Inquilab Logo

خلیجی ممالک کی ناراضگی اور حکومت کیلئے سبق

Updated: June 12, 2022, 9:57 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

نپور شرما اور نوین جندل کے تنازع نے دنیا کے سامنے ہمیں بے نقاب کر دیا ہے کہ ہم اندرونی طور پر کتنے کمزور ہیں۔ ان حالات میں حکومت کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔

The controversy between Napur Sharma and Naveen Jindal has exposed us to the world
نپور شرما اور نوین جندل کے تنازع نے دنیا کے سامنے ہمیں بے نقاب کر دیا ہے

خود مختار ممالک وہ ہوتے ہیں جو اپنی طاقت کو سمجھتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ انہیں وہ کام کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جو وہ نہیں کرنا چاہتے۔ بین الاقوامی تعلقات میں ایک طاقتور ملک وہ ہوتا ہے جس کا اثر ورسوخ اس کی سرحدوں سے باہر ہوتا ہے۔ یہ طاقت نہ صرف بیرونی اثر و رسوخ کا مقابلہ کر سکتی ہے بلکہ اپنی مرضی دوسرے ممالک اور قوموں پر بھی مسلط کر سکتی ہے۔ 
 امریکہ ایک ایسی ہی طاقت ہے جس کا اثر و رسوخ پوری دنیا پر ہے۔ فوجی طاقت سے لے کر دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہونے تک، دنیا کی کرنسیوں پر امریکی ڈالر کی اجارہ داری سے لیکر ٹیکنالوجی کے میدان میں اس کی برتری تک، یہ چند وجوہات ہیں جن کی بناء پر امریکہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک ہے۔ روس اگرچہ امریکہ سے بہت کمزور اور سوویت یونین سے بھی کمزور ہے لیکن اپنی فوجی طاقت کی وجہ سے شام جیسے ممالک پر تعینات ہے۔ یقیناً چین اب ایک عظیم طاقت بن چکا ہے۔ یہ اس کی مضبوط معیشت کی وجہ سے ممکن ہوا ہے جو ہماری جی ڈی پی کا ۶؍ گنا ہے، اور اس کے فوجی اخراجات کے سبب بھی جس کا بجٹ ہمارے بجٹ سے چار گنا زیادہ ہے۔ چین افریقہ جیسے براعظموں پر خاصا اثر و رسوخ رکھتا ہے جہاں انفراسٹرکچر اور دیگر منصوبوں میں اس کی سرمایہ کاری اسے جغرافیائی سیاست میں بھی فائدہ پہنچاتی ہے۔اس وقت ہندوستان، امریکہ یا چین کی طرح معاشی طور پر مضبوط نہیں ہے۔ فوجی لحاظ سے بھی ہم مختلف ہیں۔ ہمارے پاس دنیا کی دوسری سب سے بڑی فوج ہے (چین کے بعد) لیکن یہ بنیادی طور پر ایک دفاعی فوج ہے جو ملک کی اندرونی شورشوں اور ۲۰۲۰ء سے چین کے خلاف سرحد پر زیادہ توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ یہ ایسی فوج نہیں ہے جو اپنی طاقت کے ذریعے ہماری سرحدوں کے باہر اپنا اثر و رسوخ دکھا سکے۔ ہمارے پاس فوج کو بہت زیادہ طاقتور نہ بنانے کی کئی ایسی وجوہات ہیں جن سے منہ نہیں موڑا جاسکتا۔ ایک غریب ملک کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے محدود وسائل کو ایک ایسی فوجی طاقت تیار کرنے کیلئے خرچ کرے جو خالصتاً دفاع کیلئے قابل استعمال نہ ہو۔ تاہم، ہندوستان کے پاس اب بھی دو طریقے ہیں جن سے وہ دنیا کو متاثر کر سکتا ہے۔ پہلا، دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والی جمہوریت کے طور پر۔ یہ دوسری جمہوریتوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتا ہے اور جمہوری اقدار کو پھیلا سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ چین کی طرح اپنی معیشت کو مضبوط کر سکتا ہے تاکہ تجارت اور سرمایہ کاری کے ذریعے  دنیا پر اثر انداز ہو سکے۔
 مگر حقیقت برعکس ہے۔ ہم دونوں ہی معاملات میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ جمہوریت کا مطلب صرف آزادانہ اور منصفانہ انتخابات اور عالمی حق رائے دہی کا عمل نہیں ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ جمہوریت کے اسی مفہوم سے واقف ہیں لیکن جمہوری دنیا میں دوسرے لوگ جمہوریت کو اس نظر سے نہیں دیکھتے۔ جمہوریت، آزادی اظہار رائے، مذہبی اور معاشی آزادی ، سماجی اور ثقافتی حقوق سے آگاہی اور ان پر عمل کا بھی نام ہے۔ جتنا اہم ووٹ دینا ہے اتنے ہی اہم جمہویت کے یہ اصول بھی ہیں۔ 
 ہمارا ملک مختلف عالمی اشاریہ جات کی بنیاد پر بیشتر شعبوں میں کافی پیچھے ہے۔ کئی عالمی تنظیمیں ان اشاریوں پر نظر رکھتی ہیں اور ہر سال رپورٹ تیار کرتی ہیں اور میں ان رپورٹس کے نتائج سے اتفاق رکھتا ہوں۔ ہندوستان جزوی طور پر جمہوری ہے۔ اور اس وجہ سے ہم اپنی ممکنہ طاقت کو استعمال نہیں کر سکتے۔ اس وجہ سے ہمیں ہندوستان میں انسانی حقوق کی حالت اور اقلیتوں کے ساتھ ہمارے سلوک پر دوسرے ممالک کے لیکچر بھی سننے چاہئیں۔
 معیشت کے معاملے میں اس کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ بنگلہ دیش فی کس جی ڈی پی کے لحاظ سے ہم سے آگے نکل گیا ہے۔ یہ ملک ۲۰۱۴ء میں ہم سے تقریباً۵۰؍ فیصد پیچھے تھا لیکن اب آگے چلا گیا ہے اور مستقبل قریب میں آگے ہی رہے گا۔ بیروزگاری اور کھپت سے متعلق ہمارے سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ملک کے حالات جلد بہتر ہونے کی امید نہیں ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں ہم نے جو رفتار اختیار کی ہے، اس کے پیش نظر یہ واضح ہے کہ ہم معاشی طور پر اگلا چین یا اگلا امریکہ نہیں بنیں گے۔
 ہمارے ارد گرد، جرمنی، جاپان، تائیوان اور جنوبی کوریا جسے ممالک کی اشیاء و خدمات پھیلی ہوئی ہیں کیونکہ ان ممالک نے اپنی معیشت اور ٹیکنالوجیز کو ترقی دی ہے، اس لئے ان میں اپنی سرحدوں سے باہر کی دنیا پر آسانی سے اثر انداز ہونے کی صلاحیت ہے۔ ان تمام ممالک کو یکجا کردیا جائے ، تب بھی ہندوستان ان سے بڑا ہوگا لیکن کمزور معیشت کی وجہ سے ہم میں اتنی صلاحیت نہیں ہے۔ 
 ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا پر چین کا اثر و رسوخ، جو۲۰۰۰ء کے بعد سے تیزی سے پھیل رہا ہے، اتنا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں وہ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا ہے۔ اس کے پاس یو این ایس سی میں چیزوں کو ویٹو کرنے کا اختیار ہے لیکن ایسا اس کی فوجی طاقت کی وجہ سے نہیں ہوا ہے بلکہ مضبوط معیشت کے سبب ہوا ہے۔ان باتوں پر ہمیں اس وقت غور کرنا چاہئے جب ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ ہندوستانی حکومت اور حکمراں جماعت کو چند خلیجی ممالک کے مطالبے کو کیوں تسلیم کرنا پڑا۔ یہ مطالبہ جائز تھا یا نہیں؟ بی جے پی نے ہندوستان کی پوزیشن خراب کی ہے یا نہیں؟ یہ باتیں اہم نہیں ہیں۔ ان کے متعلق کئی مضامین لکھے جاچکے ہیں۔ اہم بات یہ ہےکہ بی جے پی حکومت کو وہ سب کچھ کرنے پر کیوں مجبور کیا گیا جو وہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی ملک کے دانشوروں اور ماہرین کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنائے جانے پر ان کے خلاف کارروائی کرتی ہے۔ اسے اس بات کا علم نہیں تھا کہ وہ اتنی طاقتور نہیں ہے کہ تمام تنقیدوں کو رد کرسکے۔ ہم دنیا کے سامنے جس طرح بے نقاب ہوئے ہیں، اس سے یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ ہم کتنے کمزور ہیں۔ بی جے پی کو اس سے کیا سیکھنا چاہئے؟ بیرونی دباؤ کا مقابلہ کرنے کیلئے وہ ہندوستان کے موروثی اثاثوں کو استعمال کر سکتی ہے اور انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کو زیادہ اہمیت دے کر جمہوریت کو مضبوط بنانے کی کوشش کر سکتی ہے۔ یہ قلیل مدت میں کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کو ایک بڑی اقتصادی طاقت بنانے میں بہت وقت لگے گا لیکن پہلا قدم یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ پچھلے کچھ برسوں میں، خاص طور پر ۲۰۱۶ء کے بعد سے کیا غلط ہوا ہے۔
 اگر ہندوستانی حکومت ان میں سے کوئی کام نہیں کرنا چاہتی تو تیسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ ایسا کوئی کام نہ کرے جس سے بیرونی دنیا ناراضگی کا اظہار کرے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK