• Wed, 15 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کینیا کے سابق وزیر اعظم رائلا اوڈنگا کیرالا میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے

Updated: October 15, 2025, 6:01 PM IST | New Delhi

کینیا کے سابق وزیر اعظم رائلا اوڈنگا کیرالا میں انتقال کر گئے،کیرالا کے دیو ماتھااسپتال نے بدھ کو اوڈنگا کے انتقال کی تصدیق کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق انہیں دل کا دورہ پڑا اور انہیں ہوش میں لانے کی تمام کوششیں ناکام رہیں۔

Former Kenyan Prime Minister Raila Odinga. Photo: INN
کینیا کے سابق وزیر اعظم رائلا اوڈنگا۔ تصویر: آئی این این

کیرالا کے دیو ماتھا اسپتال کے حکام کے مطابق کینیا کے سابق وزیر اعظم رائلا اوڈنگا کا بدھ کے روز دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو گیا۔ وہ۸۰؍ سال کے تھے۔اسپتال کے ایک بیان کے مطابق اوڈنگا کو دل کا دورہ پڑا اور انہیں ہوش میں لانے کی تمام کوششیںناکام ہو گئیں۔نیوز ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، اوڈنگا آیورویدک سہولت کے احاطے میں صبح کی سیر کے دوران گر گئے تھے اور انہیں کیرالا کے کوتھٹوکلم میں ایک پرائیویٹ اسپتال میں داخل کرایا گیا تھاجہاں انہیں تقریباً صبح ۹؍ بج کر ۵۲؍ منٹ پر مردہ قرار دیا گیا۔وہ آیورویدک علاج کے لیے کیرالا کے ضلع ارناکلم کے کوتھٹو کلم پہنچے تھے۔پولیس کا کہنا ہے کہ ان کی لاش فی الحال اسپتال میں رکھی ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: ’’ہم جیل نہیں مذبح خانے میں قید تھے‘‘، رِہا ہونے والے فلسطینیوں کی روداد

دراصل اوڈنگا اور ان کے خاندان والے اکثر اس اسپتال کا دورہ کرتے رہے ہیں، جس نے پہلے ان کی بیٹی کی بینائی دوبارہ حاصل کرنے میں مدد کی تھی۔وزیر اعظم نریندر مودی نے اوڈنگا کے انتقال پر غم کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر پوسٹ کیا، ’’کینیا کے میرے عزیز دوست اور سابق وزیر اعظم مسٹر رائلا اوڈنگا کے انتقال سے بہت دکھ ہوا۔ وہ ایک عظیم ریاست دان اور ہندوستان کے عزیز دوست تھے۔‘‘انہوں نے کہا، ’’مجھے گجرات کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے سے ان کے قریب سے جاننے کا اعزاز حاصل ہوا اور ہمارا تعلق سالوں تک قائم رہا۔ انہیں ہندوستان، ہماری ثقافت، اقدار اور قدیم حکمت سے خصوصی لگاؤ تھا۔ یہ ہندوستان اور کینیا کے تعلقات کو مضبوط بنانے کی ان کی کوششوں میں عیاں تھا۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: نیو یارک شہر: میئر امیدوار ظہران ممدانی کی ’’غزہ 5K‘‘ میں شرکت پر تنازع

واضح رہے کہ رائلا اوڈنگا کینیا کے سابق وزیر اعظم تھے۔ وہ کینیائی سیاست کے ہمہ وقتی حزب اختلاف کے لیڈرتھے، جنہوں نے صدارت کے لیے پانچ بار ناکام انتخاب لڑا، جس میں آخری بار ۲۰۲۲ءبھی شامل ہے۔ان کا خواب کینیا کے صدر بننے کا تھا، اور انہوں نے تین دہائیوں میں پانچ بار انتخاب لڑا ،اورکئی مرتبہ اتنی حمایت حاصل کی کہ لوگوں کو یقین تھا کہ وہ جیت سکتے ہیں۔ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق، صدارت حاصل کرنے کے وہ ۲۰۰۷ءمیں سب سے قریب پہنچے، جب وہ متنازع الیکشن میں موجودہ صدر موائی کیباکی سے کم فرق سے ہار گئے، جس میں نسلی تشدد بھی ہوا تھا۔۷؍جنوری۱۹۴۵ء کو پیدا ہونے والے اوڈنگا نے اپنے ابتدائی سیاسی سال یا تو جیل میں یا پھر ، صدر ڈینیل کی آمرانہ حکومت کے دوران جمہوریت کے لیے لڑتے ہوئے جلاوطنی میں گزارے۔لوو قبیلے کے رکن، وہ۱۹۹۲ء میں پارلیمنٹ میں داخل ہوئے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ آخری چارصدارتی  انتخابات میں انہیں فتح سے محروم رکھا گیا۔سب سے بڑی بے امنی ۲۰۰۷ءکے انتخابات کے بعد آئی، جسے آزاد مبصرین نے دھاندلی زدہ قرار دیا، جس نے نسلی تشدد کو جنم دیا جس میں۱۱۰۰؍ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔بہت سے کینیائیوں کے لیے پیار سے ’’بابا‘‘ (باپ) کے نام سے جانے جاتے۔
اوڈنگا نے خود کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے طور پر پیش کیا حالانکہ وہ کینیا کے اعلیٰ سیاسی خاندانوں میں سے ایک سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد نے۱۹۶۳ء میں آزادی کے بعد پہلے نائب صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اوڈنگا نے حال ہی میں کینیائی صدر ولیم روٹو کے ساتھ ایک سیاسی معاہدہ پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت ان کی حزب اختلاف کی جماعت کو حکومتی پالیسی سازی میں شامل کیا گیا تھا اور اس کے اراکین کو کابینہ میں مقرر کیا گیا تھا۔بہت سے لوگوں کے لیے، اوڈنگا ایک محترم شخصیت اور ریاست دان تھے جن کی سرگرمی نے کینیا کو یک جماعتی حکمرانی سے ہٹاکر متحرک کثیر الجماعتی جمہوریت کی طرف رہنمائی کی۔ان کی موت سے حزب اختلاف میں قیادت کا خلا پیدا ہو گیا ہے، اور یہ بالکل واضح نہیں ہے ، اوڈنگا جیسی صلاحیت والا کون ان کا جانشین ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK