Inquilab Logo

تعلیم نگاری میں طلبہ، اساتذہ، والدین، انتظامیہ، معاشرہ اور حکومت سبھی سے خطاب کرنا ہے

Updated: March 17, 2024, 12:00 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

 تاریخ گواہ ہے کہ قلم سے انقلاب جنم لیتے ہیں، ہم اہلِ فکر و دانش سے عرض کرنا چاہیں گے کہ ہر ایک کو اپنی اپنی استعداد وسکت کے مطابق قلمی جہاد کرنا ہی ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

اساتذہ اور تعلیم نگاری:
 تاریخ گواہ ہے کہ قلم سے انقلاب جنم لیتے ہیں، ہم اہلِ فکر و دانش سے عرض کرنا چاہیں گے کہ ہر ایک کو اپنی اپنی استعداد وسکت کے مطابق قلمی جہاد کرنا ہی ہے۔ گرچہ یہ فریضہ ہر اہل فہم و ادراک پر عائد ہوتا ہے مگر ہم بالخصوص مخاطب ہیں اسا تذہ کرام سے، اسلئے کہ :
 ( الف ) استاد کارول ہر معاشرے میں اور ہر دور میں سب سے مقدم اور افضل رہا ہے۔ (ب) ہرسماج بجاطور پر اساتذہ کی طرف بڑی اُمید کے ساتھ دیکھتا ہے۔ (ج) کسی مصوّر یا شاعر سے زیادہ حسّاس استاد ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔ (د) علم کی جوت سے جوت جلانے کا کام بہتر طریقے سے اُستاد کر سکتا ہے (ہ) اور اُستاد کو سامعین و قارئین تلاش نہیں کرنے پڑتے، وہ اُس کے پاس رہتے ہیں طلبہ اور والدین کی صورت میں۔ صرف موجودہ نہیں سابق طلبہ کی بھی ایک فوج پہلے ہی سے موجود رہتی ہے جو اُس کے نام و کام سے واقف ہے اور اُس کی کسی بھی تخلیق یا تحریر کو دیکھتے ہی کہہ اٹھتی ہے۔ ’’ارے یہ ہمارے استاد نے لکھا ہے۔ ذراپڑھیں تو کہ کیا لکھا ہے؟‘‘

یہ بھی پڑھئے: تعلیم نگاری آج کی تاریخ میں بہت ضروری ہے، ہمارے دانشوران اور اساتذہ اس جانب مثبت فکر کا مظاہرہ کریں

 اگر یہی اُستاد (۱) اپنے منصب کو نہ سمجھے (۲) صرف نصاب و نصابی کتابوں کا اسیر بنا رہے اور (۳) تدریس کو مشن سمجھنے کے بجائے ایک پیشہ یا ملازمت سمجھے تو بے حد تکلیف پہنچتی ہے اور اس بناء پر اگر یہی اُستاد اپنے کلاس روم کی چہار دیواری سے باہر اپنا علم، اپنا نالج، اپنے تجربات و اپنے مشاہدات بانٹنے کوتیار نہیں تو پھر کون تیار ہو گا ؟ یہ ذمہ داری کون قبول کرے گا؟ اور یہ ذمہ داری بیشتر اساتذہ نہیں نبھا رہے ہیں اس بناء پر طلبہ، والدین و اساتذہ کی رہنمائی کیلئے مضامین لکھے نہیں جارہے ہیں۔ لہٰذا علم و تعلیم کے موضوع پر لکھا جانے والا ایک مضمون کئی کئی اخبارات میں ’شکریے‘ کے ساتھ چھپتا ہے۔ اب یہ سلسلہ بند ہو اور صرف افسانے و شعری تخلیقات نہیں بلکہ علم کے موضوع پرنِت نئی تخلیقات بھی سامنے آنی چاہئیں۔ 
 ہم کبھی بھی صرف مسائل کی بات نہیں کرتےبلکہ ہر مسئلے کاحل پیش کئے بناء اپنی بات ختم کرنا ایک گناہ سمجھتے ہیں، اسلئے ہم اساتذہ کرام کے سامنےتعلیم نگاری کے موضوع پر کچھ باتیں بھی کریں گے: 
مقصد واضح ہو :
 محترم اساتذہ کرام قلم اُٹھانے سے پہلے اللہ بزرگ و برتر سے ہر بار مدد مانگئے اور کہہ دیجئے کہ آپ نے قلم کے ذریعے مثبت ذہن سازی کا عزم کیا ہے اور طے کیجئے کہ قلم کے ذریعے یہ جہاد انتہائی مقدّس ہوگا اور یہ کہ اس کا مقصد کسی بھی قسم کی تشہیر، شہرت یا شعبدہ بازی نہیں ہے۔ مدد مانگئے ہر بار اللہ سے کہ وہ آپ کے قلم میں ، آپ کی تحریر میں ، آپ کے ہر لفظ میں وہ تاثیر دے جو پڑھنے والوں کے دلوں میں اُترتی جائے۔ آپ کا ہر پیغام پڑھنے والوں تک پہنچ جائے، وہ اُسے قبول کریں اور اُس سے تحریک حاصل کر کے اس پر عمل کریں۔ 
 ایک بات ہمیشہ یادرکھئے کہ اگر آپ خدانخواستہ خود نمائی، خود ستائی، شہرت و غیرہ علّتوں کا شکار ہو کرقلم اٹھا ئیں گے کہ آپ کی خوب ’’واہ واہ‘‘ ہو، خوب خوب نام ہو، ہر طرف آپ کا چرچا ہو تو آپ کے قلم سے چند الفاظ چند مضامین تحریر ہو بھی جائیں لیکن آپ کبھی بھی کوئی شاہ کار، تحریر نہیں کر پائیں گے۔ کوئی دل نشین بات نہیں کہہ پائیں گے۔ قلم کے ذریعے کوئی خدمت بھی نہیں کر پائیں گے۔ قلم کے ذریعے بے غرض خدمت کا جذبہ اگر کسی دل میں موجزن ہو تو اُس دل سے انقلاب کے شرارے یقیناً پھوٹیں گے ہی، یہ قدرت کا دستور ہے، عہد ہے، وعدہ ہے۔ 
 قلم اٹھانے سے پہلے یہ عہد کر لیجئے کہ آپ علمِ نافع کی تبلیغ وترویج ہی کریں گے۔ منتشر خیالی، سماج میں انتشار کا باعث بنتی ہے اور ہمیں حدیث نبویؐ بھی یاد رکھنی ہے کہ انسان کی موت کے بعد اُس کے سارے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں البتہ جو اعمال ثوابِ جاریہ کے طور پر جاری رہیں گے ان میں سے ایک علمِ نافع ہے۔ 
بدلتے منظر نامے کو سمجھئے:
 ہمارا تعلیمی نظام کبھی مثلث نما ہوا کرتا تھا: طلبہ، اساتذہ اور والدین۔ پھر اُس میں ایک مزید ضلع جُڑ گیا اور وہ ہے: انتظامیہ کہ آخر ہمارے تعلیمی اداروں کے انتظامیہ کے ذمہ داران کا تعلیم وحصولِ تعلیم کے ضمن میں رویہّ کیسا ہے؟ کہیں وہ تعلیمی اداروں کو اپنی نجی ملکیت تو نہیں سمجھتے؟ اساتذہ کرام کو عزت و احترام کا مقام دیتے ہیں یا نہیں ؟ غیر جانب دار ہیں یا نہیں ؟ اپنے تعلیمی ادارے کو جدید تقاضوں کے مطابق ترقی کی بلندیوں پرلے جانے کا ویژن رکھتے ہیں یا نہیں ۔ یہ مربع نما نظام پھر مخمس نما بن گیا جب اُس میں ’معاشرہ‘ نام کا جُز جُڑ گیا۔ قوم کی تعلیم کے تئیں اگر معاشرہ حسّاس نہیں ہے اور اپنا کوئی کردار ادا کرنے پر آمادہ نہیں ہے تو یہ نظام کھوکھلا ہی رہے گا البتہ یہ تعلیمی نظام (خصوصاً ہمارے ملک میں ) اُس وقت بارود کی ڈھیر پر نظر آیا جب اس نظام کو ایک خطرناک ضلع اور زاویہ جُڑ گیا جس کا نام ہے: حکومت۔ دنیا کے کسی ترقی یافتہ (حتّیٰ کہ ترقی پذیر) ملک میں تعلیمی نظام میں سیاستدانوں کا اُتنا عمل دخل نہیں ہوتا جتنا ہمارے ملک میں ہوتا ہے۔ پالیسی میکرس کے بجائے اِس ملک میں تعلیمی پالیسیاں وہ سیاستداں طے کرتے ہیں جن میں سے بیشتر علم اور تعلیم سے نابلد ہیں ۔ ہمارے تعلیمی نظام کے گورکن یہی سیاستداں ہیں اور بدبختی سے ہمارے اساتذہ کی بڑی اکثریت اِن غیر ذمہ دار، غیر دُور اندیش سیاستدانوں کے احکامات کو ’خدائی‘ فرمان کا درجہ دیتے ہیں۔ 
 محترم اساتذہ کرام! تعلیمی نظام کے مثلث کے مسدّس بن جانے کی وجہ سے اب آپ کو تعلیم نگاری میں طلبہ، اساتذہ، والدین، انتظامیہ، معاشرہ اور حکومت اِن سارے عناصر سے خطاب کرنا ہے۔ اُن کے سارے معاملات پر گفت و شنید کرنی ہے۔ نئی سمتوں اور نئے جہات تلاش کرنے ہیں ۔ روایتی نظام سے ہٹ کر ہمارے تعلیمی نظام کو نئی بلندیوں پر لے جانے کی تمام تر کوششیں کرنی ہیں۔ تعلیم نگاری میں اِن اہداف پر ہمیشہ آپ کی نظریں ٹکی ہونی ضروری ہیں۔ 
درد کو سمجھئے :
 کسی بھی موضوع پر قلم اٹھانے سے قبل اس موضوع کے درد کو سمجھئے، محسوس کیجئے اور سوچئے کہ یہ ایسا کیوں ہے؟ اس عنوان پر آپ کیا رائے دے سکتے ہیں ۔ آپ ہر بار یہ بھی یاد رکھئے کہ آپ کسی مضمون نویسی کے مقابلے میں حصہّ نہیں لے رہے ہیں ۔ ورنہ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ لکھنے والے انتہائی ثقیل، بھاری بھر کم الفاظ کا استعمال کر کے اپنی تحریر کو مہمل اور مشکل بنا دیتے ہیں ۔ اس طرح آپ کی تحریر وزن دار تو ہو جاتی ہے مگر عام فہم نہ ہونے کی بناء پر عوامی نہیں ہو پاتی اور اس بناء پر آپ کے بڑے ہی ’زرین‘ خیالات بھی عوام تک نہیں پہنچ پاتے اور وہ کچھ خواص تک پہنچ بھی جاتے ہیں ، البتہ اُن میں سے کئی سارے لوگ پہلے ہی سے باخبر رہتے ہیں ۔ لہٰذاثقیل، مہمل اور مشکل وغیرہ الفاظ کو استعمال کر کے آپ کی تحریر جاندار تو ہو جاتی ہےلیکن مقصد فوت ہو جاتا ہے کہ آپ لاکھوں کی ذہن سازی کا منصوبہ کر رہے تھے مگر بات در جنوں تک بھی پہنچ نہیں پائی۔ یہاں ہمیں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ (الف) طلبہ ہوں ، اساتذہ یا انتظامیہ کے افراد، اُن میں انتہائی ذہین و فطین افراد بمشکل ۵؍فیصدہوتے ہیں ، باقی سب اوسط درجے کی فکر و عمل والے ہوتے ہیں اور (ب) ہندوستان گائوں میں بستا ہے۔ شہروں میں بیداری کا ماحول پیدا کرنا قدرے آسان بھی ہوسکتا ہے البتہ گائوں میں ماحول اور ذہنیت قطعی مختلف ہوتی ہے۔ تعلیم نگاری کے محاذ پر کام کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ اس جہاد میں حقیقی کامیابی چاہتے ہیں تو اُنھیں صرف خواص کے بجائے عوام کیلئے کام کرنا ہوگا اور گائوں ، دیہاتوں اور قصبوں کا سفر کرتے رہنا پڑے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK