Inquilab Logo

’اب سے ۶۰۔۶۵؍سال پہلے کی عید بالفرضِ محال آجائے تو اس کا استقبال ہے‘

Updated: April 11, 2024, 6:08 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

خصوصی شمارۂ عیدالفطر کیلئے انقلاب نے چند ایسی خواتین سے گفتگو کی جوعمر کی تین ربع صدیاں گزار چکی ہیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

مسلمان کی زندگی کاعید الفطر کے تہوار سے گہرا مذہبی، ملّی اور جذباتی رشتہ ہے۔ اسی نقطہ نگاہ سے چند عمر رسیدہ خواتین سے ان کے بچپن اور پیرانہ سالی کی عید سےمتعلق کی جانے والی گفتگو پیش خدمت ہے۔ 
 کنیزفاطمہ شبیر احمد، عمر ۷۵؍سال، سائی ناتھ سوسائٹی، سونا پور، بھانڈوپ

 ’’ گزرے لمحات ایسے ہوتےہیں جنہیں تنہائی دہراتی ہے۔ تنہائی جسے دہراتی ہے وہی یاد ہے۔ بچپن اور پیرانہ سالی کی عید کی حقیقت بھی کچھ ایسی ہے۔ بچپن کی عید کی یادیں دل کو تڑپاجاتی ہیں۔ وہ بھی کیاد ن تھے، والدین کے ساتھ روزے رکھنا اور روزہ رکھ کر عید کی تیاریوں سے متعلق دل و دماغ میں طرح طرح کی خواہشوں کااُبھرنا، بے چین کئے رہتاتھا۔ روزانہ امی سے کپڑے، سینڈل، کلپ، کانٹے، چوٹی، چوڑیاں اور دیگر آرائشی اشیاء کی خریداری کی ضدکرنا۔ حالانکہ والدین ساری ِخواہشیں پوری کرتے تھے اس کے باوجود عید تک کسی معمولی خواہش کی تکمیل نہ ہونے پر والدین سے روٹھ جانا۔ ان باتوں کو یاد کرکے تکلیف بھی ہوتی ہے کہ اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے والدین کو پریشان کیا تھا لیکن اس احساس کے ساتھ صبر آجاتاہےکہ اگر ایسا نہ ہوتاتووہ دور بچپن کیسے کہلاتا؟‘‘
 ’’عیدکےدن گھرکےبڑوں سےعیدی وصولی جاتی تھی۔ سہیلیوں کےہمراہ مل جل کر عیدی اُڑائی جاتی تھی۔ چاچا، چاچی، ماموں، ممانی، خالہ، خالو، ہرقریبی عزیز کے گھر جاکر عید ملنا، شیرخرمہ کھانا اور عیدی وصول کرنا عید کا اہم مشغلہ تھا۔ عیدی کے پیسوں سے دن بھر گلی محلے میں سجی دکانوں سے کھانےپینے کی چیزیں اور کھلونے خریدنا، جھولا جھولنا اور گھر کے قرب وجوار میں سیر وتفریح کرنا۔ بچپن کی عید اس طرح کی خوشیوں اور شوخیوں سے آراستہ رہتی تھی۔ ‘‘
 ’’بڑےہونےپر سسرال میں بال بچوں کے ساتھ عید منائی لیکن میکہ اور سسرال کی عید میں بڑا فرق رہا۔ میکہ میں والدین کو ہماری عیدکی فکر ہوتی تھی۔ سسرال میں ہم بچوں کی خواہشات پوری کرنے میں اس طرح مصروف ہوئے کہ اپنی عید یاد نہیں رہی۔ بچے بڑے ہوکر روزگار کیلئے بیرون ملک چلے گئے۔ عید کےموقع پر ان کی یاد میں نم آنکھوں سے عید منانےکا بھی تجربہ خوب رہا۔ پہلے لوگ بغلگیر ہوکر عید کی مبارکباد دیتےتھے۔ اب موبائل اہم ذریعہ بن گیا ہے۔ عید کا چانددیکھنے کی جو خوشی ہوتی تھی وہ معدوم ہو رہی ہے۔ پہلے عید کا چاند دیکھنے کیلئے ۲۹؍ویں روزہ کومغرب کی اذان کے ساتھ منہ میں ایک کھجور ڈال کر چھتوں پر چاند دیکھنے کیلئےلوگ بیقرار ہوتے تھے۔ چاند نظر آنے پر آتش بازی ہوتی مگر اب ایسا نہیں ہوتا۔ سوشل میڈیا نے حقیقی محبت، ہمدردی، چاہت اور اپنائیت ختم کردی ہے۔ اب اخلاقیات صرف موبائل کے بٹن دبانے تک محدودرہ گئی ہے۔ ‘‘
 ’’برادرانِ وطن کے درمیان رہنا اچھا احساس ہے۔ اگر ہم انہیں عید پر اپنی خوشیوں میں شریک کرتےہیں تو وہ بھی دیوالی دسہرہ میں ہمیں نہیں بھولتے۔ ‘‘
بدرالنساء عبدالقدیر شیخ، عمر ۷۴؍سال، کوسہ ممبرا


 ’’بچپن کے رمضان اور عید کی یادیں اب بھی ذہن میں محفوظ ہیں۔ عید کے کپڑے سلوانے کیلئے درزی کو دیتے تھے تو ڈر رہتا تھاکہ وہ وقت پر کپڑے دے گایا نہیں۔ مہندی پانی میں بھگا کرلگائی جاتی تھی۔ آخری عشرے میں عید کارڈ کی دکانوں پر لوگوں کا مجمع ہوتا۔ عزیزوں اور رشتے داروں کو عید کی مبارکبا د پیش کرنے کیلئے خوبصورت کارڈ کیساتھ دور ہونے کااحساس دلانے والے جذباتی پیغامات سے مزین کارڈ کو ترجیح دی جاتی جسے خریدنے کے بعد اس پر نام لکھنا اورڈاک خانے جاکر اسے ارسال کرنا بھی، ذمہ داری کا کام سمجھا جاتا تاکہ متعلقین کو عید سے پہلے کارڈ مل سکے۔ اسے کارڈ نہیں دو رشتوں کی جذباتی زنجیر سمجھاجاتاتھا۔ وہ بھی کیا ثقافت تھی جو عیدکارڈ سے وابستہ مراسم میں رچی بسی خوشبوئوں کااظہار کرتی تھی۔ ‘‘ 
 ’’عید کےدن امی لذیذ پکوان بناتی تھیں۔ آٹھ آنے یا ایک روپیہ عیدی میں خوش ہوجاتےتھے۔ ان پیسوں سے لٹو، کنچے، گیس کے غبارے اور گڑیا خریدنا محبوب مشغلہ ہوتا۔ باسی عید کو سیر وتفریح کو جانا، وہاں فوٹوکھنچوانا اور کھانا پینا، خوشی خوشی گھر لوٹنا۔ ان باتوں کو یاد کرکے پیرانہ سالی میں بھی خوشی ہوتی ہے۔ موجودہ دورکی عید میں محبت، اپنائیت، ہمدردی اور خلوص کا فقدان ہے۔ جدید موصلاتی آلات نے سلام، دعا اور عید کی مبارکبا د سب کو محدود کر دیا ہے۔ ‘‘ 
زہرہ مومن، عمر ۷۶؍سال، فینسی مارکیٹ، آگری پاڑہ 


 ’’بچپن کی عید سوچ کر اب بھی جذباتی ہوجاتی ہوں۔ عید کیلئے آرائشی اشیاء کی خریداری بڑے جوش وخروش سے کی جاتی تھی۔ میں بیلاسس روڈ انجمن اسلام اسکول میں پڑھتی تھی۔ اس وقت یونیفارم کے ساتھ سیاہ رنگ کے جوتے مخصوص تھے۔ والدین اسکول کھلنے پر نہیں بلکہ عیدپر کالے رنگ کےجوتے دلواتے تھے تاکہ عید پر خریدا گیا جوتا سال بھر اسکول پہن کر جایا جاسکے۔ عید کے دن گھر والوں کے علاوہ دیگر عزیز اور متعلقین سےعیدی وصولنے کاجنون اور جمع ہونے والی رقم سے کھلونے اور جھولاجھولنے کی دیوانگی بھی خوب تھی۔ عیدی کاپیسہ ملاکر باسی عید والے دن۵؍روپے میں گھوڑا گاڑی سے چوپاٹی جانے اور واپس آنےکا لُطف اور وہاں بھیل پوری اور آئسکریم کھانےکالطف بھی یاد ہے۔ ‘‘ ’’اس دور اور آج کی عید میں کافی فرق ہے۔ اس زمانے میں غربت کے باوجود لوگوں کےپاس ایک دوسرے کادکھ درد بانٹنے، پیار و محبت سےپیش آنے کا وقت تھا، آج لوگوں کےپاس پیسہ ہے مگر دکھ درد بانٹنے کا وقت نہیں ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے دنیاکو ایک کوزہ میں سمو دیا ہے۔ اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے ذریعہ لمحوں میں ہم ایک دوسرے سے رابطہ کرسکتےہیں لیکن انہوں نے ہمیں ایک دوسرے سے کافی دور کردیاہے۔ ایک گھر میں ہم ایک نہیں ہیں۔ جس کا شدت سے احساس ہوتاہے اور خیال آتاہےکہ ـبچپن کی عید ہی بھلی تھی جس میں باہمی محبت، اپنائیت، ہمدردی، ملنساری اور انکساری تھی۔ ‘‘
خدیجہ عبدالرشید خان، عمر ۸۵؍، محمد عمر رجب روڈ، مدنپورہ 


 ’’بچپن کی عید چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے بھری تھی۔ رمضان کی آمد کےساتھ مخدوش مالی حالات کے باوجود عید کی خوشیوں میں کھوجانے والا احساس مسرور کن ہوتا۔ سستائی کادور تھالیکن پیسوں کی قلت سے معمولی چیزیں خریدنے کیلئے بھی ضدکرنی پڑتی تھی۔ عید کیلئے آرائشی اشیاء کی خریداری کیلئے امی کو بار بار یاد دلانے اور ان اشیاء کو خریدنے کی بڑی جلدی ہوتی تھی۔ امی والدتک ہماری التجا پہنچاتیں، والدکسی طرح پیسوں کا انتظام کرکے ہماری ضد پوری کرتے۔ چاند رات والے دن محلے، گلی، کوچے اور گھروں میں جشن کا ماحول ہوتا۔ رات بھر دکانیں کھلی رہتیں۔ آخری وقت میں خریداری کرنے والوں سے بازار بھرا ہوتا۔ گھروں میں خواتین پکوان بنانے کی رات سے ہی تیاری شروع کردیتیں۔ عید کی خوشی میں رات بھر نیند نہیں آتی تھی۔ عید والے دن زیادہ سے زیادہ عیدی جمع کرنے کی کوشش ہوتی۔ ہم چھوٹے ضرورتھے لیکن لطف بڑا تھا۔ کسمپرسی کے حالات میں بھی بڑے جوش وخروش سے عید منائی جاتی تھی۔ ‘‘
 ’’اب اپنی عید عید نہیں رہ گئی، اب بچوں کی عید دیکھ کر خوش ہونےکا دل چاہتاہے لیکن جدید دور کے ناگفتہ بہ حالات میں بچوں کی عید بھی بد ل گئی ہے۔ عید سے متعلق ہمارے جذبہ کے مقابلہ بچوں کا نظریہ بدل گیاہے۔ ان میں وہ جو ش و خروش نہیں دکھائی دیتا۔ عید پر جس طرح ہم اپنے والدین اورمتعلقین سے بڑے ہی ادب واحترام سے جذباتی محبت اور اپنائیت سے ملاکرتے تھے، آج کی نسل میں ا ن صفات کی کمی دکھائی دیتی ہے۔ بیشتر بچے اپنے بزرگوں کاوہ احترام نہیں کرتےجن کے وہ حقدار ہیں۔ سستائی مہنگائی اپنی جگہ مگر تہذیب وتمدن کےساتھ ہونےوالی چھیڑ چھاڑنے وراثت کو کھوکھلا کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ اس نقصان کی بھرپائی کیسے ہو، یہ سمجھ میں نہیں آرہاہے۔ بچپن میں والدین کے سینے سے لگ کر ہم بہت محظوظ ہوتے تھے لیکن آج کےمتعدد بچے والدین اور بزرگوں سےبغلگیر ہونے میں وہ گرمجوشی نہیں دکھاتےہیں جو ہم نے بچپن کی عید پر دیکھی تھی۔ اپنی ۸؍دہائیوں پر مشتمل زندگی کا یہ واضح تضاد مجھے کچوکے لگاتاہے۔ اللہ نسل نوکواپنے بزرگوں کے احترام اور عزت کرنےکی ہدایت دے۔ اسی خواہش کے ساتھ، بالخصوص نسل نوکو عید کی خوشیاں مبارک ہوں۔ ‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK