• Sun, 21 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا معاشرہ کو اقبال ؔکی ضرورت ہے؟

Updated: November 09, 2025, 2:23 PM IST | Inquilab News Network | mumbai

آج، جبکہ یوم اقبال ہے، ہم سوچ رہے ہیں کہ وہ اقبال جس نے اپنی شاعری قوم کیلئے وقف کردی، اپنے خیالات و افکار کے ذریعہ قوم کو اس کا منصب یاد دلانے، عظمت رفتہ کا احساس دلانے، قوم کو بیدار کرنے اور بیدار رہنے کا پیغام دینے کیلئے خود کو جتنا صرف کیا، آج اُسی قوم کو اقبال کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا ایسا کہنا درست ہے؟ اگر ضروت ہے تو کتنی ہے اور نہیں ہے تو کیوں نہیں ہے؟

INN
آئی این این
آج، جبکہ یوم اقبال ہے، ہم سوچ رہے ہیں  کہ وہ اقبال جس نے اپنی شاعری قوم کیلئے وقف کردی، اپنے خیالات و افکار کے ذریعہ قوم کو اس کا منصب یاد دلانے، عظمت رفتہ کا احساس دلانے، قوم کو بیدار کرنے اور بیدار رہنے کا پیغام دینے کیلئے خود کو جتنا صرف کیا، آج اُسی قوم کو اقبال کی ضرورت نہیں  ہے؟ کیا ایسا کہنا درست ہے؟ اگر ضروت ہے تو کتنی ہے اور نہیں  ہے تو کیوں  نہیں  ہے؟
یہ سوال اس لئے پیدا ہورہا ہے کہ اقبال نے جو کچھ بھی کرنا اور کہنا چاہا اُس کے تئیں  کم سے کم تر احساس باقی رہ گیا ہے۔ اقبال ہی نے کہا تھا ’’وائے ناکامی متاع کارواں  جاتا رہا=کارواں  کے دل سے احساس زیاں  جاتا رہا‘‘ کچھ ایسی ہی کیفیت اس وقت معاشرہ میں  پائی جارہی ہے۔ کل تک ایسے لوگ تھے جو مکمل کلام ِ اقبال کے حافظ نہیں  تو کم از کم اُن کی چند نظمیں  اور کئی اشعار کے حافظ ضرور ہوتے تھے۔ کتابوں  کی دکانوں ، جو مساجد کے باہر بھی لگتی تھیں ، پر نظر پڑتی تو شکوہ اور جواب شکوہ جیسی نظموں  کےکتابچے بآسانی دکھائی دے جاتے تھے۔ ایک شخص ان نظموں  کا ایک مصرعہ پڑھتا تو پاس بیٹھے لوگ دوسرا مصرعہ پڑھنے لگتے تھے۔ ایسے لوگ بھی ہوتے تھے جو کئی کئی نظمیں  زبانی سنا دیتے تھے۔ ان میں  وہ بھی تھے جو اقبال کو سمجھنے کیلئے کبھی لغت کا سہارا لیتے، کبھی اسلامی کتب سے استفادہ کرتے اور اگر بات نہ بنتی تو کسی صاحب ِ علم سے دریافت کرتے تھے۔ اب تو ایسا شخص یا طالب علم نظر نہیں  آتا۔ شاید اس لئے کہ کوئی سوچتا ہی نہیں  ہے اور یہ بھی اس لئے کہ دیکھتا ہی نہیں  ہے۔ اسی لئے ہم نے سوال کیا کہ اقبال نے جس قوم کو جھنجوڑنے اور خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کی کوشش کی اُس قوم کو اقبال کی ضرورت ہے یا نہیں  ہے۔
گستاخی معاف، فی زمانہ قوم کے افراد کو اقبال کی ضرورت تب پیش آتی ہے جب کہیں  تقریر کرنی ہو یا مقالہ لکھنا ہو۔ اقبال کی فکر پر غوروخوض کی فرصت اب کسی کو نہیں  ہے۔ چند سال پہلے بھیونڈی کے مشہور اور باوقار تعلیمی ادارے رئیس ہائی اسکول کی ای لائبریری نے اقبال فہمی کا باقاعدہ کورس شروع کیا تھا۔ اس سلسلے کی کلاسیز بھی ہوئیں  اور دو بیچ مستفید ہوئے۔ استفادہ کرنے والے طلبہ کو سند بھی دی گئی۔ یہ سلسلہ دو میقات تک جاری رہا۔ اس کے بعد یہ جوگیشوری کے مدنی ہائی اسکول میں  شروع ہوا۔ ہم یہ تو نہیں  کہہ سکتے کہ یہ سلسلے کیوں  موقوف ہوئے، کچھ تو مجبوریاں  رہی ہوں  گی، مگر اتنا ضرور کہیں  گے کہ مہاراشٹر کے دیگر تعلیمی ادارے اس سلسلے کی تفصیل حاصل کرکے اُسے جوں  کا توں  یا کسی اور انداز میں  اپنے ہاں  شروع کرسکتے ہیں ۔ مگر، اس سے پہلے شرط ہے کہ قوم کو یہ احساس ہو کہ کلام ِ اقبال معاشرہ کی ضرورت ہے اور صرف کلام ِ اقبال نہیں  بلکہ حیات ِ اقبال بھی، تاکہ ’’حکیم اُمت‘‘ کو بہتر طور پر سمجھنے میں  آسانی ہو اور اقبال فہمی کا سلسلہ دراز ہو۔ 
آج کل جبکہ ویڈیو دیکھنا روزانہ کا مشغلہ بن گیا ہے، نئی نسل کے افراد کو ایسی ویڈیوز بنانی چاہئیں  جن میں  اقبال کا کلام، اُس کا مفہوم، اقبال کی زندگی کے واقعات اور اُن پر اہل علم و قلم کی رائے کو یکجا کیا گیا ہو۔ کسی ماہر ِ اقبالیات سے گفتگو پر مبنی ویڈیو بھی کافی مفید ہوسکتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ قوم، اقبال کی ضرورت محسوس نہ کرتی ہو تب بھی اُسے ضرورت کا احساس دلانا چاہئے۔ اقبال کو فراموش کردینے میں  اپنا ہی نقصان ہے اور اگر آج اس جانب توجہ نہیں  دی گئی تو کل اقبال کی شاعری یا تفہیم کی کتابیں  بھی کہاں  دستیاب ہوں  گی؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK