• Wed, 29 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

موجودہ حالات اور ہمارے ووٹ کی اہمیت

Updated: May 03, 2024, 2:07 PM IST | Muhammad Naseer Islahi | Mumbai

ووٹ دینا نہ صرف ہماری ملکی ذمہ داری ہے بلکہ ہمارادینی اور شرعی فریضہ بھی ہے۔ قرآن و حدیث کے مطالعہ کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ وو ٹ دینا ، انتخاب میں حصہ لینا اور انتخابی تقاضوں کو پورا کرناایک دینی فریضہ ہے۔

This time, many national organizations and concerned people have appreciated the effort to include people`s names in the voting list. Photo: INN
اس بار کئی ملی تنظیموں اور دردمند افراد نے لوگوں کا نام ووٹنگ لسٹ میں شامل کرانے کی سعی مشکور کی ہے۔ تصویر : آئی این این

اسلام ایک کامل ومکمل نظام حیات ہے۔ زندگی کاکوئی شعبہ اور گوشہ ایسا نہیں جس کے متعلق اسلام نے رہنمائی نہ کی ہو۔ اس دین نے جہاں عبادت، تجارت اور معاملات کے شعبوں میں رہنمائی کی ہے وہیں سیاست اور حکومت کے سلسلہ میں بھی ہنمائی کی ہے۔ آپ سوچئے کہ وہ اسلام جو طہارت اور بیت الخلاء جانے تک کے بارے میں اپنے ماننے والوں کوآداب سکھاتا اور واضح ہدایت دیتا ہے کیا وہ سیاست وحکومت کے شعبوں کو یوں ہی خالی چھوڑ دے گا؟ حکومت و سیاست سے انسانی زندگی کا بڑا حصہ وابستہ ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اسلام ہی نے دنیا کو بہترین نظام حکومت اور خوشگوار سیاست کے اصول و ضوابط بتائے ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہم مسلمان دنیا کو اس بابرکت اور صحیح نظام زندگی سے اب تک واقف نہیں کرا سکے۔ 
 تاریخ اسلام کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں نبی کریم ﷺ نے خود ایک اسلامی حکومت کی بنیاد ڈالی۔ آپ ﷺ نے بین المذاہب اور باہمی زندگی گزارنے کے اصول و آداب اور قوانین و ضوابط مرتب فرمائے۔ آپ ؐ نے اسلامی حکومت کا آئین (Constitution)مرتب فرمایا جو دنیا کا پہلا تحریری و مرتب آئین مانا جاتا ہے۔ جس کی بنیاد پر ہی آج کے بڑے بڑے ملکوں کے آئین مرتب کئے گئے ہیں۔ اس بات کا اعتراف اپنوں سے زیادہ غیروں نے کیا ہے۔ مختصراً یہ کہ حکومت و سیاست بھی دین کا ایک اہم ترین حصہ ہے۔ اس میدان میں بھی شریعت کے دائرہ میں رہ کر ہمیں اپنا مؤثر رول اور کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ اس زمین پر عدل و انصاف قائم ہو سکے اور انسانوں کے حقوق پامال نہ ہو سکیں۔ 
 اس وقت ہمارے ملک میں پارلیمانی انتخابات ۲۰۲۴ء کا عمل جاری ہے۔ پورے ملک میں ا لیکشن کی باتیں ہو رہی ہیں۔ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا ہر طرف الیکشن ہی کا چرچا ہے۔ مختلف سیاسی پارٹیاں پوری قوت کے ساتھ میدان میں ہیں۔ وہ اپنی اپنی ترجیحات سے عوام کو واقف کرا رہی ہیں۔ وعدے اور دعوے کر رہی ہیں۔ الیکشن ہی کے پیش نظر ملک میں مختلف سیاسی اتحاد وجود میں آ ئے ہیں۔ مختلف طبقات، لسانی اور مذہبی گروہ آنے والے الیکشن کے ذریعہ اپنے مفادات کے حصول کیلئے کمر بستہ ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اپنے طبقہ اور گروہ کی ترقی اور بہتر مستقبل کیلئے کوشش کر رہا ہے۔ پارلیمانی الیکشن کے دو مراحل ہو چکے ہیں، تیسرا ۷؍ مئی کو ہے اور پھر چار مراحل باقی رہ جائینگے۔ 

یہ بھی پڑھئے:گرماکی تعطیلات :بچوں کے ایمان و عقائد پر محنت کیجئے

ہمارے ملک میں جمہوری نظام ہے اوراس وقت یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ ووٹ کا حق شہریوں کے بنیادی حقوق میں ہے۔ ملک کا دستور اپنے شہریوں کو ووٹ دینے، انتخاب لڑنے اور اپنے نمائندے کا انتخاب کرنے کا حق عطا کرتا ہے۔ جمہوری نظام میں انتخابی عمل کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ووٹ جمہوری معاشرہ میں ایک غیر متشدد ہتھیار ہے۔ یہ ووٹ بندوق کی گولی سے زیادہ طاقتور ہے۔ آپ اپنا ووٹ استعمال کرکے حکومت کی پالیسیوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ آپ کے ووٹ کے اندر ایک نااہل حکومت کو باہر کا راستہ دکھانے اور ملک کی قیادت میں تبدیلی لانے کی طاقت ہے۔ 
 ۲۰۲۴ء کا پارلیمانی انتخاب ہماری اپنی ملت اور اس ملک کے تناظر میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں ہماری غفلت اور لاپروائی خود اس ملک اورہماری آنے والی نسلوں کیلئے نا قابل تلافی نقصان اور خسران کا سبب ہو گی۔ ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرنا چاہئے اور اپنے حق راے دہی کو موثر بنانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔ ہماراملک عزیز ہندوستان اس وقت تاریخ کے انتہائی فیصلہ کن موڑ پر ہے۔ اگر ہم اب بھی اپنے ووٹ کی قوت و طاقت کو نہیں سمجھیں گے تو یقین جانئے کہ مستقبل میں بہت بڑی آزمائش کا شکار ہوں گے۔ ہم ذلت و نکبت کی طرف دن بدن بڑھتے چلے جائیں گے۔ جو لوگ گھروں، ہوٹلوں میں بیٹھ کر اور سڑکوں و چوراہوں پر کھڑے ہو کر غلط نظام اور کرپشن کو کوستے رہتے ہیں ان کیلئے یہ بہترین موقع ہے کہ گھروں سے نکلیں اور معاشرہ میں پُر امن اور مثبت تبدیلی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ پولنگ کا دن چھٹی یا آرام کرنے کا دن نہیں ہے بلکہ اس دن ہمارا سب سے اہم کام پولنگ بوتھ پر جاکر اپنا ووٹ ڈالنا ہے۔ 
 بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ ہمارا ایک ووٹ کیا وقعت رکھتاہے ؟ ہمارے ایک ووٹ دینے یا نہ دینے سے کیا فرق پڑنے والا ہے؟ اس طرح کی سوچ بظاہر تو انفرادی ہوتی ہے مگر اسی طرح کی انفرادی آراء جمع ہوتے ہوتے قومی و اجتماعی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ نتیجتاً ہمارا پولنگ تناسب نا قابل یقین حد تک کم ہو جاتا ہے۔ ’قطرہ قطرہ دریا شود‘‘ کے مصداق انتخابات میں ہر ہر فرد کا ووٹ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ امیدواروں کی جیت بسا اوقات چند ووٹوں کے فرق سے ہوتی ہے۔ اسی طرح حکومت کا بننا اور بگڑنا بھی کبھی کبھی محض ایک ووٹ سے ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ میں محض ایک وو ٹ کا فرق پوری حکومت کی فتح یا شکست کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ایک ووٹ سے کیا ہوگا کا خیال بہت غلط ہے۔ اس عمل اور سوچ نے ملت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اس کیفیت سے ہم کو باہر نکلنا ہوگا۔ ہم میں سے ہر فرد کو اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہمارا ووٹ لازماً درج ہو۔ ایک ایک ووٹ مل کر ہی ہزاروں لاکھوں میں تبدیل ہوتا ہے۔ اس الیکشن میں ہم زیادہ سے زیادہ ووٹ دینے کی کوشش کریں، یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ بعض اہل علم نے ووٹ کو گواہی کے حکم میں رکھا ہے، گواہی دینا بوقت ضرورت واجب ہے اور اس سے بڑی ضرورت کیا ہوگی کہ فرقہ پرست پارٹیوں کو بام اقتدار تک پہنچنے سے روکا جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جہاں کہیں مسلمانوں نے ووٹ کو اہم جانا، فسطائی قوتوں کو پیچھے ہٹانے میں مدد ملی ہے۔ 
 اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہمیں اپنے ووٹوں کو منتشرہونے سے بچا نا چاہئے۔ مسلم ووٹرس اس بات کا خود اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا ووٹ منتشر ہونے کے سبب سیاست کے میدان میں کوئی خاص اثر نہیں ڈال پاتا۔ اس اعتراف کے باوجود ہر بار ہمارا ووٹ منتشر ہوجاتا ہے اور ہم کوئی مؤثر لائحہ عمل بنانے میں ناکام رہتے ہیں، اس بار ہمیں اپنے ووٹوں کو منتشرہونے سے بچانا ہے اور پورے شعور کے ساتھ متحد ہوکر ووٹ دینا ہے۔ اکثریت تو ووٹ تقسیم ہونے کے باوجود اپنی سیاسی قوت برقرار رکھ سکتی ہے، لیکن اس اقلیت کا کوئی وزن باقی نہیں رہ سکتا جس کی صفیں شکستہ ہوں۔ اس وقت تفرقہ پسند قوتوں کو ناکام کرنا ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ 
 ووٹ دینا نہ صرف ہماری ملکی ذمہ داری ہے بلکہ ہمارا دینی اور شرعی فریضہ بھی ہے۔ قرآن و حدیث کے مطالعہ کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ وو ٹ ڈالنا، انتخاب میں حصہ لینا اور انتخابی تقاضوں کو پورا کرناایک دینی فریضہ ہے۔ اگر اچھے اور نیک لوگ اس میں شریک نہیں ہوں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ غلط اور شرپسند جوملک و ملت کے حق میں ظلم وتشددکو اپنا مقصد بنالیتے ہیں ان کے ہا تھوں میں اقتدار آجا ئے گا اور وہ اس زمین کو ظلم و جور سے بھر دینگے۔ ملک کے دیگر طبقات اور مذاہب کے لوگوں کے ساتھ پیار محبت اور امن و آشتی کی فضا کو ہر ممکن طریقے سے باقی رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ 
 اللہ تعالیٰ ہمارے حالات کو اسی وقت تبدیل کرے گا جب ہم خود ان حالات کو بدلنے کی کوشش کریں گے۔ اگر ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تو ہمارے حالات میں کسی طرح کی مثبت تبدیلی کی امید بے کار ہے۔ جب ہم خود اپنی حالت کو بدلنے کے لیے سعی و جہد کریں گے تو اللہ کی تائید اور نصرت بھی ہمیں حاصل ہوگی کہ: ’’اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو نہ بدلے۔ ‘‘ (الرعد:۱۱)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK