دُنیا بھر کے ایک ارب چالیس کروڑ عیسائیوں کے اعلیٰ ترین مذہبی و روحانی پیشوا پوپ فرانسس (عمر ۸۸؍ سال) کا انتقال عیسائیت کے پیروکاروں کیلئے صدمہ ٔ عظیم ہے۔ اِن میں وہ بھی ہیں جو پوپ فرانسس کے بعض اقدام سے خوش نہیں تھے مگر اُن کی شخصیت، نرم دِلی اور عالمی مسائل سے گہری واقفیت کے قائل تھے۔
دُنیا بھر کے ایک ارب چالیس کروڑ عیسائیوں کے اعلیٰ ترین مذہبی و روحانی پیشوا پوپ فرانسس (عمر ۸۸؍ سال) کا انتقال عیسائیت کے پیروکاروں کیلئے صدمہ ٔ عظیم ہے۔ اِن میں وہ بھی ہیں جو پوپ فرانسس کے بعض اقدام سے خوش نہیں تھے مگر اُن کی شخصیت، نرم دِلی اور عالمی مسائل سے گہری واقفیت کے قائل تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی عیسائی برادری ہی نہیں ، دیگر مذاہب کے لوگ بھی اُن کا احترام کرتے تھے۔ پوپ فرانسس ، جن کا پورا نام جارج ماریو برگوگلیو تھا، کئی زاویوں سے ’’اول‘‘ تھے۔ مثلاً وہ اولین پوپ تھے جن کا تعلق لاطینی امریکہ سے تھا۔ اُن کا آبائی وطن ارجنٹائنا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ جب مارچ ۲۰۱۳ء میں بحیثیت پوپ اُن کی تاجپوشی عمل میں آئی تب ارجنٹائنا میں غیر معمولی جشن منایا گیا تھا۔ یہ جشن بالکل ایسا تھا جیسے فٹ بال کپ کی جیت پر منایا جاتا ہے۔ پوپ خود بھی فٹ بال کے بڑے مداح تھے۔ انہیں اول ہونے کا شرف اس اعتبار سے بھی حاصل تھا کہ اُن سے قبل ۶۰۰؍ سال میں کوئی ایسا پوپ نہیں ہوا جو اپنے پیش رو (پوپ بینیڈکٹ) کے استعفے کی وجہ سے پوپ بنا ہو۔ وہ اس اعتبار سے بھی اول تھے کہ اُن سے قبل ایک ہزار سال تک کوئی غیر یورپی پوپ نہیں ہوا۔
امن عالم سےپوپ فرانسس کی دلچسپی اور جہاں جہاں بھی امن کی فضا مکدر ہے وہاں وہاں کیلئے اُن کی فکرمندی یہ ظاہر کرتی تھی کہ وہ دُنیا کو گہوارۂ امن دیکھنا چاہتے ہیں مگر دور ِ حاضر میں اپیلیں ایک طرف ہیں اور سیاسی ترجیحات دوسری طرف۔ لگتا ہی نہیں کہ عالمی لیڈران کو امن کی فکر ہے۔ جہاں جنگیں نہیں ہورہی ہیں وہاں کے حالات کا بغور مشاہدہ کرلیجئے، سمجھ میں آجائیگا کہ امن کو نقصان پہنچانے کے درجنوں طریقے ہیں اور سیاست اپنے مفادات کیلئے امن کو تختہ ٔ مشق بنانے سے کبھی باز نہیں آتی۔ اس کیلئے ضروری نہیں کہ باقاعدہ جنگ ہو یا سرحدوں پر کشیدگی ہو۔ جنگ کا نقشہ تو غیر معمولی ٹیرف کے ذریعہ بھی کھینچا جاسکتا ہے جیساکہ ہم آپ دیکھ رہے ہیں ۔ پوپ فرانسس جنگوں کے تئیں فکرمند تھے۔ علاج کے سلسلے میں اسپتال داخل ہونے کے باوجود وہ جنوبی سوڈان کے حالات کی فکر کرتے رہے۔ اُنہوں نے بستر علالت سے جنوبی سوڈان کے لیڈروں کو ایک مکتوب روانہ کیا تھا جس میں امن کی بحالی کو اولیت دینے کی اپیل کی گئی تھی۔
انتقال سے ایک روز قبل (ایسٹر کے دن) اپنے خطاب میں پوپ نے کہا تھا کہ ’’غز ہ پٹی میں فوری جنگ بندی ہو اور انسانی امداد کا راستہ صاف کیا جائے۔ انہوں نے عالمی برادری سے بھی کہا کہ وہ بھوک سے نڈھال غزہ کے لوگوں کی مدد کو آگے بڑھے۔‘‘ اس خطاب میں اُنہوں نے اُن زنجیروں کو ختم کرنے پر بھی زور دیا جو انسانوں کو انسانوں سے جدا کرتی ہیں ۔ اُن کا کہنا تھاکہ انسان انسان سے جدا ہے تو محض سیاسی زنجیروں کی وجہ سے نہیں بلکہ معاشی زنجیریں بھی ہیں جنہیں توڑنا ضروری ہے۔ اُنہوں نے بھوک اور معاشی نابرابری پر ہمیشہ تنقید کی اور عالمی لیڈروں کو وسائل کے منصفانہ استعمال کی ترغیب دی۔ طبیعت کی خرابی کے بعد اسپتال داخل ہونے سے قبل اُنہوں نے اسرائیلی جنونی کارروائی کی ایک بار پھر مذمت کی۔ وہ غزہ کے ہمدرد تھے، افسوس غزہ نے ایک اچھا دوست کھو دیا۔
پوپ فرانسس چل بسے اور امن کے پرستاروں نے ایک ہمنوا کھو دیا ۔