Inquilab Logo

بے روزگاری کے مسئلے کوحل کرنے میں حکومت کو دلچسپی نہیں

Updated: February 23, 2020, 2:22 PM IST | Jamal Rizvi

اس کی ایک بڑی وجہ عوام خود ہیں۔ وہ ایسے موضوعات پر حکومت کا آلۂ کار بن گئے ہیں جو اُن کی بنیادی ضرورت نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب تک عوام خود اپنی زندگی کے بنیادی مسائل کے متعلق بیدار نہیں ہوں گے، تب تک اقتدار کے ذریعہ ان کے استحصال کا سلسلہ کیوں کر رُکے گا؟

بے روز گاری کے مسئلے کو حل کرنے میں حکومت کو  دلچسپی نہیں ۔ تصویر : آئی این این
بے روز گاری کے مسئلے کو حل کرنے میں حکومت کو دلچسپی نہیں ۔ تصویر : آئی این این

ملک میں بے روزگاری کا مسئلہ روز بہ روز سنگین شکل اختیار کرتا جارہا ہے اور افسوس کی بات ہے کہ حکومت کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ ملک گیر سطح پر اس مسئلے نے عوام کی روزمرہ زندگی میں جو دشواریاں پیدا کی ہیں ان کے سبب کئی ایسے دوسرے مسائل سر اٹھا رہے ہیں جن سے سماجی نظام میں انتشار اور بدامنی کے آثار نمایاں ہو گیے ہیں۔ یہ مسئلہ ایک طرف جہاں عوام کے طرز حیات کو متاثر کررہا ہے وہیں دوسری جانب ان سماجی اقدار کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے جو ایک خوشحال اورپر امن معاشرہ کے لیے لازمی حیثیت رکھتی ہیں۔حکومتوں کے ذریعہ ملک یا ریاستی سطح پر ترقی کے جو دعوے کیے جا رہے ہیں وہ ان معنوں میں مثالی نوعیت کے ہیں کہ ان کا تعلق ان زمینی حقائق سے برائے نام ہے جو عوام اور معاشرہ کی خوشحالی اور ترقی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ کسی بھی ملک کے معاشی نظام کو مستحکم بنانے اور صالح سماجی اقدار کو پروان چڑھانے میں ان ذرائع کا کلیدی رول ہوتا ہے جو اس ملک کے عوام کے لیے روز گار فراہم کرتے ہیں۔ اس ہدف کو حاصل کرنے میں حکومت کی وہ پالیسیاں اور منصوبے بہت اہمیت رکھتے ہیں جو راست طور پر روزگار فراہم کرنے والے ذرائع کو بہتر اور کار آمد بنانے سے متعلق ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو گزشتہ پانچ چھ برسوں کے دوران مرکز اور ریاستی سطح پر حکومتوں کی جانب سے ایسے ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات نہیں کیے گیے جو عوام کو روزگار فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوں۔ اس وقت ملک میں بے روزگاری کی شرح اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ اس پر قابو پانا بجائے خود ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے ۔ اس کے باوجود حکومتوں کی جانب سے اس مسئلے کے تئیں جس مثالی سرد مہری کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے وہ آئندہ برسوں میں عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔
 بے روزگاری کے اس سنگین مسئلے نے اب ایسی ابتر صورت اختیار کر لی ہے کہ اس کے سبب لوگ خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے میں بھی نہیں ہچکچاتے۔ اگر کسی ملک یا معاشرہ میں بے روزگاری کے سبب عوام خود کشی پر مجبور ہو ں تو یہ سسٹم کی ایسی ناکامی ہے جس کے لیے اقتدار سیدھے طور پرر جواب دہ ہوتا ہے ۔ عوام کے لیے زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے حصول میں آسانی پیدا کرنے کے بجائے اگر اقتدار ایسے سنگین مسائل سے مسلسل چشم پوشی کرتا رہے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ افسوس کی بات ہے کہ اس وقت ملک میں عوام سے اقتدار کے رابطے کی یہی صورت پیدا ہو گئی ہے۔ارباب اقتدار کاغذی اعداد و شمار کی بنیاد پر ملک میں ترقی اور خوشحالی کے جو دعوے کرتے ہیں اصل صورتحال اس سے یکسر مختلف ہوتی ہے ۔ غنیمت یہ ہے کہ بے روزگاری کے معاملے میں حکومتی سطح پر بھی یہ اعتراف کیا جا چکا ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی تعداد میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے تاہم اس اعتراف کے باوجود حکومتی سطح پر ایسے اقدامات اب بھی نہیں کیے جارہے جن سے موجودہ صورتحال میں کسی مثبت یا خوشگوار تبدیلی کا امکان پیدا ہو سکے۔ادھر گزشتہ کچھ مہینوں سے ارباب اقتدار نے اس موضوع پر بولنا ہی کم کر دیا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے سنگین مسئلے پر خاموشی اختیار کر لینے سے عوام کو درپیش مسائل میں کوئی کمی آسکتی ہے ؟
 اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ جب بات حکومت سازی کی آتی ہے تو جن موضوعات اور مسائل کی بنیاد پر عوام کے ووٹ حاصل کیے جاتے ہیں ان میں بے روزگاری کو نمایاں حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں انتخابات کے دور میں جس زور و شور سے اس موضوع پر گفتگو کرتی ہیں حصول اقتدار کے بعد ان کا یہ جوش و خرو ش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے ۔ اس کی تازہ مثال مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی کے وہ انتخابی وعدے ہیں جو ہندوستانی عوام کو روزگار فراہم کرنے سے متعلق تھے۔ بی جے پی نے مرکز میں اپنی گزشتہ پانچ سالہ میعاد کے دوران ہر سال دو کروڑ لوگوں کو روزگار دینے کا وعدہ کیا تھا ۔لیکن دو کروڑ کی بجائے ہزاروں کو بھی بر سر روزگار کرنے میں حکومت ناکام رہی ۔ اس کے برعکس ہوا یہ کہ گزشتہ میعاد میں کیے گیے بعض ناقص قسم کے معاشی فیصلوں کے سبب کروڑوں کو اپنے روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ کسی بے روزگار کو بر سرروزگار کرنے کی بجائے بر سر کار افراد کا بے روزگار ہو جانا اقتدار کی ناکامی کا ثبوت ہے ۔ اس حوالے سے دیکھا جا ئے تو جن بر  سر روزگار لوگوں کے روزگار چھن چکے ہیں اس سے نہ صرف ملک کا معاشی نظام براہ راست طور پر متاثر ہوتا ہے بلکہ اس کے سبب سماج میں کئی دوسرے پیچیدہ قسم کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔بے روزگاری کے مسئلے کے تناظر میں اس ملک کے عوام کا المیہ یہ ہے کہ اقتدار کسی بھی سیاسی پارٹی کے ہاتھ میں ہو ان سب کا رویہ عموماً ایک سا ہی ہوتا ہے۔
 گزشتہ دنوں یہ خبر سامنے آئی تھی کہ حکومت کی ناقص کارکردگی کے سبب ٹیلی کوم سیکٹر میں نمایاں مقام رکھنے والی بی ایس این ایل کے تقریباً ۸۰؍ہزار ملازمین کو رضاکارانہ طور پررٹائر منٹ (وی آر ایس )لینا پڑا۔اس اسکیم کے تحت رٹائر منٹ لینے والوں کو جو فنڈ اور دیگر مالی فائدہ حاصل ہوتا ہے وہ بھی اب تک ان کو نہیں مل سکا ہے ۔ ٹیلی کوم سیکٹر میں پرائیوٹ کمپنیوں کا اثر و رسوخ بڑھنے کے ساتھ ہی بی ایس این ایل کے ملازمین کے سامنے اپنی ملازمت کے تحفظ کا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا۔ چونکہ حکومت بھی بعض مصلحتوں اور مفاد کی بنا پر ان کے اس مسئلے کو حل کرنے میں سرد مہری کا مظاہرہ کرتی رہی لہٰذا اس کمپنی کے ملازمین کے حالات روز بہ روز خراب ہوتے گیے۔دوسرے یہ کہ ٹیلی کوم سیکٹر میں بعض ایسے بڑے تجارتی گھرانوں نے بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ لگایا ہے جن سے مرکزی حکومت خصوصا وزیر اعظم کا والہانہ لگاؤ ہے۔ ان بڑے تجارتی گھرانوں سے اپنے اس لگاؤ کی بنا پر بھی اقتدار نے بی ایس این ایل کے ملازمین کے مسائل کو نظر انداز کیا۔ وی آر ایس کے تحت رٹائر منٹ لینے والے بی ایس این ایل ملازمین کو فنڈ دینے میں جو مثالی قسم کی تاخیر ہوئی اس کے سبب تین رٹا ٹر شدہ ملازمین کو خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانا پڑا۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو عوام کے ان مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے جوکسی فرد اور اس کے اہل خانہ کے لیے مالی سہولت کی فراہمی کی راہ کو مشکل بناتے ہیں۔
 اسی طرح کا ایک معاملہ مدھیہ پردیش کے ان اساتذہ کا بھی ہے جو ریاست کے مختلف تعلیمی اداروں میں عارضی طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ ریاست کے اسمبلی الیکشن کے دوران کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر ان کی پارٹی کو اقتدار حاصل ہوا تو وہ اساتذہ کی عارضی ملازمت کو مستقل کرنے کی سبیل کرے گی۔ اب جبکہ ریاست میں کمل ناتھ حکومت تقریباً ایک سال کی مدت پوری کر چکی ہے اس معاملے میںاب تک کوئی پہل نہیں کی گئی ہے۔ ریاست گیر سطح پر مختلف تعلیمی اداروں میں عارضی طور پر پڑھانے والے یہ اساتذہ گزشتہ دسمبر سے بھوپال میں حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔اپنی عارضی ملازمت کو مستقل کرنے کا مطالبہ کرنے والے ان اساتذہ میں سے بھی بعض نے حالات سے تنگ آکر خودکشی کر لی ہے ۔یہ دو معاملات ایک طرف جہاں سسٹم کی ناکامی کو نمایاں کرتے ہیں وہیں دوسری جانب اس تلخ حقیقت کو آشکار کرتے ہیں کہ حکومت خواہ کسی بھی سیاسی پارٹی کی ہو روزگار جیسے انتہائی اہم موضوع سے ان کی کوئی سنجیدہ دلچسپی نہیں ہوتی ۔ 
 اگر اقتدار واقعی عوام کے مسائل کے تئیں مخلص اور سنجیدہ ہو تو بے روزگاری جیسے اہم مسئلے کو زیادہ دیر تک نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ افسوس ناک صورتحال صرف روزگار کے معاملے میں نہیں ہے بلکہ مہنگائی اور بدعنوانی کے معاملے میں بھی حالات بد سے بد تر ہوتے جارہے ہیں۔ اگر حکومتیں ملک اور ریاست میں ترقی اور خوشحالی کی خواہاں ہیں تو صرف زبانی دعووں سے اس خواہش کی تکمیل نہیں ہو سکتی ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں جو نتیجہ خیز ہوں اور جن کے ذریعہ بے روزگاری کے سنگین مسئلے پر قابو پا یا جا سکے۔بے روزگاری کے مسئلے پر اقتدار کا یہ رویہ بہت کچھ عوام کے ان رجحانات اور ترجیحات کے سبب بھی ہے جن میں معیار زندگی کو بہتر بنانے کی بجائے ان مسائل اور موضوعات پر توجہ اور توانائی صرف کی جاتی ہے جو سیاست دانوں کے ذریعہ عوام کے استحصال کی راہ ہموار کرتے ہیں۔جب تک عوام خود اپنی زندگی کے بنیادی مسائل کے متعلق بیدار نہیں ہوں گے تب تک اقتدار کے ذریعہ ان کے استحصال کا سلسلہ جاری رہے گا

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK