Inquilab Logo

نفرتی تقاریر کو روکنا تو پڑے گا ہی!

Updated: March 01, 2024, 3:38 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

واشنگٹن سے کام کرنے والی تنظیم ’’انڈیا ہیٹ لیب‘‘ کی ۴۷؍ صفحاتی رپورٹ کیا کہتی ہے یہ آپ اِس اخبار کی اشاعت برائے ۲۷؍ فروری میں پڑھ چکے ہیں ۔ ہم نہیں سمجھتے کہ یہ بیان کرنے کی ضرورت ہے کہ وطن عزیز میں ، جو محبت، بھائی چارہ، فرقہ وارانہ یگانگت اور کثرت میں وحدت کا قابل فخر نمونہ رہا ہے، نفرت کی زبان کیوں بولی جارہی ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 واشنگٹن سے کام کرنے والی تنظیم ’’انڈیا ہیٹ لیب‘‘ کی ۴۷؍ صفحاتی رپورٹ کیا کہتی ہے یہ آپ اِس اخبار کی اشاعت برائے ۲۷؍ فروری میں  پڑھ چکے ہیں ۔ ہم نہیں  سمجھتے کہ یہ بیان کرنے کی ضرورت ہے کہ وطن عزیز میں ، جو محبت، بھائی چارہ، فرقہ وارانہ یگانگت اور کثرت میں  وحدت کا قابل فخر نمونہ رہا ہے، نفرت کی زبان کیوں  بولی جارہی ہے۔ اس کا مقصد سیاسی ہے۔ کچھ لوگ نفرت انگیز بیانات اور تقاریر کو ووٹوں  کے ارتکاز کا سب سے مؤثر ذریعہ سمجھنے لگے ہیں ۔ یہ اُن کی بھول ہے مگر جب بھول کی جاتی ہے تب کوئی اعتراف نہیں  کرتا کہ وہ بھول کررہا ہے۔ اُسے تب سمجھ میں  آتا ہے جب بھول کے نتائج و عواقب اُس کے سامنے ہوتے ہیں ۔ جو لوگ نفرت پر مبنی بیانات اور تقاریر کے ذریعہ سیاسی روٹیاں  سینکنے پر مامور ہیں  یا کئے گئے ہیں ، وہ ملک کو کوئی فیض نہیں  پہنچا رہے ہیں  مگر جب تک یہ بات اُن کی سمجھ میں  نہیں  آتی تب تک وہ ایسا کرتے رہیں  گے کیونکہ اُنہیں  نہ تو اُن کی پارٹیاں  روک رہی ہیں  نہ ہی کوئی اور۔ روکنے ٹوکنے کی روش پر اگر کوئی اب بھی قائم ہے تو عدالتیں  ہیں  مگر ایسے افراد کی دیدہ دلیری اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ وہ عدالتی احکام کی بھی پروا نہیں  کررہے ہیں ۔ مذکورہ تنظیم نے اعدادوشمار کے ذریعہ بتایا ہے کہ کس طرح نفرتی بیانات اور تقاریر کی تعداد میں  اضافہ ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تشویشناک ہے۔ اس میں  شک نہیں  کہ مختصر مدت میں  اس کا سیاسی فائدہ حاصل ہو جاتا ہے اور ووٹوں  کا ارتکاز عمل میں  آجاتا ہے جسے ’’پولرائزیشن‘‘ کہتے ہیں  مگر امن و آشتی کے اس ملک میں  اس کی گنجائش نہیں  ہے اور آج نہیں  تو کل، یا تو نفرتی بیانات اور تقاریر کا حربہ آزمانے والے خود پچھتائیں  گے یا حکومت کو اُنہیں  روکنا پڑے گا کیونکہ اس کی وجہ سے گاندھی کا ملک کہلانے والی سرزمین کی شبیہ شدید طور پر متاثر ہورہی ہے۔ یہ شبیہ اتنی مضبوط ہے کہ دُنیا کے مختلف ملکوں  میں  دائیں  بازو کی جماعتیں  اقتدار میں  ہیں  اس کے باوجود ہر سو‘ گاندھی ہی کی جے جے کار ہوتی ہے، گوڈسے کی نہیں  ہوتی۔ جو لوگ اندرون ملک گوڈسے کے پجاری ہیں  اُنہیں  بیرونی ملکوں  میں  جو عزت و توقیر حاصل ہوتی ہے وہ گاندھی کے ملک کا ہونے کے سبب ہی ملتی ہے۔ اس لئے، ہمیں  یقین ہے کہ نفرتی بیانات اور تقاریر پر آج نہیں  تو کل قدغن لگانی ہی پڑے گی، چاہتے ہوئے لگائی جائے یا نہ چاہتے ہوئے۔
   اقوام متحدہ کی ویب سائٹ کے مطابق ’’نفرتی تقریر تشدد اور عدم تحمل کو فروغ دیتی ہے۔ افسوس کہ اس کا تباہ کن اثر نیا نہیں  ہے مگر اس کا اثر اور دائرۂ اثر مواصلاتی تکنالوجی کی وجہ سے کافی بڑھ گیا ہے۔ آن لائن ہیٹ اسپیچ اب عام طریقہ ہے لوگوں  کو بانٹنے اور امن کو خطرہ میں  ڈالنے کا۔‘‘ عالمی ادارہ کے سکریٹری جنرل انتونیو غطریس کے بقول ’’نفرتی تقاریر خطرہ کی گھنٹی ہے (الارم بیل)، اس کی آواز جتنی تیز ہوگی نسلی تطہیر کے خطرہ میں  اُتنا اضافہ ہوگا کیونکہ اس سے تشدد بڑھتا ہے۔‘‘ 
 ان قیمتی بیانات کے باوجود عالمی سطح پر اس وباء کو روکنے کی سنجیدہ کوشش نہیں  ہورہی ہے۔ ہندوستان میں  تو اس کی جگہ نہیں  ہونی چاہئے تھی مگررفتہ رفتہ اس کا دائرہ بڑھ رہا ہے اور اب ایسے لوگ، جو بصورت دیگر مشہور نہیں  ہوئے، اسے مؤثر ذریعۂ شہرت سمجھ کر سرخیوں  میں  جگہ پارہے ہیں ۔ ہمارا ایقان ہے کہ جلد یا بہ دیر اس حربہ کی دھار کند ہوجائیگی مگر تب تک بہت نقصان ہوچکا ہوگا۔ اس لئے بہتر ہے کہ اہل اقتدار ہوش کے ناخن لیں  اور اسے بہر قیمت روکیں ،، فی الفور روکیں  ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK