Inquilab Logo

رائے دہندگان کے بدلتے تیور

Updated: April 24, 2024, 1:12 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

بھارتیہ جنتا پارٹی کا دعویٰ ہے خود ۳۷۰؍ سیٹیں جیتنے کا اور حلیف پارٹیوں کے ساتھ ۴۰۰؍ کے ہدف تک پہنچنے کا۔ یہ کتنا ناقابل رسائی یا قابل رسائی ہے، اس کا اندازہ ملک کے حالات اور رائے دہندگان میں پائی جانے والی بے چینی سے لگایا جاسکتا ہے مگر چند واقعات ایسے ہیں جو صحیح اندازہ لگانے میں مددگار ہیں ،

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 بھارتیہ جنتا پارٹی کا دعویٰ ہے خود ۳۷۰؍ سیٹیں  جیتنے کا اور حلیف پارٹیوں  کے ساتھ ۴۰۰؍ کے ہدف تک پہنچنے کا۔ یہ کتنا ناقابل رسائی یا قابل رسائی ہے، اس کا اندازہ ملک کے حالات اور رائے دہندگان میں  پائی جانے والی بے چینی سے لگایا جاسکتا ہے مگر چند واقعات ایسے ہیں  جو صحیح اندازہ لگانے میں  مددگار ہیں ، مثال کے طور پر دہلی سے ملحق ضلع کوشامبی کے قصبہ دارا نگر میں  جب وہاں  کے بی جے پی کے اُمیدوار اور موجودہ رکن پارلیمان ونود سونکر کاروباریوں  کی ایک میٹنگ میں  پہنچے تو اُنہیں  تلخ سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ونود سونکر متعلقہ حلقے سے دو مرتبہ الیکشن جیت چکے ہیں ۔ انہیں  تیسری بار اُمیدوار بنایا گیا ہے اس لئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پارٹی ٹکٹ دیتے وقت سابقہ کارکردگی کو سامنے نہیں  رکھتی؟ بھری محفل میں  رکن پارلیمان سے دوبدو سوال کرنا آسان نہیں  ہے مگر شرکاء نے بڑی جرأت کے ساتھ سونکرسے پوچھا کہ آپ دس سال کہاں  تھے؟ کبھی اس طرف کیوں  نہیں  آئے؟ اس میٹنگ کا ویڈیو منظر عام پر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں  کہ ملک کے دیگر حلقوں  میں  رائے دہندگان بھلے ہی اتنی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوال نہ پوچھیں  مگر یہ ممکن ہے کہ سوال کرنے پر اُکسانے والی بے چینی وہاں  بھی پائی جاتی ہو۔ اگر ایسا ہے تو کیا بی جے پی  ۳۷۰؍ سیٹیں  جیتنے کا خواب پورا کرسکتی ہے؟ 
 ہمارے خیال میں ، مودی، شاہ اور نڈا کی پارٹی زمینی حالات سے بے خبر ہو ایسا نہیں  ہوسکتا، اسی لئے پارٹی کوشش کررہی ہے کہ تمام مسائل اور موضوعات کو پیچھے دھکیل دینے والا سیاسی بیانیہ معرض وجود میں  آئے اور ۲۰۲۴ء کا الیکشن بھی ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کے الیکشنوں  جیسا ہوجائے جس میں  بی جے پی کو توقع سے بڑی کامیابی ملی تھی۔ کیا ایسا ہوگا؟ اس کی پیش گوئی نہیں  کی جاسکتی مگر ایک بات سمجھ میں  آرہی ہے کہ ۳۷۰؍ سیٹیں  جیتنے کا ہدف اپنی جگہ، بی جے پی اِس بار اپنی سابقہ کارکردگی کو دُہرانے کی پوزیشن میں  بھی نظر نہیں  آتی۔ اسی لئے ہر نیا دن وزیر اعظم کی تقریر میں  نئی تبدیلیوں  کا گواہ بن رہا ہے۔ بانسواڑہ میں  اُنہوں  نے جو کچھ کہا تھا اس میں  تبدیلی کی اور دو دِن بعد اس بیان کو مسلمانوں  کا ریفرنس نکال کر دُہرایا۔ اب کسی کے پوچھے بغیر کہ ’’مسلمانوں  کو کیا دیا‘‘ یہ سمجھانے لگے کہ اُن کے دور میں  حج کوٹہ بڑھا اور حج ویزا کے حصول میں  آسانیاں  پیدا ہوئی ہیں ۔ 
 اس کے علاوہ اگر کچھ ہے تو یہ کہ کانگریس کی شدید مخالفت اُن کی ہر تقریر کا لازمی جزو ہے۔ اگر اُن کی پارٹی کو ۳۷۰؍ سیٹیں  جیت لینے کا یقین ہے تو روزانہ کانگریس پر اپنی توانائی خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جو ضروری ہے وہ تو نہیں  کیا جارہا ہے۔ بے روزگاری، مہنگائی، اگنی ویر اورکسانوں  کی ایم ایس پی پر حکمراں  جماعت کی رائے ظاہر کرنا نہیں  ہے تو اسے کم از کم یہ ضرور بتانا چاہئے کہ ’’کانگریس مُکت بھارت‘‘ کا سپنا کس حد تک ساکار ہوا اَور اگر اس میں  اب بھی وقت ہے تو کتنا؟
 دراصل حکمراں  جماعت نے ۳۷۰؍ اور ۴۰۰؍ کا نعرہ اس لئے لگایا ہے تاکہ کارکنان اور اُمیدواروں  کا جوش کم نہ ہونے پائے۔ یہ حکمت عملی ہے مگر اسے وضع کرنے والے بھول گئے کہ کارکنان اور اُمیدواروں  کے علاوہ ایک تیسرا زاویہ عوام کا ہے جو موقع دیتے ہیں  تو موقع چھین لینے کا حق اپنے پاس رکھتے ہیں ۔اس بار اُن کے ارادے کچھ اور اشارہ دے رہے ہیں ۔ کچھ لوگ اپنے خیالات کا اظہار کررہے ہیں ، بہت سے نہیں  کررہے ہیں  مگر اُن کے دل میں  کیا ہے وہ چہرے سے ظاہر ہورہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK