چھٹی کا لفظ سنتے ہی دل میں ایک عجیب سی خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے (بلکہ اسے سونامی کہنا بے جا نہ ہوگا)۔ چھٹی یعنی وہ دن جب دفتر کی زنجیریں ٹوٹ جاتی ہیں، الارم کی چیخیں خاموش ہو جاتی ہیں اور گھر والے ایک ساتھ بیٹھ کر چائے کی پیالیوں میں خواب دیکھنے لگتے ہیں، یا پھر یوں کہا جائے کہ زندگی کی تلخیوں کو چائے میں گھول کر پینے کا اہتمام کیا جانے لگتا ہے۔
چھٹی کا لفظ سنتے ہی دل میں ایک عجیب سی خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے (بلکہ اسے سونامی کہنا بے جا نہ ہوگا)۔ چھٹی یعنی وہ دن جب دفتر کی زنجیریں ٹوٹ جاتی ہیں، الارم کی چیخیں خاموش ہو جاتی ہیں اور گھر والے ایک ساتھ بیٹھ کر چائے کی پیالیوں میں خواب دیکھنے لگتے ہیں، یا پھر یوں کہا جائے کہ زندگی کی تلخیوں کو چائے میں گھول کر پینے کا اہتمام کیا جانے لگتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اُس چائے کی پیالی میں کوئی انہونی، طوفان پیدا کر دیتی۔ چھٹی اتوار کی ہو،سردیوں کی ہو یا گرمیوں کی، اُس کا براہِ راست تعلق ہماری جیب کی گرمی سے ہے۔ جیب جتنی گرم ہوگی چھٹی منانے والے بھی اتنے ہی گرم جوش ہوں گے۔ ہمارے گھر میں چھٹی منانا کوئی آسان کام نہیں۔ گھر والوں کی آرزوؤں کی کشمکش، مجبوریوں کی زنجیروں اور ذاتی خواہشات کی قربانیوں کا نام ہے چھٹی!
سب سے پہلے بات کرتے ہیں افرادِ خانہ کی آرزوؤں اور تمناؤں کی۔ میری بیوی، جو گھر کی ملکہ ہے، اُس کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ چھٹیوں میں ہم سب مل کر ایک لمبی ڈرائیو پر جائیں، کسی پہاڑی علاقے میں، جہاں ہوائے تازہ کے ساتھ چہار جانب سبزہ ہو، مترنم آبشار اور پرندوں کی چہچہاہٹ سے پیدا شدہ رومان انگیز ماحول میں وہ نئی پوشاک زیب تن کیے سیلفیاں لے رہی ہو (تاکہ سہیلیوں کو بھیج بھیج کر اُنھیں بھی اپنے شوہروں کی جیب ہلکی کرنے کے لیے اُکسائے!) بچّے تو اور بھی آگے نکلے ہوتے ہیں۔ چھوٹا بیٹا ہمیشہ بڑی بہن پر دھونس جماتے ہوئے بڑا بننے کی کوشش کرتا رہتا ہے، اُس کی تمنّا ہوتی ہے کہ ہم کسی مال میں جائیں، جہاں وہ نئے گیمز خریدے، بچّوں والی بائیک چلائے، پاپ کارن کھائے اور تھک جائے تو باپ کے کندھے کی سواری کرے! دس برس کی بڑی بٹیا جتنی معصوم ہے، اُتنی ہی معصومانہ اُس کی آرزو ہوتی ہے؛ آئس کریم کی پارٹی، جہاں وہ اپنے ڈول ہاؤس میں سب کو دعوت دے اور نہیں تو دونوں بہن بھائی نانی کے گھر ماموں کے چھوٹے بچّوں کے ساتھ پورا گھر سر پر اٹھائے رکھیں، پھوپھیاں ایک رَٹ لگائے رہتی ہیں؛ بچوں کو کہیں گھما لے آؤ! اماں چاہتی ہیں کہ چھٹی میں پورا گھر اکٹھا رہے، سب مل کر بیٹھیںاور وہ پرانی یادیں تازہ کریں اور کہانیاں سنائیں۔ اور بابا ..... سب کی خوشی میں خوش رہنے والے! یہ آرزوئیں ایسی ہیں جنھیں پورا کرنا کچھ ایسا مشکل بھی نہیں، البتہ حالات سازگار ہونے چاہئیں۔
اب آتے ہیں گھر کے اکلوتے کماؤ پوٗت یعنی راقم کی طرف، جس کی ظاہری حالت دیکھ کر بے اختیار ’’ہمدرد کا سنکارا ‘‘والا اشتہار یاد آ جاتا ہے۔ یہ ناچیز روزانہ صبح سے شام تک دفتر کے کولہو میں جُتا رہتا ہے اور جس کے ناتوا ں شانوں پر دفتری ذمہ داریوں کے علاوہ خانگی ذمہ داریوں کا جُوا رکھا ہوتا ہے جو اتارے نہیں اترتا! یہ ہیچ مداں چھٹی والے دن بھی مجبوریوں کا شکار ہوتا ہے۔ دفتر کا باس تو ایسا ہے کہ اتفاقی یا ناگہانی چھٹی لینے پر بھی فون کر کے چیک کرتا رہتا ہے، ’’اور بھائی، سب ٹھیک تو ہے نا، طبیعت کا دھیان رکھو ہاں، کام کا کیا ہے، ہوتا رہتا ہے۔‘‘ فون رکھتے رکھتے ایک تیر وہاں سے چھوٹتا ہے اور یہاں جگر میں پیوست ہو جاتا ہے، ’’ارے، وہ رپورٹ مکمل ہوئی؟ نہیں؟ اگر ہوجائے تو وہاٹس ایپ کر دینا!‘‘ اب جو خلش جگر میں پیدا ہوتی ہے، وہ کسے دکھائیں! گھر کی مجبوریاں اپنی جگہ۔ کرایہ، بجلی کا بل، بچّوں کی فیس یہ ایسے بوجھ ہیں جو چھٹی والے دن بھی کندھوں پر ’’بیتال ‘‘ کی طرح سوار رہتے ہیں ۔ راجا وکرم کے کندھوں پر سوار ہونے والا بیتال کبھی کبھی درخت کی شاخ پر الٹا لٹک جایا کرتا تھا لیکن یہ میرے شانوں سے اس بری طرح چمٹ جاتا ہے گویا زندگی بھر ساتھ نہیں چھوڑے گا۔ چھٹی منانے کے لئے پیسے چاہئیں اور پیسے کمانے کے لیے وقت چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں اکلوتا کمانے والا ایک ایسے سُپر ہیرو کے مانند ہوتا ہے جس نے کیپ (cape) یعنی کندھے سے لے کر پیر تک پیچھے لہراتا ہوا پردہ نما چُغہ نہیں اوڑھا ہے، البتہ سبھی کی توقعات اُسے سپر ہیرو جیسا اَحساس دلانے میں کامیاب رہتی ہیں۔
افرادِ خانہ کے تئیں ذمے داریوں کا اَحساس تو سبھی کے دل میں ہر وقت رہتا ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ بیوی کی آرزوئیں پوری نہ ہونے سے اُس کا دل دُکھتا ہے، بچّوں کی تمنائیں ادھوری رہنے سے وہ مایوس ہو جاتے ہیں، اور ماں کی خواہشات نظر انداز کرنے سے گھر کا سکون چھن جاتا ہے۔ ذمہ داریوں کا یہ اَحساس مجھے شب زندہ دار بنائے رکھتا ہے۔ سوچتا ہوں کہ اگر میں ایک دن کی چھٹی بھی نہ لوں تو گھر کی خوشیاں کیسے برقرار رہیں گی؟ ہر چھٹی والے دن میں کوشش کرتا ہوں کہ گھر میں رہ کر ہی سہی، سب کو خوش رکھوں۔ کبھی کچن میں جا کر بیوی کی مدد کرتا ہوں، تو وہ ہنس کر کہتی ہے، ’’آج تو آپ سنجیو کپور بن گئے!‘‘ بچوں کے ساتھ کھیلنے کے دوران گھوڑا بننے میں جو لطف آتا ہے وہ پورا ہفتہ گدھے کی طرح کام کرتے رہنے سے کہیں بہتر محسوس ہوتا ہے۔ اماں کے پیر دباتے وقت وہ جنت نگاہوں میں سمائی رہتی ہے جو اُس کے پاؤں تلے بتائی جاتی ہے۔ بابا کو گھر سے مسجد لے جانے اور مسجد سے واپس گھر لانے میں جو سکون میسر آتا ہے وہ ہفتے بھر کی تگ و دَو سے ہونے والی کوفت کو دفع ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نہ صرف ذمے داریوں کا بوجھ ہلکا کرتی ہیں بلکہ اُس اَحساسِ جرم کے بھی زائل ہونے میں معاون ثابت ہوتی ہیں جو گھر والوں کی خواہشات کی عدم تکمیل سے پیدا ہوتا ہے۔
لیکن سب سے دلچسپ بات ہے ذاتی خواہشات کی قربانی کی۔ میری خواہش تو بس یہی ہوتی ہے کہ پورا دن کسی اچھی سی کتاب کا مطالعہ کروں اور تھوڑا وقت صوفے پر نیم دراز ہو کر ٹی وی دیکھوں، نہ کوئی فون نہ کوئی کام! مگر یہ خواہش بھی اُس وقت قربان کرنی پڑ جاتی ہے جب بچے آ کر کہتے ہیں، ’’ابّو! چلو نا، باہر چلتے ہیں!‘‘ یا کچن میں مصروف بیوی کہتی ہے، ’’ کم از کم آج تو گھر کی صفائی کر لو!‘‘ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر سب کی آرزوئیں پوری کرنے کے لئے ایک جادوئی چھڑی ہوتی یا الہ دین کا چَراغ ہی مل جاتا تو کتنا مزہ آتا!
میرے لیے چھٹی ایک ایسی چڑیا کی طرح ہے جو نہایت خوش رنگ ہے، جس کا زمزمہ میرے کانوں میں رس گھولتا ہے، جس کے خوش نما پروں کی پھڑپھڑاہٹ مجھے صاف سنائی دیتی ہے، جس کی بے کراں پرواز میرے دلِ حزیں کو لافانی مَسرت سے ہم کنار کر دیتی ہے۔ وہ میرے آرزو کے چمن میں اِٹھلاتی اِتراتی اڑتی رہتی ہے مگر کبھی میرے ہاتھ نہیں آتی!
یوں تو زندگی کا یہی معمول ہے ۔ہم چھٹی اِسی طرح مناتے ہیں کہ گھر میں بیٹھے رہے، چائے پی، پرانی البم دیکھی اور تھوڑا بہت ہنسی مذاق کر لیا۔ نہ کوئی لانگ ڈرائیو نہ کوئی مال، بس ایک ساتھ ہونے کا سکون! یہ چھٹی افرادِ خانہ کی آرزوؤں کی تکمیل تو نہیں ہوتی، مگر مجبوریوں، ذمہ داریوں اور قربانیوں کے درمیان ایک خوبصورت توازن قائم کرنے کی بساط بھر کوشش ضرور رہتی ہے۔ اور ہاں، مزے کی بات تو یہ ہے کہ اگلی چھٹی تک ہم سب پھر سے چھٹی منانے کے خوابوں میں کھو جاتے ہیں، گویا ہم نے ابھی بھی اچھے دنوں کی آس پر پانی نہیں پھرنے دیا ہے!