Inquilab Logo

تعلیم نگاری آج کی تاریخ میں بہت ضروری ہے، ہمارے دانشوران اور اساتذہ اس جانب مثبت فکر کا مظاہرہ کریں

Updated: March 10, 2024, 2:19 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

تعلیم، حصولِ تعلیم، وسائل تعلیم، طلبہ، اساتذہ، والدین، انتظامیہ، بدلتے حالات کی تعلیمی نفسیات، نیز حکومتِ وقت کے رویے، اقدامات، مسائل اور حل اِن سب کے تعلق سے سوچنا اور سوچتے رہنا یہ زندہ، فعال، متحرک، ذمہ دار اور دُور اندیش قوموں کا شعار ہے، چلن ہے، دستور ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

تعلیم، حصولِ تعلیم، وسائل تعلیم، طلبہ، اساتذہ، والدین، انتظامیہ، بدلتے حالات کی تعلیمی نفسیات، نیز حکومتِ وقت کے رویے، اقدامات، مسائل اور حل اِن سب کے تعلق سے سوچنا اور سوچتے رہنا یہ زندہ، فعال، متحرک، ذمہ دار اور دُور اندیش قوموں کا شعار ہے، چلن ہے، دستور ہے۔ اس لیے برِّصغیر کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ رائج اُردو زبان کی چھ درجن سے زائد اصناف میں تعلیم نگاری کو بھی عام کرنا ہے۔ اس محاذ پر کام کرنے کیلئے ہمارے (زیرِ ملازمت و سبکدوش) اساتذہ، ماہرینِ تعلیم اور ادیبوں کو بہر حال متحرک ہونا ہے۔ کریئر اور کورسیز یا چند امتحانات کی تکنیکی معلومات کو تعلیمی معاملات کا ۵؍ فیصد حصّہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ البتہ مکمل ذہن سازی، سارے سماجی و نفسیاتی پہلوئوں پر سیر حاصل، مفید اور تسلّی بخش گفتگو ہونی اور مسلسل ہوتی رہنی ضروری ہے۔ 
 آئیے آج یہ جائزہ لیں کہ تعلیم نگاری کے اس فریضے کی ادئیگی میں ہمارے اساتذہ کرام، مفکرین و دانشوران کی طرف سے ہونے والی کوتاہیوں کے اسباب کیا ہیں اور اس ضمن میں اب پیش رفت کیسے ہوسکتی ہے؟
آخر میں کیوں ؟
 جی ہاں ہر بار انسانی ذہن میں اُبھر نے والا سوال یہی ہے کہ ’’آخر میں کیوں ؟‘‘ یہ انسانی فطرت ہے کہ جہاں کہیں کوئی تکلیف اٹھانے، مصیبت ڈھونے اور قربانی دینے کی بات آتی ہے تب وہ اللہ تعالیٰ سے یہی شکایت اور سوال کرتا نظر آتا ہے ’’آخر میں کیوں ؟‘‘ اب یہ انسانی فطرت بھی دیکھ لیجئے کہ وہ اللہ سے یہ شکایت کرتا کبھی نظر نہیں آتا کہ’’ اے اللہ ! تو نے مجھے ہاتھ، پاؤں، آنکھ وغیرہ سلامت دئیے، کیوں ؟ یہ کرم مجھ پر کیوں ؟ مجھے عقل و فہم دیا، اس رحم و کرم کاحقدار آخر میں کیوں ؟ کیوں مجھے علم دیا، نالج دیا، روزی دی، عزت دی... آخر مجھ پر یہ ساری مہربانی کیوں ؟‘‘
 ہمارے اساتذہ، ہمارے دانشوران میں سےبعض کچھ اسی طرح کی باتیں کرتے سُنائی پڑتے ہیں : ’’ٹھیک ہے۔ تحریر یا تقریر سے تبدیلی نہیں بلکہ انقلاب بھی آسکتا ہے، مگر میں کیوں بھئی؟ کیا میں نے ٹھیکہ لیا ہے یہ کام کرنے کا؟ دوسرے اساتذہ، پروفیسرس بھی ہیں وہ بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔ میں کیوں کروں ؟ جنہیں چھٹے اور ساتویں پے کمیشن کی تنخوا ہیں مل رہی ہیں وہ کریں، میں کیوں ؟ میں قربانی کیوں دوں ؟ یہ تحریکی مضامین وغیرہ لکھنے کیلئے میں اپنی راتوں کی نیند کیوں حرام کروں ؟‘‘

یہ بھی پڑھئے: ہمارے اساتذہ اور ماہرین تعلیم’ تعلیم نگاری‘ پرمحنت کریں، اُسےایک فن کے طور پر رائج کرنے کی کوشش کریں


 قوم کہاں سدھرنے والی ؟
 قوم و اِنسانیت کی فلاح و بیداری کیلئے قلم سے جہاد کرنے سے انکار کرنے والے ہمارے اساتذہ و دانشور دوسرا جواز یہ پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ کتنی بھی کوشش کرلی جائے، فضول ہے۔ ہماری اس قوم کے کانوں پر جوں نہیں رینگنے والی، قوم سُدھر نے والی نہیں اور اس قوم کے طلبہ ؟ وہ بس ’ٹپوری‘ ہی رہیں گے۔ اِن طلبہ کے گھر کا ماحول ہی درست نہیں ہے۔ والدین بالکل لا پروا اور غیر ذمہ دار ہیں۔ اب اس قوم کے طلبہ اوروالدین پر محنت کر کے کیا حاصل ہونے والا ہے؟ لہٰذا ان کے پیچھے کیوں اپنا وقت اور اینرجی ’ضائع‘ کریں ؟ 
 ہر شخص کو یاد یہ رکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے ہاتھ میں صرف ایک ہی عصادی ہے اور اس کا نام ہے: کوشش ! بس کوشش کرنا انسان کے ہاتھ میں ہے اور اُس کا پھل اللہ کے ہاتھ میں ہے اور پھل کیسا ہوگا ؟ اس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ اپنی آخری کتاب میں فرماتا ہے :’’ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے‘‘ لہٰذا اگر آپ مکمل نیک نیتی، اخلاص اور بے غرض ہو کر اپنی قوم کی بیداری کیلئے اپنی تحریر و تقریر سے جہاد کرتے ہیں تو اللہ اسے کامیابی سے نوازے گاہی، اس میں ذرّہ برابر بھی شک نہیں ہونا چاہئے کیونکہ چار دہائیوں کے اس کے سفر میں ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارے بچّوں میں کوئی کمی نہیں، انہیں رہنمائی نہیں، تحریک نہیں، ترغیب نہیں البتہ محنت کی جائے تو کیا کیا نتیجے سامنے آتے ہیں یہ تو دیکھ لیجئے کہ یہ ’ٹپوری‘طلبہ کبھی مہاراشٹر ٹاپ کرر ہے ہیں، کبھی بنگال اور یہی ’غیر ذمہ دار ‘والدین خالص تعلیم کے عنوان پر پہلو بدلے بغیر چار /پانچ گھنٹہ مسلسل سُن رہے ہیں اور سوال پوچھ رہے ہیں۔ 
 ہمارے پاس وقت کہاں ہے؟
 بدقسمتی سے اس قبیل کے اساتذہ اور دانشوروں کا ایک مستقل بہانہ یہی ہے کہ اُن کے پاس وقت ہی کہاں ہے؟ دنیا داری کی چکّی میں وہ پِسے جا رہے ہیں۔ وقت ہے ہی نہیں اُن کے پاس۔ اساتذہ کے پاس تو اُن کے کاموں کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے: پڑھانا، امتحان لینا، پرچے تیار کرنا، پرچے جانچنا، رپورٹ تیار کرنا، اسکول انتظامیہ کی جانبداری اور ناانصافیوں کو برداشت کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اُن کا کہنا یہ ہے کہ ان معمول کے کاموں میں ہماری تخلیقی صلاحیتیں ہی ختم ہوجاتی ہیں اور پھر لے دے کر رہ گیا اتوار، اُس میں گھر کو، فیملی کو وقت دینا ہے، لہٰذا اپنے تجربات، مشاہدات وغیرہ کو تحریری شکل دینے کیلئے وقت کہاں سے لائیں ؟
 اوّل تو یہ کہ تدریس کو۹؍تا۵؍ بجے والا جاب سمجھنے والے اساتذہ ہی ایسا کہا کرتے ہیں۔ اُن کی نظر میں تدریس یہ کسی آفس جاب کی طرح صبح ۹؍ تا شام ۵؍ کی کوئی ملازمت ہے، اور دوسرے یہ کہ یہ حقیقت ہے کہ قوم کی فلاح کی خاطر اس قلمی جہاد کیلئے راتوں کی نیند تیاگ دینی ہوگی۔ ۲۴؍ گھنٹے کے دن کو۲۸؍ گھنٹے والا بنانا پڑے گا۔ وقت پیداکرنا ہوگا۔ قوم کیلئے کھپنا ہوگا، اپنے آپ کو کھپانا ہوگا۔ بڑے ہی افسوس کی بات یہ ہے کہ وقت کی کمی کا رونا ہمارے سبکدوش اساتذہ بھی کرتے رہتے ہیں ؟ حکومت کے تعلیمی شعبے نے اُنھیں یہ باورکرادیا ہے کہ وہ اب ۵۸؍برس کے ہوچکے ہیں، ریٹائر ہوچکے ہیں یعنی ناکارہ اور نااہل ہوچکے ہیں۔ اُن میں کوئی اختراعی صلاحیت نہیں رہ گئی ہے اور اب وہ صرف پنشن اور گریجویٹی کا حساب کرتے بیٹھیں۔ 
 کیا فائدہ ہوگا ہمیں ؟
 نفسا نفسی کے دَور میں سود و زیاں اور فائدے و نقصان کا یہ سوال سب سے زیادہ پوچھا جاتا ہے کہ اپنی راتوں کی نیند حرام کر نے، قوم کیلئے اپنے آپ کو وقف کرنے، قلم کے ذریعے طلبہ، والدین، اساتذہ، اور پورے معاشرے کی ذہن سازی کا کام کرنے کے بعد انہیں کیا حاصل ہوگا؟ 
ہم بتائیں ! تنخواہ میں کوئی اضافہ نہیں ہوگاساتویں پے کمیشن کے بجائے آٹھویں کمیشن کی تنخواہ لاگو نہیں ہوگی، سُپر وائزر سے ہیڈ ماسٹر نہیں بن جائیں گے لیکن محترم اسا تذہ کرام کیا آپ کو یہ نہیں لگتا کہ اُس سے آپ کو یہ اطمینان ہو جائے گا کہ آپ صرف ملازمت نہیں کر رہے ہیں (کیونکہ ملازمت تو ہر کوئی کرتا ہے ) بلکہ اس ملازمت سے ہٹ کر اپنی تحریر سے ملّت کو جھنجھوڑنے اور باخبر کرنے کا مقدس فریضہ بھی آپ انجام دے رہے ہیں۔ 
 کتاب مبین میں اللہ تعالیٰ نے قلم ہی سے سارے علوم سکھانے کی بات کہی ہے۔ آئیے اُس کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہم بھی قلم ہی سے علم کو پھیلائیں۔ قوم کے طلبہ، والدین، اساتذہ سبھوں کی ذہن سازی کیلئے قلم کا سہارالیں۔ یقین جانئے کہ اگر اساتذہ علم و تعلیم کے موضوع پر ایک سال میں صرف ایک مضمون تحریر کریں تب بھی بڑا انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ سچر کمیشن کی رپورٹ پر حکومت کیا کرتی ہے، اس کے انتظار میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کے بجائے ہمارے اساتذہ اور ماہرین تعلیم پہل کریں۔ ان حالات میں جبکہ وہ یہ جان چکے ہیں کہ تعلیمی محاذ پر ہماری قوم دوسری قوموں سے کافی پچھڑ چکی ہے تو ایسے میں تعلیم نگاری کو عام کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK