• Mon, 08 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

پوتن کا دورۂ ہند

Updated: December 06, 2025, 1:51 PM IST | Inquilab News Network | mumbai

روسی صدر ولادیمیر پوتن نے بھی وزیر اعظم مودی کو ’’مائی فرینڈ‘‘ کہا ہے مگر ہم اُمید کرتے ہیں کہ وہ ماضی میں ’’مائی فرینڈ‘‘ یا ’’مائی گریٹ فرینڈ‘‘ کہنے والے اُس حکمراں جیسے بے وفا ثابت نہ ہوں گے جو وزیر اعظم مودی کی آج بھی تعریف کرتا ہے مگر نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔

INN
آئی این این
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے بھی وزیر اعظم مودی کو ’’مائی فرینڈ‘‘ کہا ہے مگر ہم اُمید کرتے ہیں   کہ وہ ماضی میں   ’’مائی فرینڈ‘‘ یا ’’مائی گریٹ فرینڈ‘‘ کہنے والے اُس حکمراں   جیسے بے وفا ثابت نہ ہوں   گے جو وزیر اعظم مودی کی آج بھی تعریف کرتا ہے مگر نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں   دیتا۔ جو پچاس سے زائد مرتبہ دعویٰ کر چکا ہے کہ پہلگام سانحہ کے بعد اُس نے ہند پاک جنگ رُکوائی، اس کیلئے تجارت روکنے کی دھمکی دی۔ یہ وہی حکمراں   ہے جس نےاپنے ملک میں   موجود ہندوستانی تارکین وطن کو پیروں   میں   زنجیریں   ڈال کر وطن واپس بھیجا۔ جس نے ٹیرف کے معاملے میں   نئی دہلی کے ساتھ بالکل مروت نہیں   کی۔ اب بھی وہ یہی رٹ لگائے ہوئے ہے کہ ہندوستان، روس سے تیل لینا بند کرے، وغیرہ وغیرہ۔
روس اور ہندوستان کے درمیان دیرینہ رشتے ہیں   جن میں   قربت اور اپنائیت کی حرارت پائی جاتی رہی ہے۔ سرد جنگ کے دوران ہندوستان ناوابستہ ملکوں   میں   ضرور شامل تھا مگر اس کا جھکاؤ ماسکو کی طرف تھا۔ گزشتہ دنوں   کانگریس کے رکن پارلیمان جے رام رمیش نے یاد دہانی کرائی کہ ’’ہند روس تعلقات کی بنیاد ۱۹۵۵ء میں   رکھی گئی تھی جب سوویت یونین کی اعلیٰ قیادت نکولائی بولگانین اور نکیتا خروشچف ایک تاریخی اور غیر معمولی دورہ پر ہندوستان آئے تھے۔ اس طویل اور جامع دورہ سے چند ماہ قبل اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے سوویت یونین کا دورہ کیا تھا، جس نے دونوں   ممالک کے درمیان اعتماد کی بنیاد مضبوط کی تھی۔‘‘ 
نئے حالات میں   پرانے رشتوں   کو فراموش نہیں   کرنا چاہئےبلکہ انہیں   مزید استحکام بخشنا چاہئے، اس کلیہ کی روشنی میں   پوتن کا دورہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں   شک نہیں   کہ اُصولی طور پر پوتن سے اس معاملے میں   اختلاف کیا جانا چاہئے کہ اُنہوں   نے یوکرین پر جنگ مسلط کی ہے جو ہنوز جاری ہے۔ اُنہیں   توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف متنبہ کیا جانا چاہئے۔ مگر جن معاملات میں   ہم آہنگی ہوسکتی ہے اُنہیں   زیادہ تفصیل کے ساتھ زیر بحث لانا چاہئے۔ اس میں   تجارت کے ساتھ غیر تجارتی اُمور بھی ہوں  ۔ یہ ضروری ہے کیونکہ اب اکثر ممالک سفارتی تعلقات کو تجارتی تعلقات سمجھتے ہیں  ۔ زیادہ تر گفتگو تجارت پر ہی ہوتی ہے۔
ثقافتی، تعلیمی، سائنسی اور ماحولیاتی موضوعات یا تو زیر بحث نہیں   لائے جاتے یا ان کیلئے بہت کم وقت دیا جاتا ہے۔ روس سے ہمارے ثقافتی رابطے بہت مضبوط رہے ہیں  ۔ ہمیں   یاد ہے روس (اُس وقت یو ایس ایس آر) میں   ۱۹۸۸ء میں   منعقدہ ’’فیسٹیول آف انڈیا‘‘ کی کامیابی کے پیش نظر طے کیا گیا تھا کہ ماسکو میں   انڈین کلچرل سینٹر قائم کیا جائیگا۔ اس تجویز پر اتنی سرعت سے عمل ہوا کہ ۱۹۸۹ء میں   جواہر لال نہرو کلچرل سینٹر کا قیام عمل میں   آچکا تھا۔ ہند روس تعلقات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہندوستان کے بہت سے طلبہ ہر سال روس میں   اعلیٰ تعلیم کی غرض سے جاتے ہیں  ۔ فی الحال ان کی تعداد ۲۰؍ ہزار ہے جو طب، انجینئرنگ ، اکنامکس اور سائنس کی انسٹی ٹیوشنز میں   تعلیم حاصل کررہے ہیں  ۔
سفارت رسی پر چلنے کا کام ہے۔ ہماری کوشش یہ ہو کہ روس سے قربت کی وجہ سے امریکہ سے دوری نہ بڑھے۔ ہندوستان کو دونوں   ہی ملکوں   سے دوستی عزیز ہونی چاہئے تاکہ ہم، الگ الگ خانوں   میں   بٹتی چلی جانے والی دُنیا کو یہ پیغام دے سکیں   کہ مل جل کر سب کی فکر کرنا ہی سب کے مفاد میں   ہے ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK