رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی کے کمالات کو دو شعبوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: عبدیت ِ کاملہ و نبوت ِ جامعہ۔
دعا اور دعوت
عبدیت کا ظہور اور نتیجہ دعا ہے اور نبوت کا مظہر دعوت ہے۔ یہ دونوں سیرت ِ محمدیؐ کے اہم اور نمایاں عنوان اور اس صحیفہ ٔ اعجاز کے دو مستقل باب ہیں۔ دعوت پر سیرت محمدی کے ہر طالب علم اور ہر مصنف کی نظر پڑتی ہے۔ اس کی تفصیلات سے کتابیں لبریز ہیں اور اس کے آثار و نتائج تمام دنیا میں درخشاں و تاباں ہیں۔ دعوت جلوت کی چیز ہے اس لئے سب کو بے پردہ و بے نقاب نظر آئی ۔ لیکن (میری کوتاہ نظر میں) اس حقیقت پر بہت کم لوگوں کی نظر پڑی کہ دعا کو سیرت ِ نبویؐ میں کیا مقام حاصل ہے اور خود دعوت ِ نبویؐ کی تاثیر و تسخیر میں اس کا کتنا بڑا حصہ ہے اور خاتم الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عبدیت کے اس شعبے کو عروج و ترقی کی کس حد تک پہنچایا ، کس طرح آپؐ نے اس شعبہ کا (جو عبدیت و عبادت کے تمام شعبوں اور مظاہر کی طرح مردہ افسردہ ہوچکاتھا) احیاء کیا اور اس کی تجدید فرمائی، پھر اس کی تکمیل او تعمیم فرما کر دنیا سے تشریف لے گئے۔
دورِ جاہلیت میں عبد و معبود کے رشتہ کا اضمحلال
جن لوگوں کی مذاہب و عقائد پر گہری اور تفصیلی نظر ہے ، وہ جانتے ہیں کہ اس دور میں جو جاہلیت سے موسوم ہے، عبد و معبود کے تعلق سے اضمحلال پیدا ہوگیا تھا کہ دعا کا سرچشمہ (جو یقین اور محبت و خوف کے بغیر جاری نہیں ہوسکتا) اندر ہی اندر خشک ہوگیا تھا۔ عبد اپنے اور معبود کے متعلق اتنی غلط فہمیوں اور اتنی جہالتوں کا شکار تھا کہ اس کے اندر دعا کا جذبہ اور تقاضہ پیدا ہونا ہی مشکل تھا۔ دعا کے لئے اس ہستی کے یقین کی ضرورت ہے جس سے دعا کی جائے۔ پھر اس یقین کی کہ اس کو ہر طرح کی قدرت ہے، اور دینے کے لئے اس کے پاس سب کچھ ہے، پھر اس یقین کی کہ اس کے دَر کے سوا اور دَر نہیں، پھر اس یقین کی کہ وہ خود بھی دینا چاہتا ہے اور محبت و رحمت، بخشش و عطا اور احسان و انعام اس کی خاص صفت ہے۔ اور کوئی لے کر اتنا خوش نہیں ہوتا جتنا وہ دے کر خوش ہوتا ہے، پھر اس یقین کی کہ مخلوق محتاج سرتاپا کشکول گدائی ہے۔ پھر اس یقین کی کہ وہ معبود اپنی ہر مخلوق سے دنیا کی ہر چیز سے یہاں تک کہ اس کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ وہ ہر ایک کی سنتا ہے اور ہر ایک کی ہر حال میں مدد کرسکتا ہے۔
صفات کی نفی کا اثر نفس انسانی پر
جاہلیت کی تاریخ پر نظر ڈالئے ۔ ان میں سے ہر یقین کتنا نایاب اور مضمحل ہوچکا تھا اور ان حقائق میں سے ہر حقیقت کے بارے میں کتنے شبہات و حجابات اور کتنے توہمات اور مغالطے پیدا ہوچکے تھے۔ یونانی فلسفہ کو ’’واجب الوجود‘‘ یا ’’مبداء اول‘‘ کی صفات سے جتنا گریز و انکار اور صفات کی نفی اور مجرد و بلاصفت ذات کے اثبات پر جتنا اصرار تھا اس کے بعد اس کے حلقہ ٔ اثر میں دعا و التجا کا کیا امکان باقی رہ جاتا تھا! جس ذات کے متعلق کسی صفت کا علم نہیں، بلکہ اس سے ہر صفت ِ کمال کی نفی کی جاری ہے اس سے سوال کرنے، مدد چاہنے کے کیا معنی ہوسکتے ہیں؟ جس کو کارخانۂ قدرت میں کوئی دخل نہیں، جو ’’عقل اول‘‘ کو پیدا کرکے ’’معطل‘‘ ہوگیا، جس ’’واحد ‘‘ سے ایک ہی ’’واحد‘‘ کا صدور ہوسکتا ہے (یہ قدیم یونانی فلسفہ کے عقائد و مسلمات ہیں) اور وہ ہوچکا اس سے ہر دم اور ہر آن نئے افعال و احکام کے صدور کی توقع کب حق بجانب ہوسکتی ہے۔
مشرکانہ عقائد دعا کرنے سے مانع
اس کے مقابلہ میں مشرکانہ جاہلیت اور ’’وثنیت‘‘ (بت پرستی، شرک) نے صفات ِ الٰہیہ میں سے تقریباً ہر صفت کو کسی نہ کسی مخلوق کی طرف منسوب کررکھا تھا۔ کوئی احیاء پر قادر تھا، کسی کے ہاتھ میں رزق تھا، کسی کا علم محیط اور ہمہ گیر تھا اور ہر ’’غیب‘‘ اس کے لئے ’’شہود‘‘ تھا ، کسی کے لئے زمان و مکان کے حجابات اٹھ چکے تھے اور وہ اپنے پرستاروں کی ہر جگہ اور بیک وقت سب کی مدد کرسکتا تھا اور ہر جگہ پہنچ سکتا تھا ۔ ایسی حالت میں ’الہ واحد‘ کی طرف رجوع کرنے اور اس کے سامنے دست سوال دراز کرنے کا کیا امکان تھا، خصوصاً جبکہ وہ نظر سے اوجھل ہو اور مقامی الہ نظر کے سامنے اور دسترس کے اندر ہوں۔ اسی کے ساتھ اس کو بھی ذہن میں رکھئے کہ جاہلیت کے اس دور میں صفات و افعالِ الٰہیہ کا ذکر و تذکرہ بھی مفقود اور ان کا علم صحیح تقریباً معدوم ہوچکا تھا اور ’’الہہ کثیرہ‘‘ کی کارفرمائیوں اور کارسازیوں کی داستانوں سے مجلسیں معمور اور قلب و دماغ مسحور تھے۔ ایسی حالت میں وہ ذہنی کیفیت بالکل قدرتی اور طبعی تھی جس کا قرآن مجید نے ان الفاظ میں نقشہ کھینچا ہے: ’’ اور جبکہ ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ان کے دل نفرت کرتے ہیں اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو فوراً خوش ہوجاتے ہیں۔‘‘ (الزمر:۴۵)
یونانی فلسفہ اور مشرکانہ جاہلیت کا اثر
بہرحال یونانی فلسفہ نے (اس مسلک کی بنا پر جو اس نے صفات کے بارے میں اختیار کیا تھا) دعا و التجا کا دروازہ ہی بند کردیا تھا اور مشرکانہ جاہلیت نے (صفات ِ الٰہیہ کو مخلوقات کی طرف منسوب کرکے) دعا و التجا کا رخ خدا سے موڑ کر بندوں کی طرف تبدیل کردیا تھا۔ دونوں کا مجموعی نتیجہ یہ تھا کہ براہِ راست خدا سے طلب و سوال اور دعا و التجا کا رواج ہی تقریباً ختم ہوگیا تھا۔ یاد رہے کہ زمانۂ بعثت میں پورے پورے ملک اور وسیع علاقوں میں ایسے چند آدمیوں کا بھی ملنا مشکل تھا جن کو خدا سے دعا کرنے کی عادت اور اس کا سلیقہ ہو اور جو اس سے تسکین حاصل کرتے ہوں اور اسی کی دعوت دیتے ہوں۔
رسولؐ اللہ کا انسانیت پر احسان
محمد رسول اللہ ﷺ نے محروم و محجوب انسانیت کو دوبارہ د عا کی دولت عطا فرمائی اور بندوں کو خدا سے ہمکلام کردیا ، اور دعا کی کیا دولت عطا فرمائی، بندگی کی بلکہ زندگی کی لذت اور عزت عطا فرمائی۔ اس مطرود انسانیت کو پھر سے اذنِ باریابی ملا اور آدم کا بھاگا ہوا فرزند پھر اپنے خالق و مالک کے آستانے کی طرف یہ کہتا ہوا واپس ہوا :
بندہ آمد بدرت بگریختہ/آبروئے خود بہ عصیاں ریختہ
(مفہوم: بندہ جو بھاگا ہوا تھا، تیرے در پر واپس آیا، اس کی ساکھ اُس کے منحرف ہونے کی وجہ سے پامال ہوچکی تھی)
دُعا سے محرومی کا ایک سبب
دعا سے محرومی کا ایک بڑا سبب جاہلیت کا یہ غلط تخیل تھا کہ خدا ہم سے بہت دور ہے، ہماری آواز وہاں کہاں پہنچ سکتی ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے یہ اعلان فرمایا اور یہ مژدہ سنایا کہ :
’’اور جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو انہیں بتا دیجئے کہ میں نزدیک ہوں اور دعا کرنے والوں کی دعا قبول کرتا ہوں۔‘‘ ( سورہ البقرہ:۱۸۶)
حقیقی نافع و ضار
دوسرا غلط عقیدہ یہ تھا کہ خدا کے سوا کوئی اور بھی نافع و ضار (ضرر کا مالک) اور انسانوں کی امداد و اعانت پر قادر ہے۔ اس عقیدہ نے دعا و استعانت کو ’’حقیقی نافع و ضار‘‘ سے ہٹا کر خیالی معاونوں اور دادرسوں کی طرف متوجہ کردیا تھا اور عالم کا عالم شرک و بت پرستی کا شکار تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے پوری قوت اور وضاحت کے ساتھ اس فرمان کا اعلان کیا، جس میں آپ ہی کو خطاب تھا:
فرما دیجئے: اے لوگو! اگر تم میرے دین میں ذرا بھی شک میں ہو تو (سن لو) کہ میں ان (بتوں) کی پرستش نہیں کرسکتا جن کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو لیکن میں تو اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہیں موت سے ہمکنار کرتا ہے، اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اہلِ ایمان میں سے رہوں، اور یہ کہ ہر باطل سے بچ کر (یک سُو ہو کر) اپنا رخ دین پر قائم رکھوں اور ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہ ہوں، اور اللہ کے سوا کسی چیز کو نہ پکاروں جو نہ تمہیں نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان ، پھر اگر تم نے ایسا کیا تو بیشک تم اس وقت ظالموں میں سے ہو جاؤ گے، اور اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے تو کوئی اس کے فضل کو ردّ کرنے والا نہیں۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنا فضل پہنچاتا ہے، اور وہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘
(سورہ یونس: ۱۰۴؍ تا ۱۰۷)
دعا کی رفعت ِشان
پھر آپؐ نے صرف اسی کو واضح نہیں کیا کہ بندہ اپنے مالک سے دعا کرسکتا ہے اور وہ اس کی سنتا ہے اور اس کی مدد کرسکتا ہے بلکہ آپؐ نے ثابت کیا کہ خدا کو دعا مطلوب ہے اور وہ اس سے خوش اور راضی ہوتا ہے، بلکہ دُعا نہ کرنے سے ناراض ہوتا ہے۔ دعا بندگی کا نہایت واضح اور مؤثر مظاہرہ ہے اور عدم دعا بندگی سے گریز و استکبار و سرکشی کی علامت ہے۔ آپؐ کے اس اعلان نے دعا کا پایہ کہیں سے کہیں پہنچا دیا اور اس کو بندگی کے فعل اضطراری کے درجہ سے اعلیٰ عبادت اور قرب کے مقام تک پہنچا دیا۔
’’اور تمہارے رب نے فرمایا ہے: تم لوگ مجھ سے دعا کیا کرو میں ضرور قبول کروں گا، بے شک جو لوگ میری بندگی سے سرکشی کرتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔‘‘ (سورہ غافر:۶۰)
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا نہ کرنا محض محرومی کا باعث نہیں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا بھی باعث ہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں : ’’جو اللہ سے سوال نہیں کرتا اللہ اس سے ناراض ہوتا ہے۔‘‘
پھر آپؐ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دعا کو مغز عبادت قرار دیا۔ اس طرح دعا کو رحمت و برکت کے دروازے کی کلید قرار دیا گیا اور فرمایا گیا :
’’جس کے لئے دعا کا دروازہ کھل گیا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھل گئے۔‘‘
اس طرح دعا کا شعبہ جس کی زندگی میں کوئی جگہ نہیں رہ گئی تھی، عبادات اور معابد بھی اس کے نور سے خالی ہوچکے تھے اور جاہلیت کے سالک و مرتاض عباد و زہاد بھی اس دولت سے محروم تھے، دوبارہ زندہ اور تازہ ہوا، اور یہ دولت اتنی عام ہوئی کہ : رہے اس سے محروم آبی نہ خاکی
ادعیہ ماثورہ مستقل دلائل نبوت: نبوت ِ محمدیؐ کی تجدید اور اس کا عملِ تکمیل اسی پر ختم نہیں ہوتا۔ آپؐ نے ہمیں دعا کرنا بھی سکھایا، آپؐ نے انسانیت کے خزانے کو اور دنیا کے ادب کو دعاؤں کے ان جواہرات سے مالامال کیا جن کی نظیر اپنی آبداری و درخشانی میں صحف سماوی کے بعد مل نہیں سکتی۔ آپؐ نے اپنے مالک سے ان الفاظ میں دعا کی جن سے زیادہ مؤثر اور بلیغ الفاظ، جن سے زیادہ موزوں و مناسب الفاظ انسان نہیں لاسکتا۔ یہ دعائیں مستقل معجزات اور دلائل نبوت ہیں۔ ان کے الفاظ شہادت دیتے ہیں کہ وہ ایک پیغمبر ہی کی زبان سے نکلے ہیں۔ ان میں نبوت کا نور ہے، پیغامبر کا یقین ہے، ’’عبدکامل‘‘ کا نیاز ہے، محبوب ِ رب العالمین کا اعتماد و ناز ہے، فطرت ِ نبوت کی معصومیت و سادگی ہے، دلِ دردمند و قلب ِ مضطر کی بے تکلفی و بے ساختگی ہے، صاحب ِ غرض و حاجتمند کا اصرار و اضطرار بھی ہے اور بارگاہِ الوہیت کے ادب شناس کی احتیاط بھی۔ دل کی جراحت اور درد کی کسک بھی ہے اور چارہ ساز کی چارہ سازی اور دلنوازی کا یقین و سرور بھی، درد کا اظہار بھی ہے اور حقیقت کا اعلان بھی کہ :دردہا وادی و در مانی ہنوز۔
دعاؤں کی ادبی قدر و قیمت: یہ دعائیں اپنی روحانی و معنوی قدر و قیمت کے علاوہ اعلیٰ ادبی قدر و قیمت کی حامل ہیں اور دنیا کے ادبی ذخیرے کے وہ نوادر اور شہ پارے ہیں جن کی نظیر انسانی لٹریچر میں نہیں مل سکتی۔ بہت سے ناقدین ِ ادب نے نجی خطوط کو اس وجہ سے ادب میں اعلیٰ مقام دیا ہے کہ وہ بے ساختہ اور تکلفات سے دور ہوتے ہیں اور ان میں دلی جذبات کی بے تکلف ترجمانی ہوتی ہے۔ لیکن ان کو معلوم نہیں کہ :
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ادب کی ایک صنف اور بھی ہے جس میں خطوط سے زیادہ بے تکلفی اور بے ساختگی پائی جاتی ہے، جس میں سارے حجابات اور اصطلاحات اٹھ جاتے ہیں، جس میں صاحب کلام اپنا دل کھول کر رکھ دیتا ہے اور اس کی زبان اس کے دل کی حقیقی ترجمان بن جاتی ہے۔ جب متکلم داد و تحسین سے بے پروا ہوتا ہے، سامعین کی خاطر بات نہیں کرتا بلکہ اپنے دل کے تقاضے سے گویا ہوتا ہے، ادب عالی کی یہ صنف ’’دعا و مناجات ‘‘ ہے۔
سیپارۂ دل: ادب کا ایک اہم عنصر (جس کو اکثر ناقدین ِ فن نے نظرانداز کیا ہے اور جو اَدب میں حقیقی روح اور طاقت پیدا کرتا ہے اور اس کو بقائے دوام بخشتا ہے) صداقت اور خلوص ہے۔ اس عنصر کی جیسی نمود ’’دعا و مناجات‘‘ میں پائی جاتی ہے ادب کی کسی اور صنف میں نہیں پائی جاسکتی۔ پھر جب صاحب ِ دعا صاحبِ درد بھی ہو اور اس کو اپنے درد دل کے اظہار پر اعلیٰ درجہ کی قدرت بھی ہو تو پھر اس کی زبان سے نکلتے ہوئے لفظ ادب کا معجزہ بن جاتے ہیں اور وہ الفاظ نہیں ہوتے بلکہ دل کے ٹکڑے اور آنکھ کے آنسو ہوتے ہیں اور وہ صدیوں تک ہزاروں انسانوں کو تڑپاتے رہتے ہیں۔ پھر جب ان مطالب کو ادا کرنے والی زبان وہ ہو جو وحی کی گزرگاہ اور فصاحت و بلاغت کی بادشاہ ہو، تو پھر ان کی تاثیر و اعجاز کا کوئی ٹھکانا نہیں۔
طائف کی دعا: حدیث و سیرت کے دفتر میں آپؐ کی جو دعائیں منقول ہیں ان پر نظر ڈالئے، کیا کوئی بڑے سے بڑا ادیب اپنی بے بسی و کمزوری کا نقشہ کھینچنے کے لئے، اپنا فقر و احتیاج بیان کرنے لئے اور دریائے رحمت کو جوش میں لانے کے لئے اس سے زیادہ مؤثر ، اس سے زیادہ دلآویز اور اس سے زیادہ جامع الفاظ لا سکتا ہے؟ ایک بار سفر ِ طائف کا نقشہ سامنے لائیے اور مسافرِ طائف کے شکستہ دل اور خون آلود پاؤں پر نظر ڈالئے، پھر غربت و مظلومیت کی اس فضا میں ان الفاظ کو پڑھئے: (ترجمہ)
’’الٰہی اپنی کمزوری، بے سروسامانی اور لوگوں میں تحقیر کی بابت تیرے سامنے فریاد کرتا ہوں۔ تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، درماندہ اور عاجزوں کا مالک تو ہی ہے اور میرا مالک بھی تو ہی ہے، مجھے کس کے سپرد کئے جاتا ہے؟ کیا بیگانہ ترش رو کے، یا اس دشمن کے جو کام پر قابو رکھتا ہے، اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں تو مجھے اس کی پروا نہیں۔ لیکن تیری عافیت میرے لئے زیادہ وسیع ہے۔ میں پناہ چاہتا ہوں تیری ذات کے نور کے ساتھ، جس سے ہر تاریکی روشن ہوجاتی ہے اور دنیا و دین کے کام اس سے ٹھیک ہوجاتے ہیںکہ تیرا غضب مجھ پر اترے یا تیری رضامندی مجھ پر وارد ہو۔ مجھے تیری ہی رضامندی اور خوشنودی درکار ہے اور نیکی کرنے یا بدی سے بچنے کی طاقت مجھے تیری ہی طرف سے ملتی ہے۔‘‘
کیا کبھی جب آپ کو ایسا وقت پیش آئے اور آپ کے دل کی کیفیت بھی یہی ہو تو آپ ان سے بہتر اور ان سے زیادہ مؤثر الفاظ لا سکتے ہیں؟ یا آپ کو دنیا کے ادبی ذخیرے میں اپنے دل کی ترجمانی کیلئے اس سے بہتر لفظ مل سکتے ہیں؟
عرفات کی دعا: اسی طرح میدانِ عرفات کا تصور کیجئے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار کفن بردوش انسانوں کا مجمع ہے۔ لبیک کی صداؤں اور حجاج کی دعاؤں سے فضا گونج رہی ہے۔ خدا کی شان بے نیازی اور عظمت و جبروت کا نقشہ سامنے ہے۔ انسانوں کے اس جنگل میں ایک احرام پوش ایسا بھی ہے (فداہ ابی و اُمی) جس کے کاندھوں پر ساری انسانیت کا بار ہے، جو ہر دیکھنے والے سے زیادہ خدا کی عظمت و جلال کا مشاہدہ کررہا ہے اور ہر جاننے والے سے زیادہ انسانوں کی درماندگی ، بے حقیقی اور بے بسی سے واقف ہے۔ اس پُرتاثیر دعا اور پرہیبت فضا میں اس کی آواز بلند ہوتی ہے اور سننے والے سنتے ہیں: (ترجمہ)
’’اے اللہ! تو میری بات سنتا ہے اور میری جگہ کو دیکھتا ہے اور میرے پوشیدہ اور ظاہر کو جانتا ہے۔ تجھ سے میری کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی۔ میں مصیبت زدہ ہوں، محتاج ہوں، فریادی ہوں، پناہ جو‘ ہوں، پریشان ہوں، ہراساں ہوں، اپنے گناہوں کا اقرار کرنے والا ہوں، اعتراف کرنے والا ہوں، تیرے آگے سوال کرتا ہوں، جیسے بے کس سوال کرتے ہیں، تیرے آگے گڑگڑاتا ہوں جیسے گناہگار ذلیل و خوار گڑگڑاتا ہے اور تجھ سے طلب کرتا ہوں جیسے خوفزدہ ، آفت رسیدہ طلب کرتا ہے اور جیسے وہ شخص طلب کرتا ہے جس کی گردن تیرے سامنے جھکی ہو اور اس کے آنسو بہہ رہے ہوں اور تن بدن سے وہ تیرے آگے فروتنی کئے ہوئے ہو اور اپنی ناک تیرے سامنے رگڑ رہا ہو۔ اے اللہ مجھے اپنے سے دعا مانگنے میں ناکام نہ رکھ اور میرے حق میں بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہوجا۔ اے سب مانگے جانے والوں سے بہتر اور سب دینے والوں سے اچھے۔‘‘
کیا خدا کی کبریائی و عظمت اور اپنی ناتوانی و بے نوائی، فقر و احتیاج، عجز و مسکنت کے اظہار و اقرار کے لئے اور رحمت ِ خداوندی کو جوش میں لانے کے لئے ان سے زیادہ پراثر، پرخلوص اور دلنشیں الفاظ انسان کے کلام میں مل سکتے ہیں اور اپنے دل کی کیفیت اور عجز و مسکنت کا نقشہ اس سے بہتر کھینچا جاسکتا ہے؟ یہ الفاظ تو دریائے رحمت میں تلاطلم پیدا کرنے کیلئے کافی ہیں۔ آج بھی ان کو ادا کرتے ہوئے دل امنڈ آتا ہے، آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں اور رحمت صاف متوجہ معلوم ہوتی ہے۔ رحمۃ للعالمین ﷺ پر اللہ کی ہزاروں رحمتیں کہ ایسی پرکیف اور اثر آفریں دعا امت کو سکھا گئے اور باب رحمت پر اس طرح دستک دینا بتا گئے۔
بندگی و بے چارگی کا اظہار: سب جانتے ہیں کہ ایک قوی اور غنی ذات قادرِ مطلق، سلطان برحق، مالک الملک کو اپنی طرف کھینچنے ، متوجہ کرنے اور اس کی رحمت کے لئے اپنی عجز و درماندگی اور اپنی بندگی و بیچارگی کے زیادہ سے زیادہ اور مؤثر سے مؤثر اظہار کی ضرورت ہوتی ہے ، اور اس اعتراف کی کہ ہم خاندانی و نسلی غلام، مملوک و ابن مملوک اور اس درِ دولت و آستانۂ شاہی کے قدیمی نمک خوار و پروردۂ نعمت ہیں۔ جان و مال ہر چیز کے آپ مالک ہیں، کوئی چیز آپ کے قبضۂ قدرت سے باہر نہیں، ایسی حالت میں آپ ہی رحم نہ فرمائیں گے اور آپ ہی خبر نہ لیں گے تو کون لے گا؟ دیکھئے کسی دعا کے لئے اس سے بہتر تمہید اور مقصد کی کشائش کے لئے اس سے بہتر کلید کیا ہوسکتی ہے؟ (ترجمہ):
’’اے اللہ، میں بندہ ہوں تیرا اور بیٹا ہوں تیرے بندے کا اور بیٹا ہوں تیری بندی کا، ہمہ تن تیرے قبضہ میں ہوں، نافذ ہے میرے بارے میں تیرا حکم اور عین عدل ہے میرے باب میں تیرا فیصلہ میں تجھے ہر اسم کے واسطے سے جس سے تو نے اپنی ذات کو موصوف کیا یا اس کو اپنی ذات میں اتارا ہے یا اسے اپنی مخلوق میں سے کسی کو بتایا ہے یا اپنے پاس اسے غیب ہی میں رہنے دیا ہے ، درخواست کرتا ہوں کہ قرآن عظیم کو میرے دل کی بہار بنا دے اور میری آنکھ کا نور اور میرے غم کی کشائش اور میری تشویش کا دفعیہ۔‘‘
انسانی ضروریات، جامع نمائندگی:
انسان کی ضروریات بے انتہا ہیں، ان میں انتخاب نہایت مشکل۔ ان سب کا سمیٹنا ناممکن۔ ایسی حالت میں انسان اپنی کیا ضروریات بیان کرے، کیا نہ کرے۔ ہم اپنے ہی حال پر غور کریں کہ اگر عرض مدّعا کا موقع آئے تو کیسی پریشانی پیش آئے اور بعد میں کیسی کیسی حسرت ہو کہ:
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
لیکن دیکھئے، پیغمبر انسانیت ؐ نے انسانیت کی (بشرطیکہ وہ فطرت صحیح پر ہو) اور انسانی ضروریات کی کیسی جامع نمائندگی کی ہے: (ترجمہ)
’’ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ حلیم و کریم ہے، پاکی ہے اللہ کی جو عرش عظیم کا مالک ہے ۔ سب تعریف اللہ کی ہے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔ میں تجھ سے وہ اعمال و خصائل مانگتا ہوں جو تیری رحمت کو واجب کرنے والے ہیں اور مغفرت کے یقینی اسباب اور ہر نیکی کی لوٹ اور ہر معصیت سے حفاظت کوئی گناہ نہ چھوڑ جسے تو بخش نہ دے، نہ کوئی تشویش جسے تو دور نہ فرمادے، نہ کوئی ایسی ضرورت جو تیری مرضی کے مطابق ہے جس کو پورا نہ فرمائے، اے ارحم الراحمین۔‘‘
ایک دوسری دعا میں فرماتے ہیں: (ترجمہ)
’’اے اللہ میرا دین درست رکھ جو میرے حق میں بچاؤ ہے اور میری دنیا درست رکھ جس میں میری معاش ہے اور میری آخرت درست رکھ جہاں مجھے لوٹنا ہے اور زندگی کو میرے حق میں ہر بھلائی میں ترقی اور موت کو میرے حق میں ہر برائی سے امن بنا دے۔‘‘
غیرفانی عیش اور مسرت:
انسان لطف و مسرت کا کتنا حریص ہے لیکن اس کی نگاہ محدود اور کوتاہ، وہ فانی لذت کا جویا اور ختم ہوجانے والی مسرت کا طالب ہے۔ آپؐ دعا فرماتے ہیں اور دعا ہی دعا میں اس نکتہ کی تعلیم دے جاتے ہیں کہ اصل مانگنے کی چیز غیرفانی عیش اور غیرمختتم (کبھی نہ ختم ہونے والی) مسرت ہے اور اصل مطلوب شے دوسری زندگی کی راحت اور دیارِ الٰہی کی لذت ہے۔ اب دیکھئے اس دُعا کا ترجمہ:
’’اے اللہ میں تجھ سے ایسی نعمت مانگتا ہوں جو ختم نہ ہو اور ایسی آنکھوں کی ٹھنڈک جو جاتی نہ رہے اور میں تجھ سے مانگتا ہوں تیرے حکم (تکوینی) پر رضامند رہنا اور موت کے بعد بھی خوش عیشی اور تیرے دیدار کی لذت اور تیری دید کا شوق۔‘‘ کتنی خوش قسمت ہے وہ امت جس کو نبوت کی وراثت اور محمد الرسول اللہ ﷺ کے طفیل میں دین، دنیا کا خزانہ اور غیب کی نعمتوں اور دولتوں کی یہ کنجیاں ملیں۔ اور کتنی بدقسمتی ہے اگر اس سے فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ اس لئے ان دُعاؤں کو سمجھنا، غور کرنا اور اسی انداز میں مانگنا چاہئے۔