Inquilab Logo Happiest Places to Work

جامنی قالین اور جامنی ٹائی

Updated: May 15, 2025, 3:50 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے چار روزہ دورہ کا آغاز سعودی عرب سے کیا جہاں اُن کا غیر معمولی استقبال کیا گیا۔ سعودی عرب سرخ قالین بچھانے کی روایت کو ترک کرچکا ہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے چار روزہ دورہ کا آغاز سعودی عرب سے کیا جہاں اُن کا غیر معمولی استقبال کیا گیا۔ سعودی عرب سرخ قالین بچھانے کی روایت کو ترک کرچکا ہے۔ اب مہمانوں کیلئے جامنی قالین بچھایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ وضاحت کی گئی تھی کہ جامنی رنگ خطے کے صحرائی پھولوں اور سخاوت کی علامت ہے۔ اسی علامت کو ٹرمپ نے دوستی کی علامت کے طور گلے لگایا۔ جس وقت وہ ریاض کے ہوائی اڈہ پر اُترے، جامنی رنگ کی ٹائی باندھے  ہوئے تھے۔ یاد رہنا چاہئے کہ پہلے دور کی صدارت کی طرح، دوسرے دور کی صدارت میں بھی ٹرمپ نے اولین غیر ملکی دورہ کیلئے سعودی کا انتخاب کیا۔ ۲۰۱۷ء میں بھی وہ سب سے پہلے سعودی پہنچے تھے۔ 
 جاری دورہ کیلئے اُنہوں نے سعودی کے علاوہ قطر اور متحدہ عرب امارات کا انتخاب کیا۔ ا س میں حیرت انگیز طور پر اسرائیل شامل نہیں ہے۔ کیوں نہیں ہے اس کا جواب مشکل نہیں ہے مگر آسان بھی نہیں ہے۔ مشکل اس لئے نہیں ہے کہ نیتن یاہو اور ٹرمپ میں کئی معاملات پر اختلاف ہے۔ ان میں کہا سنی بھی ہوچکی ہے اور شاید گالم گلوج بھی۔ اس کے باوجود اسرائیل کو امریکہ سے اور امریکہ کو  اسرائیل سے الگ نہیں سمجھا جاسکتا۔ اسی لئے، اس کا جواب آسان نہیں کہ دورہ میں اسرائیل کیوں شامل نہیں ہے۔ تل اَبیب سے ٹرمپ کی بے رُخی، اگر وہ بے رْخی ہے تو، سمجھ میں نہیں آتی۔ کسی بھی امریکی صدر نے آج تک  اسرائیل کو ناراض نہیں کیا مگر ٹرمپ کررہےہیں اس لئے گمان غالب ہے کہ کوئی بات ہوگی جو منظر عام پر نہیں آرہی ہے۔ بہرحال ٹرمپ کا سعو دی کی جانب جھکاؤ اور سعودی کی ٹرمپ نوازی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ عالمی اخبارات نے اسے سرخیوں میں جگہ دے کر تل ابیب کی بے چینی میں غیر معمولی اضافہ کردیا ہے۔
 امریکی اسرائیلی یرغمال فوجی عیدان الیگزینڈر کا حماس کی قید سے آزاد ہونا بھی کچھ کم اہم واقعہ نہیں ہے۔ اس سے اسرائیل پر دباؤ بڑھے گا جو باقیماندہ یرغمالوں کو رِہا کروانے میں ناکام ہے۔ اسرائیل کی اپوزیشن پارٹیاں عیدان الیگزینڈر کی رہائی کیلئے امریکہ حماس بات چیت میں تل ابیب کے نظر انداز کئے جانے سے بھی ناراض ہیں۔ وہ نیتن یاہو کی حکومت کو نشانہ بنا رہی ہیں۔خود عیدان الیگزینڈر نے یہ کہتے ہوئے نتین یاہو کو، جو اِس رہائی کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتے تھے، ٹھینگا دکھا دیا کہ اُن کی رِہائی میں حکومت ِ اسرائیل کا کوئی رو ل نہیں ہے۔ بقول عیدان: ’’یاہو کو نہ تو یرغمالوں کی رہائی سے دلچسپی ہے نہ ہی جنگ ختم کرنے سے، اُنہیں اپنے اقتدار کے ماسوا کچھ بھی عزیز نہیں۔‘‘ بہرحال، ٹرمپ نے سعودی کے دورہ کو اپنے نقطۂ نظر سے کامیابی سے ہمکنار کیا، بہت سے معاہدوں پر دستخط کئے جن میں ۱۴۲؍ ارب ڈالر کا دفاعی معاہدہ بھی شامل ہے۔ اُنہوں نے نئی سرمایہ کاری کا بھی بیج بویا۔ صاف ظاہر ہے کہ اولین بیرونی دورہ کیلئے مشرق وسطیٰ کا انتخاب معاشی وجوہ کی بناء پر ہے، سیاسی حالات اور خطے میں افہام و تفہیم بالخصوص غزہ کی جنگ رُکوانا اُن کا مقصد نہیں ہے۔ جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں، وہ سعودی سے نکل کر قطر پہنچ چکے ہیں۔ دورہ کے تیسرے مرحلے میں اُنہیں یو اے ای بھی جانا ہے مگر اس سے پہلے ہی کہا جاسکتا ہے کہ ایک بزنس ٹور کی حیثیت سے دورہ کامیاب ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK