اخبار نے لکھا کہ ہندوستان میں سب سے مقبول شخص اور سب سے سخت گیر شخص کیلئے رائے شماری کرائی جائے تو دونوں زمروں میں ٹی این سیشن کا نام سب سے اوپر ہوگا۔ آپ بیتی میں خود انھوں نے آمر (Dictator)اور خبط عظمت (Megalomania)کا شکار ہونے کے الزامات پرجو صفائی پیش کی ہے، پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
سخت حالات، مشکل فیصلے
آج کے حالات کے بالکل برعکس انھوں نے حقیقی معنی میں کمیشن کو حکومت کے کنٹرول سے باہر نکال کر اسے دستوری فرائض کی ادائیگی کی طرف گامزن کیا۔ سیشن کے سخت اقدامات کی ضرب سیاسی پارٹیوں اور نیتاؤں پر بھی پڑی۔ زیادہ تر لیڈر ان سے خائف رہتے تھے لیکن انھیں صرف اپنے فرض کی پروا رہی۔ بحیثیت سی ای سی، ان کا دور نرسمہا راؤ کی وزارتِ عظمی کے دور کے متوازی رہا۔ را ؤ بڑے زیرک سیاستدان تھے۔ انھوں سیشن کے پر کترنے کی غرض سے ان کے متوازی مزید دو الیکشن کمشنروں کو مقرر کردیا۔ ٹی این سیشن اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے بھی رجوع ہوئے تھے۔
سخت فیصلے کرنا ٹی این سیشن کیلئے کچھ مشکل نہیں تھا۔ انتخابات کے دوران راجیو گاندھی کی ناگہانی موت کے بعد انھوں نے عام انتخابات کے دو مرحلوں کو ملتوی کر دیا تھا۔ ایک دفعہ انھوں نے یوپی اور بہار کے ۵؍ پارلیمانی حلقوں کے انتخابات کو دھاندلی کی وجہ سے باطل قرار دے دیا تھا۔ اگست ۱۹۹۳ء میں تمام انتخابات کو ملتوی کرنے کا حکم جاری کیا جس پر سبھی سیاستدانوں نے اعتراض کیا تھا۔ ایک دفعہ لال کرشن اڈوانی نے صدر جمہوریہ سے ان کی کڑی شکایت کی تھی۔ ایک اور موقع پر اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی نے ان کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ انتظامی سسٹم اورافسران کی بدعنوانی پر انھوں کچھ ایسے تبصرے کئے کے بیوروکریٹ ان کے خلاف ہوگئے تھے لیکن سیشن نے کسی کی پروا نہیں کی۔ کبھی اپنی پوزیشن سے ہٹے نہیں۔
۱۹۹۴ءمیں ریلائنس انڈسٹریز کے پرائیویٹ ہوائی جہاز میں سفر کرنے کی وجہ سے سیشن پر شدید تنقیدیں بھی ہوئیں۔ بعد میں انھوں نے وضاحت کی تھی کہ ان کیلئے یہ ذاتی سفر بے حد ضروری تھاکیونکہ انہیں کوئی دیگر فلائٹ میسر نہیں تھی۔ انھوں نے سفر سے پہلے ہی دھیروبھائی امبانی سے کہہ دیا تھا کہ وہ صرف قیمت ادا کر کے ہی یہ پرواز استعمال کریں گے۔ سفر کے فوراً بعد انھوں کمپنی کوبہت بڑی رقم بذریعہ چیک ادا بھی کردی تھی۔
کتاب آسان زبان میں بےشمار دلچسپ واقعات کا ایک مجموعہ ہے۔ پڑھتے ہوئے ہمیں اُس دور میں اقتدار کے ایوانوں کے ماحول، سیاسی لیڈروں اور افسر شاہوں کے طریقے کار اور انتظامیہ کی بازیگری سے خوب واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ حالیہ برسوں میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے متعلق ایک عرضی کی سماعت کے دوران یہ تبصرہ کیا تھا کہ آج کے حالات میں ملک کو ٹی این سیشن جیسے چیف الیکشن کمشنر کی ضرورت ہے جو کسی کے دباؤ میں نہ آسکے۔