• Sat, 15 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کراس ووٹنگ اور کانگریس

Updated: July 16, 2024, 1:31 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

مہاراشٹر قانون ساز کونسل کے حالیہ انتخابات میں کانگریسی اراکین اسمبلی کی کراس ووٹنگ نے اُس شاندار کامیابی کا رنگ پھیکا کر دیا ہے جو ایم وی اے (مہاوکاس اگھاڑی) کو اپریل اور مئی کے لوک سبھا الیکشن میں اور پھر ’’انڈیا‘‘ اتحاد کو گزشتہ ہفتے ۷؍ ریاستوں کی ۱۳؍ سیٹوں کے ضمنی انتخابات میں حاصل ہوئی۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 مہاراشٹر قانون ساز کونسل کے حالیہ انتخابات میں  کانگریسی اراکین اسمبلی کی کراس ووٹنگ نے اُس شاندار کامیابی کا رنگ پھیکا کر دیا ہے جو ایم وی اے (مہاوکاس اگھاڑی) کو اپریل اور مئی کے لوک سبھا الیکشن میں  اور پھر ’’انڈیا‘‘ اتحاد کو گزشتہ ہفتے ۷؍ ریاستوں  کی ۱۳؍ سیٹوں  کے ضمنی انتخابات میں  حاصل ہوئی۔ کم و بیش ۷؍ اراکین کی کراس ووٹنگ سے مہا یوتی کا اُمیدوار جیت گیا جبکہ مہا وکاس اگھاڑی کا وہ اُمیدوار، جو بنیادی طور پر کسان مزدور پارٹی سے تھا، کف ِافسوس ملتا رہ گیا۔ اِس سے شیوسینا، این سی پی (شرد پوار) اور کانگریس کے اتحاد میں  بدمزگی پیدا ہوئی ہے، یہ الگ بات کہ ان پارٹیوں  نے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک دوسرے کو ہدف تنقید بنانے سے گریز کیا ہے۔ کانگریس کی ریاستی اکائی کا کہنا ہے کہ جن اراکین پر کراس ووٹنگ کا شبہ تھا، اُنہیں  نظر میں  رکھا گیا تھا کیونکہ ایسا ہی واقعہ ۲۰۲۲ء کے ایم ایل سی الیکشن میں  بھی ہوا تھا۔ ریاستی اکائی کا یہ بھی کہنا ہے کہ متعلقہ اراکین کی تفصیل ہائی کمان کو بھیج دی گئی ہے جس کے فیصلے کا انتظار ہے۔
 زیر بحث کراس ووٹنگ اُس تردد اور پس و پیش کا نتیجہ ہے جس کا مظاہرہ ۲۰۲۲ء کی کراس ووٹنگ کے ذمہ داروں  کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے ذریعہ کیا گیا تھا۔ پارٹی ہائی کمان نے اُسی وقت ان اراکین کو سزا دی ہوتی تو ممکن تھا کہ اِس بار اُنہیں  یا اُن جیسے دیگر اراکین میں  اپنے اتحاد کو چھوڑ کر مخالف اتحاد کو ووٹ دینے کی جرأت نہ ہوتی۔ کانگریس کی ریاستی اکائی اور مہا وکاس اگھاڑی کی جانب سے ملنے والے اشاروں  سے اندازہ ہوتا ہے کہ جن اراکین نے حالیہ الیکشن میں  پارٹی کو دغا دی اُن میں  وہ بھی شامل ہیں  جنہوں  نے ۲۰۲۲ء میں  بھی ایسا کیا تھا۔ اگر تب کارروائی نہیں  کی گئی تھی تو کیا اب بھی نہیں  کی جائیگی؟ یہ سوال ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ریاستی اکائی کے صدر نانا پٹولے کی سفارش کے باوجود اعلیٰ کمان سزا دینے کی پالیسی کو مؤخر ہی رکھے گا تاکہ متعلقہ اراکین مخالف پارٹیوں  میں  شامل نہ ہوجائیں ۔اگر ایسا ہوا تو یہ پارٹی کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے وہ بھی ایسے وقت میں  جبکہ ریاستی اسمبلی انتخابات چند ہی مہینوں  میں  ہونے ہیں ۔ 
 ہمارے خیال میں  پارٹی ہائی کمان کو کارروائی سے گریز نہیں  کرنا چاہئے۔ اگر یہ ڈر ہے کہ متعلقہ اراکین، مخالف پارٹیوں  میں  شامل ہوکر کانگریس کیلئے مسائل پیدا کرسکتے ہیں  تو یہ اس لئے بے بنیاد ہے کہ جب ۲۰۲۲ء کے بعد ۲۰۲۴ء میں  بھی کچھ اراکین پارٹی مفاد کے خلاف ہی کام کرتے پائے گئے اور ان کی وجہ سے پارٹی کو نقصان ہوا نیز اس کی شبیہ خراب ہوئی ہے تو ایسے اراکین سے یہ اُمید کیوں  کی جارہی ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں  پارٹی کو فائدہ پہنچانے کیلئے سرگرم رہیں  گے؟ بلکہ یہ تو زیادہ نقصاندہ اور شرمناک ہوگا کہ مشتبہ لوگوں  کو اپنا سمجھ کر انتخابی میدان میں  اُترا جائے اور وہ حسب سابق پارٹی مخالف سرگرمیوں  میں  مبتلا رہیں ۔ اُن سے فائدہ کی اُمید رکھنا خود کو دھوکہ دینا ہے۔ 
 ہرچند کہ دیگر پارٹیوں  میں  بھی ایسے عناصر موجود ہیںمگر یہ مسئلہ کانگریس کے ساتھ زیادہ ہے۔ اسے جتنا خطرہ مخالف پارٹیو ں سے ہے کم و بیش اُتنا ہی اُن اندرونی لوگوں  سے بھی ہے جو ذاتی مفادکیلئے پارٹی کے مفاد کو قربان کرنے میں  دیر نہیں  لگاتے۔ کانگریس کی فوری کامیابیاں  بھلے ہی محدود ہوجائیں ، اسے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہی پڑے گا۔ اسی میں  اس کا طویل مدتی فائدہ مضمر ہے۔ 

congress Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK