آر ٹی آئی ایکٹ ۲۰۰۵ء میں منظور اور نافذ کیا گیا تھا۔ اُس دَور میں یو پی اے کی حکومت تھی اور وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ تھے۔
آر ٹی آئی ایکٹ ۲۰۰۵ء میں منظور اور نافذ کیا گیا تھا۔ اُس دَور میں یو پی اے کی حکومت تھی اور وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ تھے۔ ہمیں یاد نہیں آتا کہ اِس قانون کے بنانے سے لے کر پارلیمنٹ میں پیش کرنے اور منظور کروانے تک کے دوران ڈاکٹر منموہن سنگھ کی کابینہ میں کوئی عدم اتفاق تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پوری حکومت، سرکاری محکموں میں شفافیت کی قائل تھی اور کسی کو یہ خوف نہیں تھا کہ اس کی وجہ سے عوام کو جوابدہ ہونےکی ذمہ داری آن پڑیگی اور حکمرانی کے طور طریقوں کا کوئی بھی پہلو عوام کی نگاہ سے اوجھل نہیں رہ سکے گا۔ یہ اُس حکومت کی جرأت تھی جس نے ’’اپنے خلاف‘‘ عوام کے ہاتھوں میں اتنا بڑا ہتھیار دیا۔ اس سے عوام کو یہ اختیار اور فائدہ ملا کہ ایسی کوئی بھی اطلاع جس کے جاننے کے وہ خواہشمند ہیں او رجو کسی اور ذریعہ سے اُن تک نہیں پہنچ رہی ہے، براہ راست متعلقہ محکمے سے پوچھیں۔
جمہوریت کی تعریف میں ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ یہ عوام کی حکومت ہوتی ہے مگر عملاً، حکومتیں عوام سے بہت سی باتیں چھپاتی ہیں یا چھپا سکتی ہیں اور اگر کوئی وضاحت طلب کی گئی تو اُسے روکا جاتا ہے یا روکا جاسکتا ہے۔ عوام کو اس قانون کی کتنی ضرورت تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نفاذِ قانون کے بعد ہر سال ۴۰؍ تا ۶۰؍ لاکھ عرضیاں داخل کی گئیں اور بہت سے رضاکاروں نے خود کو آر ٹی آئی رضاکار کہنے میں فخر محسوس کیا۔ ان بیس برسوں میں یہ بھی ہوا کہ آر ٹی آئی کے ذریعہ سرکار اور سرکاری عہدیداربدعنوانی کے خلاف متنبہ ہی نہیں ہوئے بلکہ لازمی سہولیات مہیا کرانے کیلئے پابند بھی ہوئے۔ قارئین جانتے ہیں کہ اس قانون کی وجہ سے سرکاری محکموں میں آر ٹی آئی کی جوابدہی کااحساس اور فکر پیدا ہوئی۔ سالانہ ۴۰؍ تا ۶۰؍ لاکھ عرضیوں کا کیا معنی ہے؟ اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ آر ٹی آئی نے عوامی مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کیا اور اسے عوام نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
آر ٹی آئی ایکٹ سے عوام کو اختیار اور طاقت ملی، سرکار اور سرکاری افسروں سے خوفزدہ ہونے یا جواب نہ ملنے کی صورت میں بددل ہوکر گھر بیٹھنے کے بجائے اُن میں سوال پوچھنے کی جرأت پیدا ہوئی اور اِس بات میں اُن کا اعتماد بڑھا کہ جمہوریت کا معنی عوام کی حکومت ہے۔ مگر، حالیہ برسوں میں آر ٹی آئی کے بے اثر کرنے کی کوششیں تشویش کا باعث ہیں۔ کئی محکمے یہ لکھ کر گلوخلاصی چاہتے ہیں کہ متعلقہ معلومات یا ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔ ایسے جوابات آر ٹی آئی کے مقصد کو فوت کرنے کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی ساکھ کو بھی کمزور کرتے ہیں۔ اس جانب حکومت کو توجہ دینی چاہئے مگر کیا حکومت ایسا کریگی یہ ایک اہم سوال ہے کیونکہ خود حکومت نے بعض معاملات میں آر ٹی آئی کو پس پشت ڈالا ہے، مثلاً، ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن (ڈی پی ڈی پی) ایکٹ میں معلومات حاصل کرنے کے حق میں ترمیم کی شق موجود ہے جو آر ٹی آئی کی روح کو مجروح کرتی ہے۔ اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ آر ٹی آئی ایکٹ نے ثابت کیا ہے کہ اگر عوام بالخصوص غریب اور پسماندہ عوام کیلئے سرکاری اسکیموں سے استفادہ کے تمام دروازے کھلے رکھنے ہیں تو چھوٹی سے چھوٹی اطلاع (جانکاری، معلومات) تک اُن کی رسائی کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔ واضح رہے کہ آر ٹی آئی یا اس جیسا قانون دُنیا کے کم و بیش ۱۳۳؍ سے زائد ملکوں میں نافذ ہے۔ وہ یوں ہی تو نہیں ہے۔