نئی نسل کے ہاتھوں میں جدیدیت کی چمک ہے، مگر دلوں میں روایتوں کی ماند ہوتی روشنی بھی ہے۔ یہ مضمون ایک احساس، ایک سوال، اور ایک صدا ہے کہ ترقی کی راہ پر چلتے ہوئے کیا ہم نے اپنی پہچان کی بنیادوں کو بھلا دیا ہے؟ نئی نسل کو چاہئے کہ وہ اپنی جدید سوچ کے ساتھ اپنے ماضی کی خوشبو بھی سنبھالے
بزرگوں نے روایات اسلئے بنائیں کہ زندگی میں نظم و توازن قائم رہے، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان روایات کو نئی نسل تک پہنچائیں۔ تصویر:آئی این این
دنیا بدل رہی ہے۔ وقت کا دھارا اپنی سمت میں ہر شے کو بہا لے جا رہا ہے۔ کہیں تیزی، کہیں چمک، کہیں شور، کہیں احساس کا زوال۔ اور اسی ہنگامۂ وقت میں ہماری نئی نسل سانس لے رہی ہے۔ وہ نسل جس کے ہاتھ میں موبائل، ذہن میں خواب، دل میں خواہش، اور زبان پر سوال ہیں۔ مگر دل کے کسی کونے میں ایک خلا بھی ہے، ایک ادھورا پن، جو شاید روایات کے ٹوٹ جانے سے پیدا ہوا ہے۔ یہ وہ نسل ہے جو دنیا کی خبریں لمحوں میں جان لیتی ہے مگر اپنے بزرگوں کی حکمت بھولتی جا رہی ہے، جو ترقی کے زینے چڑھ رہی ہے مگر اپنی جڑوں سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ نئے زمانے کی چمک نے جہاں اس کے دل و دماغ میں روشنی بھری، وہیں روایتوں کے چراغ مدھم ہونے لگے۔ سوال یہ نہیں کہ نئی سوچ غلط ہے، سوال یہ ہے کہ کیا نئی سوچ کو پرانی روایات کی خوشبو کے بغیر بھی زندگی مل سکتی ہے؟
ہم جب بچپن میں بڑوں سے سنتے تھے کہ عزت، لحاظ، صبر، اور حیا زندگی کی بنیاد ہیں، تو وہ محض الفاظ نہیں تھے، وہ صدیوں کے تجربوں سے نکلی دانائی تھی۔ مگر آج یہ الفاظ سن کر نوجوان مسکرا دیتے ہیں، جیسے یہ سب پرانی کہانیاں ہوں۔ انہیں لگتا ہے کہ دنیا اب بدل چکی ہے، اب محبت کا مطلب لائکس اور کمنٹس میں ناپا جاتا ہے اور تعلقات آن لائن بنتے ہیں۔ مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ ترقی کا اصل مطلب صرف آگے بڑھنا نہیں، بلکہ اپنی بنیادوں کو محفوظ رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔
اگر ہم دیانتداری سے سوچیں تو احساس ہوگا کہ نئی نسل میں صلاحیت کی کوئی کمی نہیں۔ ان میں ہنر ہے، اعتماد ہے، جذبہ ہے۔ مگر ان سب کے باوجود ان کے چہروں پر ایک انجانی تھکن ہے۔ یہ وہ تھکن ہے جو تیزی سے دوڑنے والے شخص کو ہوتی ہے، جسے منزل کا پتہ نہیں۔ کیونکہ روایات منزل کا نشان ہوتی ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ کہاں رکنا ہے، کہاں جھکنا ہے، کہاں بولنا ہے اور کہاں خاموش رہنا ہے۔ آج اس تربیت کی کمی ہے۔
روایات دراصل روح کی غذا ہیں۔ یہ بتاتی ہیں کہ رشتہ محض نام کا نہیں، احترام کا ہوتا ہے۔ محبت محض جذبہ نہیں، قربانی کا نام ہے۔ والدین کا وجود محض فرض نہیں، برکت ہے۔ بھائی بہنوں کے تعلقات محض رشتے نہیں، سہارے ہیں۔ مگر آج ان سب کے بیچ ’مَیں‘ کی دیوار کھڑی ہوگئی ہے۔ نئی نسل کی سوچ میں ’مَیں‘ بہت بڑا ہے، ’ہم‘ بہت چھوٹا۔ اور یہی خودی جب بے قابو ہو جاتی ہے تو انسان اپنی پہچان کھو دیتا ہے۔
ہم اگر اپنے گھروں کے ماحول پر غور کریں تو فرق صاف دکھائی دیتا ہے۔ کبھی چولہے کی آنچ کے ساتھ قصے کہانیاں سنائی جاتی تھیں۔ اب سب اپنی اپنی اسکرین میں گم ہیں۔ کبھی کھانے کی میز پر ہنسی بانٹی جاتی تھی، اب خاموشی بیٹھتی ہے۔ کبھی ماں کے ہاتھوں سے کھانے میں دعا گھلتی تھی، اب ڈیلیوری بوائے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ کبھی رشتوں میں احساس کا گلاب کھلتا تھا، اب لفظ ’مصروف ہوں‘ ایک مستقل جواب بن گیا ہے۔ ہم نے سہولت تو حاصل کر لی، مگر سکون کھو دیا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت کسی کے انتظار میں نہیں رکتا۔ ہر دور کا اپنا انداز، اپنی رفتار، اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ مگر جو قومیں اپنے ماضی سے رشتہ توڑ دیتی ہیں وہ خود تاریخ کا ایک ماضی بن جاتی ہیں۔ اس لئے نئی نسل کو چاہئے کہ وہ اپنی جدید سوچ کے ساتھ اپنے ماضی کی خوشبو بھی سنبھالے۔ علم حاصل کرے، دنیا دیکھے، خواب سجائے، مگر اپنی زبان، اپنی تہذیب، اپنی دعائیں اور اپنے بزرگوں کا احترام نہ بھولے۔ کیونکہ یہی روایات ہیں جو مشکل وقت میں انسان کو تھامتی ہیں۔
آج اگر کوئی بچہ اپنی ماں سے بات کرنے کے بجائے چیٹ بوٹ سے دل ہلکا کرتا ہے، تو یہ ترقی نہیں، تنہائی ہے۔ اگر کوئی لڑکی اپنی عزت کو اظہار کی قربانی سمجھنے لگے تو یہ آزادی نہیں، الجھن ہے۔ اگر کوئی نوجوان ماں باپ کے سامنے نظریں چُرا کر دلیل دے تو یہ دلیل نہیں، دوری ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ روایات نے ہمیں کمزور نہیں کیا، بلکہ مضبوط بنایا۔ ان کے اندر اخلاق، صبر، اور عزت کا وہ سرمایہ چھپا ہے جو آج کی دنیا خرید نہیں سکتی۔
ہمیں نئی نسل کو احساس دلانا ہے کہ روایات زنجیر نہیں، تحفظ ہیں۔ یہ اوڑھنی ہیں، جو عزت بھی دیتی ہیں، شناخت بھی۔ ترقی کی راہ پر چلنا ضروری ہے، مگر سر پر وہ اوڑھنی رہے جو ہماری پہچان ہے۔ ہمیں انہیں یہ بتانا ہے کہ جدید سوچ تب ہی روشن ہے جب وہ روایت کے دیے سے جلتی ہو۔ جو اپنی جڑوں کو کاٹ کر آسمان چھونا چاہے، وہ گر جاتا ہے۔ لیکن جو اپنی زمین سے جڑا رہتا ہے، وہ چاہے کتنا ہی اونچا جائے، اسکا سایہ ہمیشہ اپنی مٹی پر رہتا ہے۔
ہمیں اپنی نئی نسل سے خفا نہیں ہونا چاہئے، بلکہ ان سے قریب ہونا چاہئے۔ انہیں سننا چاہئے، ان کے خوابوں کو سمجھنا چاہئے۔ اور ساتھ ساتھ انہیں اپنے ماضی کی کہانیاں، اپنی ماں کی دعائیں، اپنے بزرگوں کے تجربے بھی سنانے چاہئیں۔ کیونکہ روایتوں کی تعلیم کتابوں میں نہیں، دلوں میں محفوظ ہوتی ہے۔ اگر ہم نے وہ دل ان سے جوڑ لئے، تو روایتیں مر نہیں سکتیں۔