• Wed, 29 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ریل (Reel) ہی بنتی رہی تو

Updated: October 28, 2025, 2:31 PM IST | Inquilab News Network | mumbai

اس میں شک نہیں کہ ہندوستان میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ویڈیو بنانے اور اُسے یو ٹیوب، انسٹا اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر اَپ لوڈ کرکے پیسے کمانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

INN
آئی این این
اس میں  شک نہیں  کہ ہندوستان میں  اپنی تخلیقی صلاحیتوں  کو بروئے کار لا کر ویڈیو بنانے اور اُسے یو ٹیوب، انسٹا اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر اَپ لوڈ کرکے پیسے کمانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ سوشل میڈیا کیلئے مواد تیار کرنے والوں  (کنٹینٹ کریئٹرس) کی تعداد ۳۵؍ لاکھ سے ۴۵؍ لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ یکم تا ۴؍ مئی کے درمیان ممبئی میں  منعقدہ ویوز ۲۰۲۵ء کانفرنس میں  یو ٹیوب کے سی ای او نیل موہن نے انکشاف کیا تھا کہ اشتہارات کے ذریعہ جو آمدنی ہوئی اُس میں  سے سوشل میڈیا کیلئے مواد تیار کرنے والوں  کو، اُن کے حصہ  کے طور پر اب تک صرف یوٹیوب سے ۲۱؍ ہزار کروڑ روپے دیئے گئے ہیں  ہے۔ بظاہر یہ بہت بڑی رقم ہے مگر اس میں  ہر ایک کا یکساں  حصہ نہیں  ہے۔ مواد تیار کرنے والوں  میں  دو طرح کے لوگ ہیں ۔ ایک وہ جو پروفیشنل ہیں  اور جنہیں  پسند کرنے والوں  کی تعداد لاکھوں  میں  ہے۔ انہیں  خاصی رقم مل جاتی ہے مگر بیشتر وہ ہیں  جن کے حصے میں  حقیر سی رقم آتی ہے جس کے پیش نظر اکثر مواد تیار کرنے والے افراد اپنے مشغلہ کو پیشے میں  تبدیل نہیں  کرسکتے، اسے کل وقتی سرگرمی بنانا ممکن نہیں  ہے۔
ممتاز مارکیٹنگ کمپنی کوفلوئنس کی سالانہ تحقیقی رپورٹ برائے ۲۵۔۲۰۲۴ء میں  بتایا گیا کہ مواد تیار کرنے والوں  کی آمدنی کا تجزیہ ثابت کرتا ہے کہ صرف ۱۲؍ فیصد لوگ ایسے ہیں  جنہیں  تیار شدہ مواد سے ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ (۷۵؍ فیصد اور اس سے زیادہ) ملتا ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ بقیہ تمام کو ہزار پانچ سو روپے یا ایسی ہی معمولی رقم پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ آمدنی کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ تیار کئے گئے ویڈیو کو کتنے لوگ دیکھتے ہیں ۔ ناظرین کی تعداد زیادہ تو آمدنی بھی زیادہ۔ 
اس پس منظر میں  یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سوشل میڈیا پر ڈالنے کے مقصد سے ویڈیو سازی ملازمت یا کاروبار کا نعم البدل نہیں  ہے۔ اس کے باوجود اگر سمستی پور (بہار) میں  وزیر اعظم یہ کہتے ہیں  کہ بہار کے نوجوان ریل بناکر پیسے کما رہے ہیں  تو یہ زمینی سچائی نہیں  ہے۔ریل میں  دلچسپی لینے اور اسے زیادہ سے زیادہ ہٹ یا وائرل کرنے کے جوش میں  کتنے ہی نوجوان اپنی جان جوکھم میں  ڈالتے ہیں  یہ کسی سے چھپا ہوا نہیں  ہے۔ آئے دن ایسے واقعات کی تفصیل اخبارات میں  شائع ہوتی ہے۔جو لوگ محفوظ رہ کر ویڈیو بناتے ہیں  یا جن کے ویڈیو کی نوعیت ایسی ہے کہ اس میں  خطرہ نہیں  ہے، اُن لوگوں  کے ساتھ بھی پسند نہ کئے جانے اور ناظرین کی تعداد (ویورشپ) نہ بڑھنے کا خطرہ برقرار رہتا ہے لہٰذا یہ مٹھی بھر لوگوں  کیلئے ہی فل ٹائم جاب ہوسکتا ہے سب کیلئے نہیں ۔ وزیر اعظم نے مذکورہ بیان کے بین السطور یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ نئے دور میں  روزگار کے نئے مواقع پیدا ہورہے ہیں  جس سے بہار کے نوجوان بھی فائدہ اُٹھا رہے ہیں ۔ یہ درست نہیں  ہے۔ نوجوانوں  کو روزگار درکار ہے۔ اُنہیں  یہ کہہ کر ٹالا نہیں  جاسکتا کہ آپ کے پاس ریل سازی کا بہترین موقع ہے۔ اگر ہے تب بھی حکومت کی جانب سے اس کی حوصلہ افزائی نہیں  کی جانی چاہئے کیونکہ کسی بھی ملک میں  کوئی ایک صنعت نہیں  ہوتی بلکہ ہر ملک کئی صنعتوں  کا مجموعہ ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے ہمارا ملک چھوٹی بڑی اور متوسط درجے کی بے شمار صنعتوں  کیلئے جانا جاتا ہے۔ ریل سازی ہی ہوتی رہی تو دیگر صنعتوں  کا کیا ہوگا؟ کیا محض اس صنعت کی حوصلہ افزائی سےدیگر صنعتوں  کی سست روی یا اَبتری کا ازالہ ممکن ہے؟ کیا ریل سازی سے سب کو روزگار مل جائیگا؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK