Inquilab Logo

قصور اپنا نکل آئے تو شرمندہ ہواجائے

Updated: May 14, 2022, 11:23 AM IST | Shahid Latif | Mumbai

گزشتہ ہفتے عالمی یوم مادر منایا گیا۔ یہ دن اس حد تک تو یقیناً فائدہ مند ہے کہ اس کی وجہ سے ایک دن یا اس دن کے چند لمحوں کیلئے ہی سہی، لوگ باگ اپنی ماں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اگر نہیں سوچتے تو اُنہیں سوچنا چاہئے اور اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

ہینس کرسچن اینڈرسن (۱۸۰۵ء تا ۱۸۷۵ء) ڈنمارک کے بہت بڑے ادیب گزرے ہیں۔ آج اِس وقت اُن کی یاد اس طرح آئی کہ مجھے جس موضوع پر لکھنا ہے جب اُس پر غور کرنا شروع کیا تو سب سے پہلے اینڈرسن یاد آئے۔ ’’ایک ماں کی کہانی‘‘ اُن کی بے پناہ اور لاجواب تخلیق ہے۔ اس کہانی کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے: ’’تین راتوں کی جاگی ہوئی ماں اپنے بچہ کی علالت سے ہلکان ہے۔ ایک دن جب بچے کی نبض ڈوب رہی تھی اور سانسیں مدھم ہوگئی تھیں، بچے کو دیکھ دیکھ کر بے بس ماں کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔ ٹھنڈ غضب کی تھی۔ ماں نے یہ سوچ کر کہ بچے کیلئے کوئی گرم مشروب لے آئے، باورچی خانے کا رُخ کیا۔ اتنے میں، سیاہ کپڑوں میں ملبوس ایک معمر شخص مکان میں داخل ہوا، اس نے بچے کو اُٹھایا اور مکان سے باہر نکل گیا۔ ماں باورچی خانے سے لوَٹی تو بچے کو نہ پا کر ہوش و حواس کھو بیٹھی۔ اس نے بڑبڑانے والے انداز میں کہا: میں اُسے کیسے گنوا سکتی ہوں؟ کیا خدا مجھ سے اُسے چھین لے گا؟ کہانی میں معمر شخص موت کا استعارہ ہے۔ اب کہانی میں ماں کا ایک طویل سفر شروع ہوتا ہے۔ وہ اپنے بچے کی تلاش میں نکلتی ہے اور راستے میں جو بھی ملتا ہے، اس سے پوچھتی ہے کہ معمر شخص کس طرف گیا ہے۔ مکان سے کچھ دوری پر اُسے ایک بڑھیا ملتی ہے جو کہتی ہے کہ مَیں معمر شخص کی بابت بتا سکتی ہوں بشرطیکہ تم میرے لئے وہ تمام لوریاں گاؤ جو تم اپنے بچے کیلئے گایا کرتی تھیں۔ ماں کہتی ہے تمہاری خواہش ضرور پوری کروں گی، پہلے یہ بتاؤ کہ معمر شخص کس طرف گیا ہے؟ بڑھیا خاموش ہوجاتی ہے۔ چاروناچار، ماں کو ایک کے بعد ایک  تمام لوریاں سنانی پڑتی ہیں۔ آخری لوری سننے کے بعد بڑھیا راستہ بتاتی ہے کہ دائیں جانب چیڑ کے درختوں کا گھنا جنگل ہے، اس میں داخل ہوجاؤ۔ ماں دوڑ پڑتی ہے۔ کافی دیر دوڑنے کے بعد ایک دوراہے پر وہ سمجھ نہیں پاتی کہ اب کس طرف جائے۔ وہیں ایک خاردار جھاڑی ہے۔ ماں اس سے بھی پوچھتی ہے مگر وہ بھی اُس کے سامنے شرط رکھتی ہے کہ میں سردی سے ٹھٹھر رہی ہوں، تم مجھے اپنی باہوں میں بھینچ لو تاکہ تمہارے جسم کی گرمی سے مجھے کچھ راحت ملے، اس کےبعد راستہ بتاؤں گی۔ ماں خاردار جھاڑی کو بھینچ کر لہولہان ہوجاتی ہے تب خاردار جھاڑی راستہ بتاتی ہے۔ پھر ایک جھیل یہ شرط رکھتی ہے کہ اتنا روؤ کہ تمہاری آنکھیں پگھل کر مجھ میں سما جائیں۔ وہ بچے کی محبت میں اپنی آنکھیں بھی کھو بیٹھتی ہے۔ اس طرح یکے بعد دیگرے کئی کردار آتے ہیں اور ہر کردار کوئی نہ کوئی شرط اس کے سامنے رکھتا ہے۔ وہ بچے کی محبت اور راستہ کی تلاش میں ہر شرط کو بہ دقت تمام پورا کرتی ہے۔ ایسی ہزار مشکلات سے گزر کر وہ اُس معمر شخص کے پاس پہنچتی ہے جو اُس کے بچے کو اُٹھا کر لے گیا تھا۔ آپ کہانی سن رہے ہیں اور مجھے فکر لاحق ہے کہ مضمون طویل نہ ہوجائے۔ کاش پوری کہانی سنائی جاسکتی! خیر، معمر شخص سے ماں کی ملاقات ایک باغ میں ہوتی ہے جو غالباً برزخ کا استعارہ ہے۔ وہ اُس سے اپنا بچہ طلب کرتی ہے۔ اُس کے انکار پر وہ متنبہ کرتی ہے کہ اگر تم نے میرا بچہ نہیں دیا تو میں یہاں کے درختوں اور پودوں (متوفین کا استعارہ) کو نوچ ڈالوں گی۔ معمر شخص یہ سن کر گھبرا جانے کے باوجود کہتا ہے کہ مَیں تمہاری آنکھیں لوَٹاتا ہوں، یہاں اِس کنویں میں جھانک کر دیکھو، اس میں دو بچوں کا مستقبل دکھائی دے گا۔ ایک زندگی سے بھرپور، دوسرا قابل رحم حال میں۔ ان میں سے ایک تمہارے بچے کا مستقبل ہے۔ ماں گڑگڑاتی ہے بتاؤ میرے بچے کا مستقبل کون سا ہے۔ اس کے جواب میں معمر شخص سوال کرتا ہے تم بچہ واپس چاہتی ہو یا مَیں اسے لے کر نامعلوم جگہ (خدا کے پاس) چلا جاؤں؟ ماں اُس سے نہیں اُلجھتی بلکہ زاروقطار روتی اور خدا سے التجا کرتی ہے کہ ’’اگر میں تجھ سے تیری مرضی کے خلاف کچھ مانگوں تو میری نہ سن کہ تیری مرضی ہی میں انسان کی بھلائی ہے۔‘‘ 
 ۹؍ مئی کو جب پوری دُنیا میں یوم مادر منایا جارہا تھا، یہ کہانی میرے ذہن میں اس طرح چلتی رہی جیسے کسی دیکھی ہوئی فلم کے مناظر منعکس ہوتے ہیں۔ اولاد کے تحفظ اور اُس کی بھلائی کیلئے ہر طرح کی قربانی کوئی اور نہیں دے سکتا سوائے ماں کے۔ یہ سبق پوری کہانی پر حاوی ہے حالانکہ اینڈرسن نے آخری سطور میں ایک پیغام کا اضافہ کیا ہے کہ انسان کو اپنی خواہش پر خدا کی مرضی کو مقدم رکھنا اور اسے بسروچشم قبول کرنا چاہئے۔  اینڈرسن نے تجسس پیدا کرنے والے واقعات کے ذریعہ ایک ماں کے جذبۂ ایثار و قربانی اور اولاد کیلئے اُس کے روئیں روئیں میں بسی ہوئی محبت کو اُجاگر کیا ہے جو دُنیا کی ہر ماں کی نمایاں ترین خصوصیت ہے۔ جو اولاد ماں کی عظمت کو نہ پہچان سکے وہ تو بدبخت ہوتی ہی ہے مگر نیک بخت اولادیں بھی احساس کی اُس کیفیت تک کبھی نہیں پہنچ پاتیں جس میں ماں کی قربانیوں کی ماہیت کا حقیقی ادراک ہوسکے۔ اسی لئے اکثر اولادیں ماں کی قدردانی کا حق ادا کرنے سے غافل رہ جاتی ہیں۔ لوگ بھول جاتے ہیں کہ ماں کے قدموں تلے جنت ایسے ہی نہیں رکھ دی گئی۔ اس بات پر بھی غور نہیں کرتے کہ جنت کو مشروط نہیں کیا گیا کہ ماں نیک ہو، عابد و زاہدہو، جفاکش ہو یا مہذب ہو تو جنت ملے گی۔ اسے ہر ماں کے قدموں تلے رکھا گیا ہے خواہ وہ سخت گیر ہو، جاہل ہو، لاپروا ہو یا ازحد دُنیا دار ہو۔ لوگ اس بات پر بھی غور نہیں کرتے کہ ماں دُنیا میں کسی کی بھی جگہ لے سکتی ہے مگر ماں کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔ دورِ جدید میں ماں کی عظمت کو یاد دِلانا اس لئے ضروری ہے کہ نئے مادّی رجحانات انسانی معاشرہ کو بے اعتنائی کے غار میں دھکیل رہے ہیں۔ بے اعتنائی ایسی کہ بیٹا گھر میں ہے اور ماں بھی گھر میں مگر بیٹے کی دُنیا ماں سے الگ ہے۔ وہ موبائل کے ذریعہ ہفت خواں کی سیر کررہا ہے۔ یہ نہیں تو ملازمت یا کاروبار کی مصروفیت ماں کی محبت پر غالب آگئی ہے یا بیوی کی محبت نے ماں کے تئیں ہر جذبے کو بے روح بنا دیا ہے یا پڑھ لکھ لینے کے بعد ماں کم علم نظر آنے لگی ہے یا نام نہاد مہذب لوگوں سے ربط ضبط کی وجہ سے ماں اچانک غیر مہذب ہوگئی ہے یا ۔ ۔۔۔۔ اِس ’’یا‘‘ کے آگے بھی بہت کچھ ہے، آپ بخوبی واقف ہیں اس لئے خالی جگہ آپ پُر کرلیجئے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK