Inquilab Logo

حج کے بعد زندگی کیسے گزاریں؟

Updated: July 15, 2022, 3:38 PM IST | Dr. Saeed Ahmed Inayatulla | Mumbai

حاجی مختلف قربانیوں سے گزر کر اور اللہ تعالیٰ کی کھلی نشانیوں کو اپنے قلب پر نقش کرکے جب واپس ہوتا ہے تو وہ ایک نیا انسان ہوتا ہے۔ چنانچہ حج کے بعد کی اپنی زندگی کا لائحۂ عمل خود طے کرلے کہ اب اسے جنتیوں والی زندگی ہی گزارنی ہے

Pilgrims performing farewell Tawaf after which they are returning to their homeland.Picture:INN
حجاج کرام ، الوداعی طواف کرتے ہوئے جس کے بعد وہ اپنے وطن واپس ہورہے ہیں ۔ تصویر: آئی این این

شارع الحکیم کی حکمت کہ تمام عالم کے مسلمانوں کو مخصوص وقت میں مخصوص مکان میں ایک ہی جیسے اعمال کا پابند بنایا۔ ایک ہی جیسی نیت، ایک ہی جیسا لباس’’ احرام‘‘، ایک ہی جیسے مناسک حج۔ہم کچھ غور کریں کہ ہمیں حج کے اس عظیم مدرسہ سے کیا کیا دروس وعبرساتھ لے کر جانا ہے؟ حج کے اعمال بھی برائے غورہوںاور اس پر ملنے والا اجر بھی۔
    نبی کریم ﷺنے فرمایا:
lجس نے حج کیا اور اس میں بے حیائی اور فسق وفجور کا ارتکاب نہیں کیا، وہ ایسا لوٹا جیسے آج ہی اس کی ماں نے اسے جنا ہو۔
lحج وہ عمل ہے کہ ۱۰۰؍سالہ بوڑھا بچہ بن کر واپس ہوتا ہے،یہ حج کا دنیوی بدلہ اور اجر ہے۔
lحج مبرور کا بدلہ سوائے جنت کے اور کچھ نہیں ،یہ حج کا اخروی بدلہ اور اجر ہے۔
    جب حج نوجوان اور بوڑھے مرد اور عورت کو بچہ ا ور جنتی بنانے والا عمل  ہے، تو اس کے مناسک بھی مخصوص ہیں۔ پھر حج کرنے کے ما بعد حاجی بچے اور جنتی حاجی کی سیرت اور اس کی بقیہ زندگی میں کردار بھی یہیں سے متعین ہو جاتا ہے۔ حج کے  تمام مناسک ،اورپھران  تمام اعمال کی ادائیگی کی خاطر ایک مدت تک گھر ،  اہل وعیال اور  اپنے کاروبار وغیرہ سے دُوری  ایسا  پروسیس ہے، جس سے گزر کر  ہی بندہ اس درجے تک پہنچتا ہے گویا وہ نومولود ہے۔ حاجی ان قربانیوں سے گزر کر  اور اللہ تعالیٰ کی کھلی نشانیوں کے نقوش کو اپنے قلب پر نقش کرکے جب واپس ہوتا ہے  تو ایک نیا انسان ہوتا ہے۔  یہ نیا انسان  حج کے بعد کی اپنی زندگی کا لائحۂ عمل خود طے کرلے کہ اب اسے  بچہ بن کر ہی رہنا ہے،  اسے جنتیوں والی زندگی ہی گزارنی ہے، اس کی خواہش اپنی نہیں، نہ وہ نفس وشیطان کا غلام رہا۔ حج نے اس کی طہارت کردی، حج نے اسے آزادی دلا دی،  اس کے اندر کا تزکیہ کر دیا،  حج نے اسے وحدتِ ملی کا درس دیا،  حج نے اسے حسنِ معاشرت، برداشت، صبر وتحمل اور قربانی کی خوبصورت صفات سے مزین کیا۔ اس نے اپنے آپ کو ان اعلیٰ اقدار کا عادی بنایا۔ اب بقیہ عمر میں وہ اپنی شخصیت کا بطورِ حاجی خود تحفظ کرے گا۔ جس طرح   بچہ نہ جرم کرتا ہے، نہ مُجرم بنتا ہے اسی طرح جنتی لوگ جرم کرتے ہیں  نہ مجرم بنتے ہیں،  نہ ہی لوگ ان سے شرور کی توقع رکھتے ہیں۔حاجی کو تمام عمر اللہ تعالیٰ کے گھر کی حُرمت، مقاماتِ مقدسہ کے تقدس اور اللہ تعالیٰ کی اس نسبت کی لاج رکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُسے اپنا مہمان قرار دیاتھا۔ پھر اسے خوب نواز کر روانہ کیا ہے۔حاجی کی سیرت میں ربِ جلیل کے ہاں کی مہمانی کی جھلک نظر آتی رہے۔
    حج کے اعمال جنہیں مناسک حج کہا جاتا ہے، کی چھاپ حاجی کے قلب میں لگنے کے بعد، نیز اس کی ’’لبیک‘‘ پر رحمٰن کی طرف سے اس کی حاضری کی قبولیت کی علامت ومثال کو یوں سمجھنا چاہئے کہ کسی ٹریننگ اسکول میں اسٹوڈنٹس جو مشقیں کرتے ہیں  اور وہ تعلیمی اور تربیتی، فکری اور جسمانی طور پر جس پروسیس سے گزرتے ہیںوہ ان کے مقاصد نہیں ہوتے،   ہاں! یہ انہیں مقاصد تک پہنچانے کی تربیت اور ٹریننگ ضرور ہے  البتہ مقاصد تو وہ ہیں، جن کی خاطر انہیں اس تربیت گاہ میں داخل کیا گیا ہے۔ اصل کام تو ان کا اس مدرسہ سے فراغت کے بعد شروع ہوتا ہے جیسے کہ ایک ٹرینی  پولیس مین ہو، فوجی ہو، گارڈ ہو، تربیت گاہ میں کچھ دن اس لئے گزارتا ہے کہ سند ِ فراغت کے بعد وہ اپنی عملی زندگی میںان دروس کی پریکٹس کرے گا۔ اسی طرح ہمیں حج کو اور اس مدرسۂ خیرات وبرکات کو سمجھنا ہے کہ اس مدرسۂ حج سے جو تربیت ہوگی، اس کی عملی تطبیق ما بعد الحج کرنا ہوگی۔ حاجی تو اسی غرض سے اپنے مال، اپنے اعزہ واقرباء، اپنے راحت و آرام اور دیگر قربانیاں دے کر رحمٰن  کا مہمان بنا تھا کہ اس سے جو ملے اسے عظمت کے ساتھ قبول کرلے، اسے محبت کے ساتھ، اپنے ساتھ رکھے، اسے بہترین زادِ حیات سمجھے۔ اب رحمٰن کے شرف ضیافت اور مدرسۃ الحج سے فراغت کے بعد اس کی زندگی حیاتِ طیبہ ہو، حیاتِ سیئات نہ ہو۔ حیاتِ صالحہ ہو، حیاتِ شریرہ نہ ہو ۔جس کے حکم پر ’’لبیک‘‘ پکارتے یہاں پہنچا تھا، اب وہ اسی رحمن ورحیم ربِ کریم کا سفیر بنکر یہاں سے روانہ ہوگا۔    حاجی کو جو یہاں سے ملا، وہ یوں ہے :
    oحج مبرور والا جنتی
    oحج میں فسق وفجور سے باز رہنے والا نومولود 
     حاجی ما بعد حج بچہ ہے، جنتی ہے نیز رحمٰن کا سفیر ہے ۔بچہ مادر وپدر کے رحم وکرم پر ہوتا ہے۔ وہ اپنی ہر خواہش میں والدین کے تابع ہوتا ہے۔ حاجی بچہ آئندہ کی زندگی میں اللہ اور رسولؐ  کا مطیع بندہ ہے۔ جناب رسولؐ اللہ نے دنیا میں جنتی کسے فرمایا؟ جس کا رشتہ رحمٰن سے بھی جڑا ہوا ہو اور اپنے ارحام واقرباء سے بھی۔ وہ بندوں کو جوڑنے والا ہو، توڑنے والا نہ ہو، رحمٰن کا ارشاد ہے:  ’’جو رحم اور رشتوں کو توڑے گا، رحمٰن اسے توڑے گا۔‘‘
    رحمٰن کا مہمان جب رحمٰن کا سفیر بنا تو رحمٰن کیلئے سفارتکاری یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے گھر سے، جو عالمین کیلئے ہدایت کا منبع ہے، وہ جہاں سے لوٹنے والا ہے، وہ جہاں جہاں جائے، وہاں پر اسی ہدایت کو پھیلانے والا ہو۔ حج تو آئندہ کیلئے رحمٰن کی اطاعت کا معاہدہ ہے۔ یہی تو ہے جو حاجی اللہ کے گھر میں آکر کرتا ہے۔ ما بعدحج تمام عمر اس عہد کی وفاداری ہی حاجی کا شعار رہے۔ یہی حج کا وہ عظیم منافع ہے جسے تقسیم کرنے کی خاطر رحمٰن نے اپنے بندوں کو یہاں پر بلایا  اور اپنا مہمان بنایا۔ اس عظیم منافع  کے حامل افرادِ ملت مابعد حج اگر اسی شعور کیساتھ رہیں تو ملت کی نشاۃ ثانیہ اور امت ِ محمدیہ کی رفعت کی بحالی اور عظمت رفتہ کو لوٹانے کیلئے زیادہ وقت درکار نہیں۔ حج کا عمل اور اس کے مختلف مراحل حضرت انسان کے ظاہر و باطن اور اس کے قلب وقالب کی اصلاح کیلئے کامل اور جامع مدرسہ ہیں۔ اس کے مختلف مراحل سے گزر کر  حاجی انسانِ کامل،انسانِ صالح،انسانِ  نافع، اپنی امت مسلمہ کیلئے عموماً اور اپنے اپنے معاشروں،سو سائٹیوںاور علاقوں اور ملکوں کیلئے خصوصاً ایک نفع بخش اور باکردار انسان بن سکتا ہے ۔
    حج سے بہتر موقع ہمیں سال کے دیگر کسی موسم میں حاصل نہیں ہوسکتا کیونکہ حج کے ایام اور اعمال باری تعالیٰ نے حضرت انسان کے قلب وقالب کی تربیت اور اصلاح ہی کیلئے مقرر کئے ہیں ۔ حضرت انسان کو صالح انسان بنانے کیلئے جس قدر علم اور اس کے  اندر کے ایمان ویقین، باطن کے تزکیہ، اخلاقی طہارت،قلب کے نور اور قالب کی اخلاقی تحسین وتجمیل کی ضرورت ہے، حج میں اس کیلئے بہترین مواقع میسر ہیں ۔ حج  وہ عظیم  عبادت ہے جس کے بارے  میں سیکھنے سکھانے کے عمل کا آغاز مناسک حج کی ادائیگی سے  بہت پہلے شروع ہوجاتاہے ۔ابتداء یہاں سے ہوتی ہے کہ حج کیلئے مالی اور جانی استطاعت ضروری ہے اوراس کیلئے ذہنی،فکری، علمی اوراخلاقی تیاری بھی۔ مالی استطاعت میں صرف  یہ نہیں کہ وہ جیسے چاہے اور جہاں سے چاہے مال اکٹھا کرکے حج کیلئے رخت ِ سفر باندھ لیں بلکہ اس کیلئے ضروری ہے کہ طاہر اور پاکیزہ مال ہو، جو جائز اور حلال ذرائع سے حاصل  ہو۔ پھر دوسرا امر یہ کہ جس طرح ہر عبادت کو اس کے مقررہ شرعی طریقہ سے اداکیا جاتاہے  اور اس میں  اعمال کے نبوی طریقہ کو اپنانا ضروری ہے، اسی طرح فریضہ بھی ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم مجھ سے حج کے مناسک سیکھ لو ۔
     پھر حج کا سفر  دنیا سے کنارہ کشی کا سفر بھی نہیں کہ حاجی اپنے ماحول سے بے خبر اور اپنی ذمہ داریوں سے یکسر فارغ ہوکر اس سفر پر نکل جائے بلکہ حج کی فرضیت کیلئے شرط ہے کہ اس کے اہل وعیال اور زیر کفالت لوگوں کے اخراجات کا وہ بندوبست کرکے رخت ِ سفر باندھے ۔ پھر حاجی، مختلف طبائع اور مختلف اذواق اور مختلف عادات والے لوگوں کیساتھ رہنے کا سلیقہ  سیکھتا ہے ۔ سفر کے آداب،ساتھیوں  اور رفقاء کے باہمی حقوق اور آپس میں حسن معاملہ ، مل جل کر رہنا، اجتماعیت کے ساتھ چلنے کے آداب، سفر میں ممکنہ پیش آنے والی وقتی تکالیف کو برداشت کرنے کا سلیقہ،ان تمام  امور  کے علم کے ساتھ ساتھ ان کے اندر ان کی عملی تطبیق کی اہلیت پیدا  ہوتی ہے۔ اس طرح مرحلہ وار حجاج کرام کی تربیت ہوتی ہے۔  انہی تمام  امور کو حج کے بعد والی زندگی میں شامل کرنا  اور شامل رکھنا ہی کامیاب حج کی علامت ہے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK