• Fri, 12 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بچپن بچانے کی تدابیر

Updated: December 12, 2025, 1:54 PM IST | Inquilab News Network | mumbai

آسٹریلیا نے نوعمروں (۱۶؍ سال سے کم) کو سوشل میڈیا استعمال کرنے سے روکنے کیلئے جو قدم اُٹھائے ہیں اُن میں پابندی لگانا ہی شامل نہیں ہے بلکہ بھاری ہرجانہ لگا کر متعلقہ کمپنیوں کو جوابدہ بنانا بھی شامل ہے تاکہ پابندی محض قانون کی کتاب تک محدود نہ رہے بلکہ اسے عملی طور پر اس طرح برتا جائے کہ مسئلہ حل ہو۔

INN
آئی این این

 آسٹریلیا نے نوعمروں   (۱۶؍ سال سے کم) کو سوشل میڈیا استعمال کرنے سے روکنے کیلئے جو قدم اُٹھائے ہیں   اُن میں   پابندی لگانا ہی شامل نہیں   ہے بلکہ بھاری ہرجانہ لگا کر متعلقہ کمپنیوں   کو جوابدہ بنانا بھی شامل ہے تاکہ پابندی محض قانون کی کتاب تک محدود نہ رہے بلکہ اسے عملی طور پر اس طرح برتا جائے کہ مسئلہ حل ہو۔ اس اقدام سے دیگر ممالک بھی بچوں   کا بچپن بچانے کی تدابیر پر غورو خوض کررہے ہیں  ۔ ستمبر میں   مشرقی فرانس میں   ۱۴؍ سال کے ایک طالب علم نے میوزک ٹیچر کو چاقو گھونپ کر پورے ملک کو دہشت زدہ کردیا تھا۔ اس سے قبل اسی نوعیت کے چند دیگر واقعات بھی رونما ہوئے جس کے بعد فرانس  سوشل میڈیا پر پابندی کے اُس منصوبے کا شد و مد کے ساتھ حامی ہے جو یونان (گریس) نے بنایا ہے اور جس پر اسپین بھی سنجیدگی سے غور کررہا ہے تاکہ یورپی یونین کے تمام ممالک مشترکہ منصوبے کو رو بہ عمل لائیں  ۔ جن دیگر ملکوں   نے نوعمروں   کو سوشل میڈیا کے استعمال سے روکنے کیلئے کسی نہ کسی شکل میں   قانون بنایا اور کسی نہ کسی سطح پر پابندی عائد کی اُن میں   برطانیہ، چین، ڈنمارک، جرمنی، اٹلی، ملائیشیا، ناروے وغیرہ شامل ہیں  ۔ بلاشبہ، ارباب اقتدار میں   یہ بیداری والدین کے دباؤ سے پیدا ہوئی جو بچوں   کی ذہنی صحت سے تشویش میں   ہیں   اور چاہتے ہیں   کہ ’’رہے بانس نہ بجے بانسری‘‘ کے مصداق سوشل میڈیا تک رسائی کو مسدود کردیا جائے۔ گزشتہ روز ہم اس کالم میں   آسٹریلیا کی پیش قدمی کی ستائش کرچکے ہیں   جو نوعمروں   کو سوشل میڈیا سے دور رکھنے کیلئے سخت پابندی لگانے والا پہلا ملک بن گیا ہے مگر اس عمل کے ردعمل سے بھی  ہم فکرمند ہیں   کیونکہ جب اِن نوعمروں   کو روک دیا جائیگا تو ممکن ہے کہ وہ تنہائی کا شکار ہو جائیں  ، اُن پر مایوسی غالب آجائے اور اُن میں   نفسیاتی بگاڑ پیدا ہوجائے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس پابندی کے سبب وہ شدید بے دلی اور بے کیفی سے دوچار ہوں  ،  خود کو یکہ و تنہا محسوس کریں   اور اُن میں   اشتعال پیدا ہو۔ اِسی لئے، سوشل میڈیا پر پابندی قابل ستائش تو ہے مگر کافی نہیں   ہے۔ سرکاری اداروں   اور والدین کو سوچنا ہوگا کہ وہ اِن نوعمروں   کو متبادل کے طور پر کیا دے رہے ہیں  ۔ کیا وہ کھیل کود میں   اُن کی رغبت پیدا کرنے کیلئے کچھ کررہے ہیں  ؟ کیا والدین کے پاس اپنے نوعمروں   کو مصروف رکھنے کا کوئی منصوبہ ہے؟ اگر ہے تو وہ کتنا دلچسپ، پُرکشش اور بہتر متبادل کہلانے کے قابل ہے؟ کیا سوشل میڈیا سے دور کردیئے جانے والے نوعمروں   کی ذہنی صحت کو سمجھنے کا کوئی نظم ہے؟ کیا متعلقہ ملکوں   میں   اتنے کاؤنسلنگ سینٹر ہیں   یا ہیلپ لائن نمبر جاری کئے گئے ہیں   تاکہ ان نوعمروں   کو وہاں   رجوع کروایا جائے؟ چونکہ یہ ترقی یافتہ ممالک ہیں   اس لئے اُمید کی جاتی ہے کہ ان سوالوں   کا جواب اثبات میں   ہوگا مگر صورتحال سے نمٹنا اتنا آسان نہیں   جتنا سمجھا جاسکتا ہے۔ کسی بھی نوعمر کی ذہنی حالت کو سب سے زیادہ کوئی سمجھ سکتا ہے تو وہ والدین بالخصوص ماں   اور اساتذہ ہیں  ۔ کیا وہ اُس کے برتاؤ میں   تبدیلی  محسوس کرکے حرکت میں   آتے ہیں  ؟ ہم اپنے ملک کے بارے میں   بھی یہی کہیں   گے کہ اگر نوعمروں   کو سوشل میڈیا سے دور رکھنا ہے تو والدین کا رول کلیدی ہے جنہیں   اساتذہ کے رابطے میں   رہنا چاہئے تاکہ بچے کی ذہنی صحت پر تبادلۂ خیال ہو اور ایکدوسرے کے مشاہدات سےبہتری کی راہ نکالی جائے۔ پابندی لگانا بہت اچھا ہے مگر اس پر انحصار کرنا ٹھیک نہیں  ۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK