Inquilab Logo

گوشۂ اقبال ( یوم ولادت کی مناسبت سے)

Updated: November 09, 2022, 1:39 PM IST | Mohammad Younis Hasrat | Mumbai

اقبال جب اعلیٰ تعلیم کی غرض سے یورپ گئے تو لندن اور دیگر شہروں کے کتب خانوں میں اپنے بزرگوں کا گراں قدر علمی ورثہ اُن کی نظر سے گزرا، اس ورثے کو اہل یورپ کے قبضے میں دیکھ کر اقبالؔ کو جو دلی صدمہ اور ذہنی کوفت ہوئی اس کا اظہار اس نظم میں کیا گیا ہے!

Muhammad Iqbal .Picture:INN
علامہ اقبال۔ تصویر:آئی این این

علامہ اقبال کی نظم جس میں نوجوانوں سے خطاب کیا گیا ہے
خطاب بہ جوانانِ اسلام
کبھي اے نوجواں مسلم! تدبر بھي کيا تو نے 
وہ کيا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا 
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت ميں 
کچل ڈالا تھا جس نے پائوں ميں تاج سر دارا 
تمدن آفريں خلاق آئين جہاں داري 
وہ صحرائے عرب يعني شتربانوں کا گہوارا 
سماں `الفقر فخري‘ کا رہا شان امارت ميں 
`بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روے زيبا را
گدائي ميں بھي وہ اللہ والے تھے غيور اتنے 
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا يارا 
غرض ميں کيا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشيں کيا تھے 
جہاں گير و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا 
اگر چاہوں تو نقشہ کھينچ کر الفاظ ميں رکھ دوں 
مگر تيرے تخيل سے فزوں تر ہے وہ نظارا 
تجھے آباء سے اپنے کوئي نسبت ہو نہيں سکتي 
کہ تو گفتار وہ کردار ، تو ثابت وہ سیّارا 
گنوا دي ہم نے جو اسلاف سے ميراث پائي تھي 
ثريا سے زميں پر آسماں نے ہم کو دے مارا 
حکومت کا تو کيا رونا کہ وہ اک عارضي شے تھي 
نہيں دُنيا کے آئين مسلم سے کوئي چارا 
مگر وہ علم کے موتي، کتابيں اپنے آباء کي 
جو ديکھيں ان کو يورپ ميں تو دل ہوتا ہے سيپارا 
غني! روز سياہ پير کنعاں را تماشا کن 
کہ نور ديدہ اش روشن کند چشم زليخا را
اے مسلم نوجوان، کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے اور اس حقیقت پر بھی غور کیا ہے کہ تو کس آسمان کا ٹوٹا ہوا تارا ہے؟ تجھے خبر بھی ہے کہ تو اس قوم کا فرد ہے جس کی عظمت کے نشان آج بھی تاریخ میں ملتے ہیں؟ تجھے اس قوم نے اپنی محبت بھری گود میں پالا اور پروان چڑھایا ہے جس نے اپنے وقت کی عظیم ایرانی سلطنت کو پاؤں تلے روند ڈالا تھا۔ وہ قوم (تیرے اسلاف) عرب کے صحراؤں سے اُٹھی تھی اور اگرچہ عرب کے صحراؤں میں اونٹ پالنے کے سواکچھ نہیں جانتی تھی مگر اسلام نے اُن اونٹ پالنے والوں کو ایسے عروج اور ایسی عظمت سے ہمکنار کیا کہ اُنہوں نے دُنیا کو ایک نئی تہذیب، ایک نئے تمدن اور ایک نئے نظام حکومت سے روشناس کرایا۔ وہ قوم امیری کی سربلندیوں پر پہنچ کر بھی فقر ہی کو اپنے فخر کا سامان سمجھتی رہی۔ رسول اکرم ؐ نے ایک دفعہ اپنے متعلق فرمایا تھا کہ ’’فقر میرے لئے باعث فخر ہے۔‘‘ ان بزرگوں نے آپؐ کے اسی قول اور اسی بات کو سامنے رکھا اور امیری میں بھی فقر کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ یہی اصول ان کی شان اور عظمت کا باعث تھا اس لئے کہ چہرہ حسین اور خوب صورت ہو تو وہ بناوٹی زیب و زینت اور سجاوٹ سے بے نیاز ہوتا ہے۔ بزرگ اپنی شان اور عظمت، دولت یا دُنیاوی شان و شوکت میں نہیں سمجھتے تھے کیونکہ یہ سب کچھ بناوٹی اور مصنوعی ہے۔ وہ اپنی شان رسول اکرمؐ کی پیروی میں جانتے تھے۔  جس قوم کی بات ہورہی ہے اس کا ایک ایک فرد غیرت مندی کی منہ بولتی تصویر تھا۔ اس قوم کے غریب اور تنگ دست لوگ بھی ایسے غیرت والے تھے کہ کسی کے سامنے ہرگز ہرگز ہاتھ نہیں پھیلاتے تھے۔ کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنا تو ایک طرف رہا، امیروں کے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی اُنہیں مالی تعاون دیتے ہوئے گھبراتے تھے کہ کہیں وہ اُنہیں ڈانٹ نہ دیں کہ تم نے ہمیں بھکاری سمجھا ہے؟ اُن کی خود داری اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائیں، دست سوال دراز کریں  یا کسی کا احسان اُٹھائیں، اس لئے کسی امیر آدمی کو ہمت نہ پڑتی تھی کہ اُن کی ناداری سے متاثر ہوکر اُنہیں کوئی چیز بطور خیرات، صدقہ یا عطیہ پیش کریں۔
 اقبال کہتے ہیں: غرض میں تجھے کیا بتاؤں کہ وہ صحرا کی گود میں پلنے والے کیسی کیسی خوبیوں کے مالک تھے۔ وہ پروان تو صحرا کی گود میں چڑھے تھے مگر اسلام کے اعجاز کی بدولت انہو ںنے نہ صرف دُنیا کے ایک بڑے حصے کو فتح کرلیا تھا بلکہ ایک جدید طرز کی سلطنت قائم کرکے دکھائی، دُنیا کا رنگ روپ سنوارا، حکومت اور حکمرانی کے اُصول و قوانین وضع کئے اور اِس طرح دُنیا کو ایک مثالی نظام حکومت دیا۔ اقبال یہ بھی کہتے ہیں کہ: میں اگر چاہوں تو الفاظ میں اُن کا عظمت کا نقشہ کھینچ سکتا ہوں لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ مقام اور وہ نظارہ تیرے (نوجوانوں کے) خیال اور تصور سے بہت بلند ہے۔ تو اگرچہ اُن کی اولاد ہونے کا دعویدار ہے لیکن تجھے اُن سے کوئی نسبت نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ سراپا عمل اور سراپا حرکت تھے جبکہ تو محض باتیں بنانا جانتا ہے۔ وہ کردار کے غازی تھے جبکہ تو محض گفتار کا غازی ہے۔ ہم نے وہ عظیم میراث گنوا دی ہے جو ہمیں اپنے بزرگوں سے ملی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آسمان نے ہمیں ثریا کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں میں پھینک دیا ہے۔بقول اقبال:   مجھے اس بات کا غم نہیں ہے کہ حکومت مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھن گئی۔ یہ تو قدرت کا نظام ہے۔ حکومت کبھی ایک ملک یا ایک قوم کے پاس نہیں رہتی۔ حکومت آنی جانی چیز ہے اور اقتدار ڈھلتی چھاؤں ہے۔ مجھے دکھ ہے تو اس بات کا کہ مسلمان قوم کا علمی اور تہذیبی ورثہ بھی اس کے پاس نہیں رہا۔  علامہ اقبال کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے مختلف علوم و فنون پر جو کتابیں لکھی تھیں، وہ یورپ کے مختلف کتب خانوں کی زینت بنی ہوئی ہیں اور یورپ والے اس سے مستقل اور برابر فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ ہم اپنے اس گرانقدر اور عظیم تہذیبی ورثے سے محروم ہی نہیں، بے خبر بھی ہیں اور اس سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاسکتے۔ ہم نے علم کے وہ موتی کھو دیئے جو ہمیں بزرگوں سے ورثے میں ملے تھے۔ ان علم کے موتیوں یعنی قدیم مسلمان علماء، سائنسدانوں اور فلاسفروں کی لکھی ہوئی بیش قیمت کتابوں کو جب ہم یورپ میں دیکھتے ہیں تو دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے۔ اس احساس سے دل پر ایک چوٹ لگتی ہے کہ مسلمان کے اپنے گھر میں تو اندھیرا ہے مگر اس کے علم کی رو شنی دوسروں کے گھر میں اُجالا کررہی ہے۔  اس صورتحال کو دیکھ کر مشہور شاعر غنی کاشمیری کا یہ شعر اقبال کی زبان پر آجاتا ہے (مفہوم) کہ ’’اے غنی، حضرت یعقوب علیہ السلام (یہاں معنی ہوں گے مسلم قوم) کی سیاہ بختی تو دیکھ وہ یوسف ؑ(علم، تہذیب، تمدن، کتابیں، علمی سرمایہ)  جو اُن (مسلمانوں کی) کی آنکھوں کا نور تھا، زلیخا (اہل مغرب) کی آنکھوں کیلئے روشنی کا سامان بنا ہوا ہے۔  علامہ اقبال نے اس نظم میں مسلم نوجوان سے خطاب کرتے ہوئے ہمیں اپنے پُرشکوہ ماضی کی یاد دلائی ہے اور موجودہ بے حسی و بے عملی سے جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ علامہ اقبال جب اعلیٰ تعلیم کیلئے یورپ گئے تو لندن کے برٹش میوزیم، انڈیا آفس لائبریری اور یورپ کے دیگر شہروں کی لائبریری میں مختلف علوم و فنون پر قدیم مسلمان علماء، حکماء اور فلسفیوں کی لکھی ہوئی بیش بہا کتابیں اُن کی نظر سے گزریں جو اہل یورپ مسلمان ملکوں سے لوٹ کھسوٹ کر لے گئے تھے۔ اپنے بزرگوں کے اس گراں قدر علمی ورثے کو اہل یورپ کے قبضے میں دیکھ کر علامہ اقبال کو جو دلی دکھ ہوا اس کا اظہار اس نظم میں ہوا کہ آج کا مسلم  نوجوان اپنے اسلاف کی خوبیوں سے بالکل بے خبر اور بیگانہ ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں مسلمان قوم زوال کی پستیوں میں پہنچ گئی ہے۔ کوئی مسلمان قوم کی یہ سیاہ بختی بھی دیکھے کہ مسلمان اپنے علمی اور تہذیبی ورثے سے بھی محروم ہیں، یورپی قومیں مسلمانوں کے اس علمی ورثے سے پورا پورا فائدہ اُٹھا رہی ہیں جبکہ خود مسلمان جہالت اور پسماندگی کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔
(ماخوذ از ’’حکایات اقبال  تحریر و ترتیب: محمد یونس حسرت):
شاعر مشرق، حکیم الامت علامہ اقبال
آمد: ۹؍ نومبر ۱۸۷۷ء
رخصت: ۲۱؍ اپریل ۱۹۳۸ء 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK