دہلی میں فضائی آلودگی کا مسئلہ کتنا پریشان کن ہے اس کا اندازہ اب اُن لوگوں کو بھی ہوچکا ہے جو دہلی یا آس پاس کے علاقوں میں نہیں ہیںبلکہ ان سے بہت دور ہیں۔ ہر سال یہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ جاتا ہے۔
دہلی میں فضائی آلودگی کا مسئلہ کتنا پریشان کن ہے اس کا اندازہ اب اُن لوگوں کو بھی ہوچکا ہے جو دہلی یا آس پاس کے علاقوں میں نہیں ہیں بلکہ ان سے بہت دور ہیں ۔ ہر سال یہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ جاتا ہے۔ ملک کے بہت سے شہر ان معنوں میں دہلی سے مختلف ہیں کہ فضائی آلودگی وہاں بھی ہے مگر اس حد تک ظاہر نہیں ہوتی کہ لوگ تشویش میں مبتلا ہوجائیں ورنہ غازی آباد، بلند شہر، بیسرکھ، نوئیڈا، کانپور اور لکھنؤ کی حالت تو دہلی سے بھی ابتر ہے۔ ورلڈ ایئر کوالیٹی رپورٹ ۲۰۲۱ء سے معلوم ہوتا ہے کہ دُنیا کے ۱۰۰؍ آلودہ ترین شہروں (موسٹ پولیوٹیڈ سٹیز) میں ۶۳؍ ہندوستان میں ہیں ۔ اس سے جان لیوا بیماریاں ہی نہیں پھلتیں ، اس کا معاشی نقصان بھی ہے۔
بوسٹن کالج کے ایک مطالعے میں بتایا گیا تھا کہ ۲۰۱۹ء میں وطن عزیز میں فضائی آلودگی کے سبب ۱۶؍ تا ۱۷؍ لاکھ اموات ہی نہیں ہوئیں ، ملک کو ۳۶ء۸؍ ارب ڈالر کا نقصان بھی ہوا۔ آپ کہیں گے فضائی آلودگی معاشی نقصان کا سبب کیسے بن سکتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پولیوشن سے بیماریاں پھیلتی ہیں ، علاج معالجہ کا خرچ بڑھ جاتا ہے اور بعض اوقات اسپتالوں کے بڑے بل کے باوجود جان نہیں بچتی۔ جو لوگ بظاہر بیمار نہیں اُن کی ’’پیداوایت‘‘ (کام کی صلاحیت) متاثر ہوتی ہے،نتیجتاً صنعتی اداروں کی پیداوار متاثر ہوتی ہے، فضائی آلودگی سے زرعی پیداوار پر اثر پڑتا ہے جس سے اشیاء کی فراہمی متاثر ہوتی ہے اور اشیائے ضروریہ کے دام بڑھتے ہیں ۔ سیاحت کا شعبہ بھی کافی دباؤ کا سامنا کرتا ہے۔
اس تشویشناک مسئلہ کے خلاف جتنی بیداری آنی چاہئے تھی، نہیں آئی۔ ہم ہندوستانیوں کا مسئلہ ہے کہ ہم ایسے بہت سے مسائل کا کوئی خاص شعور نہیں رکھتے جبکہ ان سے جانیں جاتی ہیں اور ایسا نہیں کہ کوئی دور آیا جس میں بہت سی جانیں چلی گئیں مگر اس کے بعد سلسلہ تھم گیا۔ یہ ایسے مسائل ہیں بالخصوص فضائی آلودگی اور سڑک حادثات کہ تقریباً روزانہ جانیں جا تی ہیں مگر نہ تو حکومتیں (مرکزی و ریاستی) ان ہلاکتوں کا نوٹس لیتی ہیں نہ ہی شہری۔ کسی کی موت ہوجائے اور آپ دریافت کریں کیا ہوا تھا تو جواب ملے گا دمہ ہوگیا تھا۔ اس کے بعد افسوس کی ایسی کیفیت طاری ہوجاتی ہے جو کہنے والے اور سننے والے دونوں کو خاموش کردیتی ہے، دونوں کے دل میں یہ سوال نہیں آتا کہ ’’دمہ کیوں ہوا تھا؟‘‘
یہی حال سڑک حادثات کا ہے۔ کسی کی جان گئی اور ہر وہ شخص جو موت کی وجہ جانتا ہے، حادثہ کی روداد سنانے لگتا ہے۔ وہ سڑک کی تنگی یا ناہمواری، ٹریفک کا بہاؤ، ڈسپلن شکنی یا اسپیڈ لمٹ کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف فی الفور کارروائی نہ ہونے کا ذکر نہیں کرتا۔ جب جانیں جاتی رہیں اورملک کے شہری حقیقی وجوہ سے بحث نہ کریں تو قصور کس کا ہے؟ کیا وہ یہ کہہ کر خود کو بری الذمہ کرسکتے ہیں کہ روزی روٹی دیکھیں یا مسائل کی حقیقی وجوہات سمجھیں ۔ بات درست ہے بلکہ جو بات وہ نہیں کہتے یہ ہے کہ کیا کیا سوچیں ۔ غربت، تعلیم کے مسائل، بڑھتی فرقہ پرستی، جرائم کی سنگین صورت حال، سیاسی شعبدہ بازیاں اور سیاست کی پیدا کردہ نئی نئی مصیبتیں (جیسے سی اے اے اور اب ایس آئی آر یا اس سے پہلے نوٹ بندی) پر بھی تو سوچنا اور ان سے جوجھنا ہے۔ پھر بھی ہم کہیں گے بیداری ضروری ہے۔