ایم بی اے چائے والا ہے تو کہیں گریجویٹ وڑا پاؤ والا
کیا آپ نے ٹیکسی سے سفر کے دوران چائے، پان یا وڑا پاؤ کے ایسے اسٹال دیکھے ہیں جن کے نام کی تختی پر الفاظ کم، طنز زیادہ ہے؟ نہ دیکھے ہوں تو اب نگاہ رکھئے تاکہ آپ بھی دیکھ پائیں کہ کہیں ’’گریجویٹ پان والا‘‘ لکھا ہوا ہے اور کہیں گریجویٹ وڑا پاؤ والی، کہیں ایم بی اے چائے والا ہے تو کہیں گریجویٹ وڑا پاؤ والا۔ لگتا ہے یہ تعلیم یافتہ بے روزگار ہیں جنہوں نے بے روزگار رہنے پر کچھ نہ کچھ کرنے کو قابل قدر ترجیح دی ہے مگر چونکہ اُنہیں ڈگری حاصل کرنے کے باوجود یہ کام کرنا پڑ رہا ہے ا سلئے اُن کا غم دکان یا اسٹال کے نام کی تختی پر چھلک گیا ہے۔ اگر یہ افسوسناک مگر دلچسپ سلسلہ جاری رہا تو کسی دن ایسی تختیاں بھی دکھائی دے سکتی ہیں : پی ایچ ڈی موبائل شاپ، ایم اے چنا سینگ والا، ڈبل گریجویٹ مینس پارلر یا بی اے واچ رپیئر شاپ۔ کبھی یہ منظر بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے کہ صبح سویرے جس جگہ دہاڑی مزدور کام کی تلاش میں جمع ہیں وہاں کئی مزدوروں کے ہاتھوں میں انگریزی اخبار ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ حکومت ٹھیک ہی کہتی ہے کہ بے روزگاری اپوزیشن کا کھڑا کیا ہوا ہوا ّ ہے، حقیقت نہیں ہے۔ یہ بات انتخابی نتائج سے بھی ثابت ہوئی ہے، پہلے مہاراشٹر، پھر ہریانہ اور اب بہار نے ثابت کردیا کہ ملک میں بے روزگاری نہیں ہے اس کا ہوا ّہے اور اگر بے روزگاری ہے بھی تو ایسی کہ متاثرین کو حکمراں جماعت یا اتحاد کے خلاف ووٹ دینے پر مجبور نہیں کرتی۔ ممکن ہے کوئی معاشی ماہر کسی دن سمجھانے لگے کہ بے روزگاری دو قسم کی ہوتی ہے، ایک وہ جس سے خاندان فاقہ کی طرف بڑھتا ہے، دوسری وہ جس سے خاندان کو نئی طاقت ملتی ہے کیونکہ متاثرہ افراد ڈگریوں کو صندوق میں بند کرکے کچھ اور کرنے لگتے ہیں ۔ پہلی قسم ہارڈ بے روزگاری کی ہے، دوسری سافٹ بے روزگاری کی۔ اس سے بھی بڑا کوئی معاشی ماہر یہ فلسفہ پیش کرسکتا ہے کہ ہارڈ بے روزگاری اس لئے ہے کہ متاثرین کچھ اور کرنے پر راضی نہیں ہوتے، یہ حکومت کا قصور نہیں متاثرین کی ہٹ دھرمی ہے ورنہ دیکھئے اُن لوگوں کو جنہوں نے سافٹ بے روزگاری کے ذریعہ معاشی سرگرمی شروع کردی جو معیشت کو فائدہ پہنچا رہی ہے!
اور معاف کیجئے وہ دن بھی آسکتا ہے جب یہ کہا جائیگا کہ بے روزگاری حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ نہیں عوام کی بے دلی کا نتیجہ ہوتی ہے اور اس لئے بڑھتی ہے کہ عوام کام نہیں کرنا چاہتے۔ یہ بات اس بنیاد پر کہی جارہی ہے کہ جاپان کی اولین خاتون وزیر اعظم، جن کا نام سنائے تکایچی ہے، بھی ایسے ہی خیالات رکھتی ہیں ، اُن کا کہنا ہے کہ نیند آپشنل ہو، اگر کام ہے تو کام ہی کیجئے سونے یا آرام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنے شہریوں سے ایسی اپیل کرنے سے پہلے انہوں نے اپنے بارے میں بتایا تھا کہ وہ رات میں صرف دو گھنٹے سوتی ہیں ، کبھی کبھی ہی ایسا ہوتا ہے کہ چار گھنٹے کی نیند ملی۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے اُن کا نام اس لئے سرخیوں میں تھا کہ اُنہوں نے اپنے دفتر کے عملے کی میٹنگ رات تین بجے بلائی تھی۔ سنائے تکایچی کے خیالات اور طرز عمل سے روشنی لے کر ہمارے یہاں کہا جاسکتا ہے کہ ملک میں بے روزگاری اس لئے ہے کہ ہم بھارت کے لوگ سوتے زیادہ ہیں ، آٹھ آٹھ نو نو گھنٹے سوتے ہیں ، کام نہیں کرتے۔
مگر اس مسئلہ سے بحث ہی کیوں ہو جب یہ مسئلہ نہیں ہے، عوام بھی اسے مسئلہ نہیں مانتے اور بے روزگاری کو انتخابی موضوع بنانے والوں کے خلاف ووٹ دیتے ہیں ۔کیا جلد ہی وہ دن آئے گا جب اپوزیشن پارٹیاں بے روزگاری او ر پلائن کو اشیو بنانے کی غلطی کا اعتراف کریں گی اور ووٹروں سے معافی مانگیں گی؟