• Wed, 15 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

حماقت سہی، یہ حماقت کرنی چاہئے!

Updated: October 15, 2025, 2:01 PM IST | Inquilab News Network | mumbai

ٹیکنالوجی نے عوامی زندگی کو یکسر بدل دیا ہے، کسی کو کتاب کے مطالعہ کا مشورہ دینا حماقت ہے مگر یہ حماقت کرنی چاہئے بلکہ کوشش یہ ہو کہ یہ حماقت بار بار سرزد ہو، ہوتی ہی رہے خواہ آپ کا مشورہ قبول کرنے والا کوئی نہ ہو۔ اگر یہ صحرا میں اذان دینے جیسا عمل ہے تو ایسا ہی سہی۔

INN
آئی این این
ٹیکنالوجی نے عوامی زندگی کو یکسر بدل دیا ہے، کسی کو کتاب کے مطالعہ کا مشورہ دینا حماقت ہے مگر یہ حماقت کرنی چاہئے بلکہ کوشش یہ ہو کہ یہ حماقت بار بار سرزد ہو، ہوتی ہی رہے خواہ آپ کا مشورہ قبول کرنے والا کوئی نہ ہو۔ اگر یہ صحرا میں  اذان دینے جیسا عمل ہے تو ایسا ہی سہی۔ کتابوں  کے مطالعہ کی سفارش بھلائی کا کام ہے، نیکی ہے۔ جو لوگ نیک مشورہ دینے میں  تامل کرتے ہیں  وہ خواہی نخواہی بُرے مشوروں  کی حمایت کے درجے میں  آجاتے ہیں ۔ جب ہر طرف بُرے مشوروں  کی فضا سازگار ہو، اچھے مشوروں  کی فضا کون سازگار کریگا؟ ظاہر ہے وہی کرسکتا ہے جو نیکی کا طلبگار ہو اور معاشرہ میں  نیکیوں  کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتا ہو۔ اچھی کتابوں  کا مطالعہ ذہن کی گرہیں  کھولتا ہے، ذہن کو روشن کرتا ہے، مستند معلومات کا ذریعہ ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو تقویت دیتا ہے، غوروفکر کے دریچے وا کرتا ہے اور علم کی دولت فراواں  کرتا ہے۔ اس سے پیدا شدہ خود اعتمادی ٹھوس ہوتی ہے، دکھاوے کی نہیں  ہوتی۔ موجودہ دَور میں  ہر کس و ناکس سوشل میڈیا سے لوَ لگائے ہوئے ہے۔ لوَ لگانا بُری بات نہیں  مگر اس کا بندہ ٔ بے دام بن جانا بُری بات ہے۔ اب کسی کو اس بات پر غور کرنے کی توفیق نہیں  ہوتی کہ سوشل میڈیا کتاب کا نعم البدل نہ تو ہے نہ ہی ہو سکتا ہے۔ اس کی حیثیت بے شمار غیر مستند اور غیر صحتمند متون (ٹیکسٹ) کی گردش کے محور و مرکز کی ہے۔ مسئلہ اس کے غیر مستند ہونے ہی کا نہیں ، اس کی وجہ سے تخیل اور تصور کا دائرہ محدود ہوتا ہے اور جسمانی و ذہنی صحت خراب ہوتی ہے۔
اگر آپ انٹرنیٹ کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کریں  کہ دُنیا کے وہ کون سے ممالک ہیں  جہاں  کتاب خوانی کا رجحان عام ہے تو پہلا نام ہندوستان کا دیکھ کر آپ کو حیرت ہوگی کیونکہ امریکہ کی طرح یہاں  آپ کو ایسے لوگ نہیں  ملتے جو پارک، کیفے، ریلوے اسٹیشن یا بس اسٹاپ پر کتاب پڑھتے رہتے ہیں ۔ اس کے باوجود ہندوستان سر فہرست ہے تو اس کی وجہ شاید آبادی ہے مگر اعدادوشمار کے اس چھلاوے میں  نہیں  آیا جاسکتا کیونکہ اپنے آس پاس کی دُنیا میں  ہم کتب خانوں  اور لائبریریوں  کو بند ہوتا دیکھ چکے ہیں  اور یہ بھی دیکھ چکے ہیں  کہ گھروں  میں  ذاتی کتب خانوں  کی روایت تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ اب سے پندرہ بیس سال پہلے تک مذہبی کتابیں  پڑھنے کا جو رواج تھا وہ باقی نہیں  رہ گیا ہے۔ ماہنامے اور ڈائجسٹ پڑھنے والے بھی اب نہیں  ہیں ۔ جاسوسی ناولوں  کے شیدائی بھی کم رہ گئے ہیں ۔ نئی نسل کو کچھ بھی پڑھنے سے رغبت نہیں  ہے۔ اس نسل کے افراد آن لائن بُکس بھی نہیں  پڑھتے۔ اُن میں  آڈیو بُک سننے کا بھی رجحان نہیں  ہے۔ 
ان حالات میں  ہر وہ شخص جو کتاب پڑھتا ہے اور کتابوں  کے مطالعہ کے فوائد سے واقف ہے اُس کی ذمہ داری ہے کہ دوسروں  کو سمجھائے اور اُنہیں  مطالعہ ٔ کتب کی طرف راغب کرے، دعوت دے اور دعوت ہی نہ دے بلکہ کتابوں  کا تحفہ دے اور جب بھی موقع ملے پوچھتا رہے کہ جناب کیا آپ نے وہ کتاب پڑھ لی جو نذر کی گئی تھی۔ مقام ِ افسوس ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ بھی بیزار ِ مطالعہ ہے۔ کتابیں  چھپ رہی ہیں  مگر پڑھی نہیں  جارہی ہیں ۔ کتابوں  کی حفاظت بھی نہیں  کی جاتی ۔ اگر حالات نے پلٹا کھایا اور آئندہ نسلوں  کو مطالعہ کا شوق ہوا تو وہ ہمیں  الزام دیں  گی کہ ہم نے خود تو مطالعہ ترک کیا، ورثہ میں  اُن کیلئے بھی کتابیں  نہیں  چھوڑیں ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK