Inquilab Logo

تجوید اور مخارج کے ساتھ تلاوت کرنا قرآن کا حق ہے

Updated: April 26, 2024, 2:29 PM IST | Maulana Qari Hidayatullah | Mumbai

یہ علم ہمیں اِس بات کی تعلیم دیتاہے کہ حروف کو صحیح طریقے سے ان کے مقررہ مخارج سے ادا کیا جائے۔ اِس کافائدہ یہ ہوگاکہ قرآن مجید کی تلاوت اُس کے حُسن کے مطابق ہوگی اور معانی و مفاہیم پر بھی کوئی اثرنہیں پڑے گا۔

Recitation of the Holy Qur`an with Tajweed will be in accordance with its beauty and will not affect the meanings and concepts. Photo: INN
تجوید سے قرآن مجید کی تلاوت اُس کے حُسن کے مطابق ہوگی اور معانی و مفاہیم پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ تصویر : آئی این این

کسی بھی زبان اور لہجے کی خوب صورتی اُس کے حُسنِ ادائیگی سے ہوتی ہے۔ ہرزبان کا ایک الگ انداز ہوتا ہے اور اگر وہ زبان اُس لہجے اور انداز میں نہ بولی جائے تواُس زبان کی لذت کو محسوس نہیں کیاجاسکتا۔ بعض اوقات تو انداز و لہجے کی تبدیلی سے معنی بدل جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اِس سے بھی زیادہ مختلف صورتِ حال عربی زبان کی ہے اور خاص طور پر قرآن کا معاملہ توبالکل مختلف ہے۔ عربی زبان کی ادائیگی میں زبر، زیر، پیش وغیرہ کالحاظ رکھنابہت ضروری ہے اور اسی طرح حروف کی صحیح ادائیگی بھی بہت ضروری ہے۔ رسولؐ اللہ کاطریقہ تھاکہ جب وحی نازل ہوتی تھی تو آپؐ نازل شدہ آیات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یاد کرادیتے تھے۔ آپؐ صحابہؓ کرام کو نصیحت فرماتے تھے کہ ’جو شخص چاہتاہے کہ قرآن اُس طرح پڑھے کہ جس طرح نازل ہوا ہے تو اُسے چاہئے کہ وہ ’ابن امّ عبد‘ (عبداللہ ابن مسعودؓ) کی طرح پڑھے۔ 
اسی عنوان پر حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایاکہ قرآن چار شخصیتوں سے سیکھو: (۱) عبداللہ ابن مسعودؓ (۲) سالمؓ (مولیٰ ابوحذیفہؓ) (۳) ابی بن کعبؓ یا (۴) معاذبن جبلؓ (متفق علیہ)
تجوید کامعنٰی
تجوید لغوی معنوں میں تحسین الشّئی یعنی کسی چیز کی خوب صورتی یا عمدگی کوکہتے ہیں اور جب یہ لفظ قرآن مجیدکی تلاوت کے لئے بولا جائے تو اس کامطلب ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت اُس کے حسن کے مطابق کی جائے۔ ہم اردو زبان میں اس جیسے الفاظ کثرت سے استعمال کرتے ہیں ‘ مثلاًجیّد، تجدید کرنا وغیرہ۔ اِن تمام الفاظ کامطلب نیاکرنا، بہترکرنااورعمدہ کرنا ہوتا ہے۔ اِسی لئے سرکار دو عالم محمد الرسولؐ اللہ نے فرمایاکہ ’’اچھی آوازوں سے قرآن کو زینت دو۔ ‘‘ ( بخاری، نسائی، ابن ماجہ، دارمی اور بیہقی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ دارمی کی ایک روایت میں زَیِّنُوا کی جگہ حَسِّنُوا کا لفظ آیا ہے۔ )
قرآن مجیدکا یہ اعجاز ہے کہ جب انسان اِسے خوب صورت لہجے میں پڑھتا یاسنتاہے تو اس پر عجیب ساسحر طاری ہوجاتاہے ا ور اِس سلسلے کو موقوف کرنے کوجی نہیں چاہتا۔ قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا ضروری ہے اِس لئے کہ جلدی پڑھنے میں اکثر انسان سے خطا ہوجاتی ہے۔ اِسی لئے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ ’’قرآن ٹھہرٹھہر کے پڑھو۔ ‘‘ (المزمل : ۴) ٹھہرٹھہر کر پڑھنے کافائدہ یہ ہوتاہے کہ جب تجوید کے قواعد کے مطابق انسان تلاوت کرتا ہے تو تلاوت کے دوران اُس کے معانی ومفاہیم بھی ذہن نشین کرتاہے۔ تجوید کے قواعد بالخصوص ’غنّہ‘ اور’مد‘توادا ہی تب ہوں گے جب ترتیل سے یعنی ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کی جائیگی۔ اگر جلدی جلدی پڑھیں گے تو یہ دوصفات قرآن مجید کی تلاوت سے خارج ہوجائیں گی اور اِس وجہ سے تلاوتِ قرآن کاحُسن باقی نہیں رہے گا۔ 

یہ بھی پڑھئے: معاونین اور محسنین کو فراموش کرنا غیر اخلاقی وغیر اسلامی عمل ہے!

مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کاکرم ہے کہ جہاں اُس نے الفاظ کی حفاظت فرمائی اور آج تک تمام الفاظ من وعن اُسی طرح موجود ہیں کہ جس طرح نازل ہوئے، وہیں اُس نے الفاظِ قرآن کے لہجوں کو بھی محفوظ فرمایا۔ اِس سلسلے میں علمائے اُمّت کی قابل قدر کاوشیں ہیں۔ اِس لئے اہل عرب کو بالعموم اورغیراہل عرب کو بالخصوص قرآنی رسم الخط اور تجوید کاعلم حاصل کرنابہت ضروری ہے۔ اِس لئے کہ اگر قرأت کا طریقہ معلوم نہ ہو توجہاں وقف نہیں کرنا ہوگا، وہاں وقف کریں گے اور جہاں رُکنا ہوگا، وہاں پڑھتے چلے جائیں گے اور نتیجہ یہ نکلے گاکہ کسی آیت کامطلب وہ نہیں ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی مراد ہے، مثلاً اردو میں ہم کہتے ہیں کہ ’اُٹھو، مت بیٹھو۔ اِس جملے میں اُٹھنے کاحکم دیا گیا ہے اور بیٹھنے سے منع کیاگیاہے۔ اگر کوئی اِس طرح پڑھے کہ جہاں وقف کرناہے وہاں وقف نہ کرے تو معنیٰ برعکس ہوجائے گا کہ’ ’اُٹھو مت، بیٹھو‘، اِس دوسرے جملے میں بیٹھنے کاحکم ہے اورکھڑے ہونے سے منع کیاگیاہے۔ اِس مثال سے آپ کو اندازہ اور احساس ہوگا کہ قرآن مجید کی تلاوت میں وقوف کاخیال رکھناکتنا ضروری ہے۔ 
تجوید کی اہمیت
یہ علم ہمیں اِس بات کی تعلیم دیتاہے کہ حروف کو صحیح طریقے سے ان کے مقررہ مخارج سے ادا کیا جائے۔ اِس کافائدہ یہ ہوگاکہ قرآن مجید کی تلاوت اُس کے حُسن کے مطابق ہوگی اور معانی و مفاہیم پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ حضوؐرنے فرمایاکہ ’’قرآن اُسی طرح پڑھو جس طرح تمہیں سکھایا گیا ہے‘‘، یعنی قرآن مجیدصحیح طریقے سے پڑھو کیونکہ تمہیں صحیح قرأت کی تعلیم دی گئی ہے۔ صحیح قرأت سے مراد قرآن مجید کو تجوید سے پڑھناہے کیونکہ قرآن اِسی طرح نازل ہوا ہے۔ 
حضرت حذیفہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضوؐر نے فرمایا: قرآن عرب کے لہجوں اور آوازوں میں پڑھو اور اپنے آپ کوعشقیہ نغموں اور اہل کتاب کے طریقوں سے بچاؤ۔ میرے بعد ایک قوم آئے گی جو قرآن کوبنابناکرپڑھے گی (یعنی نغموں کے انداز میں ) اور گاگا کر جس طرح راگ اور گیت گائے جاتے ہیں اور حالت یہ ہو گی کہ قرآن اُن کے حلق سے نہ اُترے گا (یعنی دل پر کوئی اثرنہ کرے گایاوہ قبول نہیں کیاجائے گا)۔ اِن لوگوں کے دل فتنے میں پڑے ہوں گے اور اِن لوگوں کے دل بھی جن کو یہ گاگا کر پڑھنا اچھا معلوم ہوگا۔ ‘‘ (بیہقی، فی شعب الایمان)
اِس حدیث کامدَّعابھی یہی ہے کہ غیرعرب مسلمانوں کے لئے سب سے بہترطریقۂ تعلیم یہی ہے کہ وہ اہلِ عرب کی پیروی کریں اوراُس لہجے کی ادائیگی اور طریقۂ تعلیم پرنگاہ رکھتے ہوئے قرآن مجید کی تلاوت کریں۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خود قرآن مجید اُنہی کے درمیان نازل ہوا، اِس لیے اہلِ زبان ہونے کی وجہ سے قرآنِ مجید کی تلاوت ان سے بہتر کوئی نہیں کرسکتا۔ 
اللہ تعالیٰ نے بھی مسلمانوں کی ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ ’’وہ لوگ کہ جن کو ہم نے قرآن عطا کیاہے وہ اِس کی تلاوت کرتے ہیں کہ جیسے تلاوت کرنے کا حق ہے۔ ‘‘ (البقرۃ:۱۲۱) 

یہ بھی پڑھئے:معاشرت، فطرت اور اسلامی تعلیمات

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کافرمان ہے کہ ’’تجوید حرفوں کا (اُن کے مخرج سے) اداکرنا اور وقوف پر نگاہ رکھناہے۔ ‘‘ حضرت علی ؓ نے اِس قول میں دو اُمورکی طرف توجہ دلائی کہ حروف کو مخارج سے ادا کریں کیونکہ اگر حروف مخارج سے ادا نہیں ہوں گے توحروف ہی بدل جائیں گے اوردوسری بات یہ کہ وقوف پر نگاہ رکھنے کامطلب یہ ہے کہ جہاں رکناہے وہاں رکیں، کیونکہ جہاں بات ختم ہورہی ہوتی ہے وہاں وقف کرناضروری ہوتا ہے۔ 
 دورانِ تلاوت غلطیوں کی چند مثالیں 
چند مثالوں کے ذریعے ہم یہ بات سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر حروف مخارج سے ادا نہ ہوں توکس قسم کی شدید غلطیاں ہم سے سرزدہوسکتی ہیں۔ (معاذاللّٰہ من ذٰلک)
 سورۂ اخلاص میں اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ، ’’کہو وہ اللہ ایک ہے‘‘۔ اب ا گر یہاں ’ق‘کی جگہ’ک‘ پڑھیں تو جملہ ہوگا کُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ اورمعنیٰ ہوگا ’’کھاؤ وہ اللہ ایک ہے۔ ‘‘ کیونکہ ’قُلْ‘کا مطلب ہے ’کہو‘ اور ’کُل‘ کا مطلب ہے ’کھاؤ‘۔ دونوں ہی امرکے صیغے ہیں لیکن ایک حرف کی تبدیلی سے پورا مطلب تبدیل ہوگیااوراللہ تعالیٰ کی جومرادہے وہ نہیں رہی۔ 
 ’قلب‘کامطلب ہے ’دل‘۔ اگر ’قلب‘ کی ادائیگی میں ’ق‘ کی جگہ ’ک‘ ادا کردیا تو لفظ ’کلب‘ ہوجائے گا اور ’کلب‘ کا مطلب ہے ’کتّا‘۔ 
ص کی جگہ س پڑھنابھی شدید قسم کی غلطی ہے مثلاً: اِذَاجَاءٓ نَصْرُاللّٰہِ میں نصرکامطلب ہے ’مدد‘ اور اگر نصر کی ادائیگی میں ’ص‘کی جگہ ’س‘ پڑھ دیاتو نسر ہوگیا جس کا مطلب ہے ’گدھ‘ (پرندہ)۔ یہاں ایک حرف کی تبدیلی سے پورا مطلب ہی تبدیل ہوجائے گا۔ 

یہ بھی پڑھئے: گرماکی تعطیلات :بچوں کے ایمان و عقائد پر محنت کیجئے

قرآن مجید کو تجوید کے مطابق پڑھنا نہایت ضروری ہے اِ س لئے جہاں ہم دنیاکے دیگر علوم حاصل کرتے ہیں اور اُس میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اگر تھوڑاسابھی وقت قرآن کودیں توقرآن ہماری زندگیاں بدل دیگا۔ 
اُستاد المجوّیّدین علّامہ جزریؒ علم تجوید کے ائمہ میں سے ایک امام ہیں اور اُن کی کتاب مقدّمۃ الجزری علم تجوید کے حوالے سے مستند کتاب ہے۔ حضرت علّامہ فرماتے ہیں کہ: علم تجوید کا حاصل کرنا واجب اور ضروری ہے کیونکہ قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے تجوید کے ساتھ نازل کیاہے۔ اور اِسی شان سے اللہ تعالیٰ نے ہم تک پہنچایاہے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایاکہ: بے شک اللہ تعالیٰ یہ بات پسند فرماتے ہیں کہ قرآن اس طرح پڑھا جائے کہ جس طرح وہ نازل ہوا تھا۔ (رواہ ابن خزیمۃ فی الصّحیح)
اِس حدیث سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس شخص کو پسند فرماتے ہیں جو صحیح طریقے سے قرآن مجید کی تلاوت کرے اور حروف کے مخارج کا خیال رکھے۔ قرآن اچھی آوازوں، بہترین ادائیگی اور عمدہ قرأت کے ساتھ نازل ہوا ہے۔ اِس لیے اُمّت کو بھی یہی حکم دیاکہ جس طرح قرآن مجیدنازل ہواہے اُسی طرح پڑھو۔ رسولؐ اللہ نے فرمایاکہ: وہ ہم میں سے نہیں ہے جوقرآن کو اچھی آوازوں سے نہ پڑھے۔ اِس حدیث کو امام بخاری ؒ، امام ابوداؤدؒ، امام دارمیؒ، امام احمد بن حنبلؒ اور امام بیہقیؒ نے اپنی کتب احادیث میں نقل کیا ہے۔ اِسی عنوان کی ایک اور حدیث ابن ماجہؒ نے سنن میں نقل کی ہے۔ 
حضرت عبدالرحمٰن بن سائب کہتے ہیں کہ حضرت سعد بن وقاصؓ ہمارے ہاں تشریف لائے، اُن کی بینائی ختم ہوچکی تھی، میں نے اُن کو سلام کیا۔ فرمایا:کون؟ میں نے بتایا، توفرمایا: مرحبا بھتیجے! مجھے معلوم ہوا کہ تم خوش الحانی سے قرآن پڑھتے ہو۔ میں نے رسولؐ اللہ کویہ فرماتے سناہے کہ یہ قرآن آخرت کی فکر لے کراُتراہے۔ اِس لئے جب تم تلاوت کرو تو (فکر ِآخرت سے) روؤ، اگر رونا نہ آئے تورونے کی کوشش کرواور قرآن کو خوش الحانی سے پڑھو۔ جو قرآن کوخوش الحانی سے نہ پڑھے (یعنی قواعد ِ تجوید کی رُوسے غلط پڑھے ) تو وہ ہم میں سے نہیں۔ ‘‘(سنن ابن ماجہ، باب فی حسن الصّوت بالقرآن، باب نمبر۱۷۶)
اِن دونوں احادیث میں ایک طرح سے سخت تنبیہ کی گئی ہے کہ اچھی آوازوں سے قرآن مجید پڑھا کرو۔ اِن احادیث کایہ مطلب نہیں کہ ہر شخص کسی بڑے قاری کی طرح خوش الحانی سے قرآن مجید پڑھے یا یہ کہ صرف حسین آوازوں والے ہی تلاوت کریں اور جس کی آوازاچھی نہیں وہ تلاوت ہی نہ کرے بلکہ مراد یہ ہے کہ اچھی آوازوں والے تو خوب صورتی سے تلاوت کریں گے ہی لیکن سادہ آواز والے بھی مشق اُسی نہج پر کریں تاکہ اُن کا انداز بہتر ہوسکے۔ حقیقت تویہ ہے کہ اگر سادہ آواز میں صاف شفاف اندازسے تلاوت کی جارہی ہو توسننے میں بہت لطف آتا ہے۔ خوش الحانی تو اللہ تعالیٰ کی دین ہے لیکن اچھی طرح اورصاف لہجے میں توہر فردپڑھ سکتا ہے۔ 
بہت سے لوگ خوش الحانی سے قرآن مجید پڑھنے کی کوشش میں تلاوت کی صحت کاخیال نہیں رکھتے اورحروف کے مخارج وصفات کوبھی مدّنظر نہیں رکھتے۔ اِسی وجہ سے قرآن مجیدکی تلاوت وہ نہیں ہوتی جو قرآن مجیدمیں لکھی ہوئی ہے، بلکہ وہ عجیب و غریب چیزبن جاتی ہے۔ مخارج کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے ورنہ حروف بدل جائیں گے اور خاص طور پر مشابہت والے حروف کا خیال رکھنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ’ض‘کی جگہ ’ظ‘ادا ہورہاہو اور ’ص‘کی جگہ ’س‘ پڑھا جارہا ہو۔ اگر کوئی اپنی اصلاح نہیں کرے گاتووہ صحیح تلاوت کبھی نہیں سیکھ سکتا اورہمیشہ غلط طریقے سے قرآن مجید کی تلاوت کرتا رہے گا۔ ایسے لوگ اللہ کے پسندیدہ نہیں ہوسکتے۔ قرآن کا جو قاری تجوید اور صحت کے ساتھ قرأت نہ کرے تو وہ قرآن کا حق ادا نہیں کرپاتا۔ 
علمِ تجوید کاموضوع
علمِ تجوید کابنیادی موضوع قرآن مجید کے الفاظ وحروف ہیں، تلفظ اور ادائیگی میں عمدگی اور بہتری کے اعتبار سے۔ اگرچہ یہی حروف توعربی گرامر کابھی موضوع ہیں لیکن وہ بناوٹ کے اعتبار سے ہیں کہ یہ لفظ کس طرح بنااور کس طرح بنے گا اوراِس میں کون سا قاعدہ جاری ہوگا۔ علم تجوید حروف کی ادائیگی اور صحیح تلفّظ کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے کہ یہ حرف اداکس طرح ہوگااور یہ کہ مشابہت والے حروف میں فرق و امتیاز کس طرح کیاجائے گا۔ قرآن مجیدکو آہستہ آہستہ اور حروف و الفاظ پرغور کرتے ہوئے ٹھہر ٹھہر کے پڑھنے میں کتنا اَجر ہے، اِس کااندازہ اِس حدیث سے لگایاجاسکتاہے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قرآن پڑھنے والے مسلمان سے قیامت کے دن کہاجائے گا: پڑھتاجا (منازلِ جنت) چڑھتا جا اور دنیا میں جس طرح ترتیل سے (ٹھہر ٹھہر کر) پڑھتا تھااب بھی اُسی انداز میں پڑھ (تاکہ زیادہ منزلیں طے کرسکے) کیونکہ جنّت میں تیری آخری منزل وہی ہوگی جہاں تو آخری آیت ختم کرے گا۔ ‘‘ اِس حدیث کو امام ترمذی ؒ، امام ابوداؤدؒ، امام بیہقی ؒ نے اپنی کتب احادیث میں نقل کیاہے۔ 
حدیث ِ مذکور پر غور کیاجائے تومعلوم ہوگاکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدکوتجوید سے پڑھنے والے کے لئے کتناعظیم الشان اَجررکھاہے۔ اِس حدیث میں درحقیقت اللہ تعالیٰ مومنوں کو حکم فرمارہے ہیں کہ قرآن مجید تجوید سے پڑھو۔ تجوید سے قرآن مجید پڑھنے سے جہاں اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور قرآن مجید کی تلاوت کاحق اداہوتاہے وہاں خود قاریٔ قرآن کے درجات بھی بلند ہوتے ہیں اور جنّت میں بلند درجوں کے اہل لوگوں میں اس کا شمار ہوتاہے۔ یہ قرآن کااعزاز ہے کہ اِ س کے پڑھنے والوں کواللہ تعالیٰ اتناعظیم الشان اَجر عطا فرمائیں گے۔ 
خود حضوؐرکو اللہ تعالیٰ نے ترتیل سے قرآن مجید پڑھنے کاحکم دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’اور قرآن کو ہم نے جدا جدا کر کے اتارا تاکہ آپ اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں۔ ‘‘( الاسراء:۱۰۶) ’مکث‘ ٹھہرنے کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔ اِسکامقصد بھی وہی ہے جو ترتیل کاہے کہ قرآن مجید آہستہ پڑھنے سے مراد غور وفکر سے تلاوت کرنا ہے۔ 
رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’ہرچیزکاایک زیورہے اور قرآن کازیور خوش الحانی ہے۔ ‘‘ یہاں زیور سے مراد ’حسن‘ہے اورحقیقت یہ ہے کہ قرآن کا حسن قرآن کوحسین آوازوں سے پڑھناہے۔ اِسی لئے تو حضوؐرنے فرمایا: ’’خوب صورت آوازوں سے قرآن کوحُسن دو کیونکہ خوش الحانی سے قرآن کاحُسن دوبالا ہوجاتا ہے۔ ‘‘ (دارمی)

یہ بھی پڑھئے: معاشرت، فطرت اور اسلامی تعلیمات

خوش الحانی سے حضوؐر کی محبت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ ؐخوش الحانی کوبہت پسند فرماتے تھے اور خوش الحان قاریوں کی تلاوت فرمائش کر کے سنتے تھے۔ حضوؐرکوخوش الحانی کتنی پسند تھی، اِس کا اندازہ اِن احادیث سے لگایاجاسکتاہے:
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ نے اِن سے فرمایا: ’’تمہیں آل داؤدکے لحن سے خوش الحانی کاایک حصہ عطا ہوا ہے۔ ‘‘ (متفق علیہ) مسلم کی روایت میں یہ بھی ہے کہ رسولؐ اللہ نے اُن سے فرمایا:’’اگر تم مجھے گزشتہ رات دیکھتے جب میں تمہارا قرآن سن رہا تھا (تو بہت خوش ہوتے)۔ ‘‘ (مسلم)
روایات میں آتاہے کہ نبی مہربان، ؐصحابہؓ سے حسن الصّوت (اچھی آواز) سے تلاوت سماعت فرماتے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں : رسولؐ اللہ نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔ میں نے تعجب سے عرض کیا: یارسولؐ اللہ ! میں اور آپؐ کوقرآن سناؤں ؟ آپؐ پر تو قرآن نازل ہوا ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا:’’مجھے دوسروں سے سننا اچھا لگتا ہے۔ ‘‘ چنانچہ میں نے سورۂ نساء آپؐ کو سنائی اور جب میں اس آیت فَکَیْفَ اِذَا …الخ پرپہنچا تو آپ ؐ نے فرمایا: بس کافی ہے۔ تب میں نے آپؐ کی طرف دیکھا تو آپؐ کی آنکھوں سے آنسوؤں کے موتی گر رہے تھے۔ (متفق علیہ)
حضوؐرکی خوش الحانی
حضوؐرخودبھی نہایت خوش الحانی سے تلاوت فرماتے تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسولؐ اللہ کویہ فرماتے سناہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کسی آواز کی طرف اتنا متوجہ نہیں ہوتا جتنا نبیؐ کی خوش الحانی اور بلند آواز سے قرآن پڑھنے پر متوجہ ہوتاہے۔ ‘‘ (متفق علیہ)
حضرت براء بن عازبؓ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے رسولؐ اللہ کو عشاء کی نماز میں والتِّیْن پڑھتے سنا (تو اُس وقت کی کیفیت بتانہیں سکتا)۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے تو ایسی خوش الحانی کبھی نہیں سنی تھی۔ ‘‘ (بخاری، باب قول النّبیؐ)
اِن احادیث کا واضح مفہوم یہ ہے کہ حضوؐر کو اچھی آوازوں میں تلاوت سننابہت پسند تھااورآپؐ خود بھی انتہائی خوب صورت آوازمیں قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے۔ اس لئے قرآن مجید کواچھی آواز اور اچھی ادائیگی سے پڑھنا چاہئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اوررضاکاباعث بھی ہوگی اور دنیا اور آخرت میں کامیابی کی ضمانت بھی ہوگی۔ 
 تجوید القرآن کے حوالے سے تقریباً ۱۰۰؍ سے زائداحادیث وارد ہیں۔ یہاں صرف تذکیر کے لئے چند بطورمثال پیش کی گئی ہیں۔ 
تجوید کا فائدہ
یہ علم ہمیں اِس بات کی تعلیم دیتاہے کہ حروف صحیح طریقے سے، مقررہ مخارج سے ادا کیے جائیں۔ اِس کا فائدہ یہ ہوگا کہ قرآن مجید کی تلاوت اُس کے حُسن کے مطابق ہوگی اور معانی و مفاہیم پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اِس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ انسان تلاوتِ قرآن مجید کے دوران ہرقسم کی غلطیوں سے محفوظ رہے گا۔ اِس کا تیسرا اور بڑافائدہ یہ ہوگا کہ اِس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت میں کامیابی و کامرانی نصیب ہوگی۔ 
 ذہن نشین رہے کہ تجوید کے مطابق قرآن مجید پڑھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ روزانہ ایک مخرج کی مشق کریں اور جب تک اُس میں کمال حاصل نہ کرلیں دوسرے مخرج کو شروع نہ کریں۔ مخارج کے بعد تلاوت کی صفات پر غور کریں اور اِس طرح تمام قواعد کو تلاوت کے دوران جاری کریں۔ اس طرح آپ محسوس کریں گے اور یہ اُمید پیدا ہوگی کہ جلد ہی آپ بہترین انداز میں تلاوت کرسکیں گے۔ 
 اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں تجوید سے قرآن مجید پڑھنے سمجھنے، عمل کرنے اور دوسروں تک اس کی تعلیم پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ جو لوگ اس کیلئے کوشاں رہتے ہیں، رب العالمین اُن کی کوششوں کو قبول فرمائے، آمین

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK