آسٹریلیا میں سولہ سال سے کم عمر کے افراد کیلئے سوشل میڈیا کا استعمال ممنوع قرار دیا جانا ایک اچھا قدم ہے۔
آسٹریلیا میں سولہ سال سے کم عمر کے افراد کیلئے سوشل میڈیا کا استعمال ممنوع قرار دیا جانا ایک اچھا قدم ہے۔ اس سلسلے میں آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز نے آسٹریلوی نیوز چینل اے بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج (بدھ، ۱۰؍ دسمبر ۲۵ء) کا دن آسٹریلوی خاندانوں کیلئے ٹیکنالوجی کمپنیوں کو دیا گیا اختیار واپس لینے کا دن ہے۔ اب وہ (والدین) بچوں کو بچہ رہنے دینے کے اپنے حق کا استعمال کرینگے تاکہ انہیں بھی ذہنی سکون حاصل رہے۔‘‘
اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ والدین پریشان تھے کہ اُن کے نونہال سوشل میڈیا کا عادی ہوجانے کے سبب بچپن یا لڑکپن کو اُس طرح نہیں گزار رہے ہیں جس طرح گزارنا چاہئے۔ ممکن ہے اس کیلئے البانیز کی حکومت پر دباؤ پڑا ہو جس نے قانون تو ۲۰۲۴ء میں بنا دیا تھا مگر اس کا نفاذ گزشتہ دنوں کیا۔ خبروں کے مطابق البانیز حکومت کے متحرک ہونے سے پہلے کئی آسٹریلوی ریاستوں نے اپنے طور پر پابندی عائد کردی تھی۔ عوام کی جانب سے ’’لیٹ دیم بی کڈس‘‘ (بچوں کو بچہ ہی رہنے دو) نامی مہم بھی چلائی گئی تھی۔ ا س کی وجہ یہ تھی کہ اعدادوشمار کے مطابق ۲۰۲۴ء میں ۸؍ سے ۱۲؍ سال کے ۸۰؍ فیصد بچے اور ۱۳؍ سے ۱۵؍ سال کی عمر کے ۹۵؍ فیصد نوعمر سوشل میڈیا کے کم از کم ایک پلیٹ فارم سے وابستہ تھے۔ یہ اطلاع آسٹریلوی ’’ای سیفٹی کمشنر‘‘ کی فراہم کردہ ہے۔ چونکہ یہ مسئلہ ہر ملک کا ہے اس لئے آسٹریلیا کی پہل کے بعد سنا جا رہا ہے کہ کئی دیگر ممالک بھی اسی انداز کا قانون بنانے پر غور کررہے ہیں۔ یہ ایک اچھا قدم ہے جو سختی سے نافذ کیا گیا تو اس کے خوش آئند ہونے میں شبہ نہیں ہوگا۔ ایسے اقدام کا خیرمقدم کیا جانا چاہئے اور ہمارے ملک میں بھی اس پر غوروخوض کیا جانا چاہئے۔ آگے بڑھنے سے قبل بتا دیں کہ آسٹریلوی حکومت کی عائد کردہ مذکورہ پابندی کا نفاذ انسٹا گرام، ٹک ٹاک، ریڈٹ، یوٹیوب، ٹوچ اور کک جیسے پلیٹ فارمس پر ہوگا جن کے بارے میں ای سیفٹی کمشنر کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بچے انہی پلیٹ فارمس کا استعمال کرتے ہیں۔
یہاں لازماً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سولہ سال سے کم عمر کے کسی فرد کو سوشل میڈیا اکاؤنٹ بنانے سے کیسے روکا جائیگا؟ عموماً عمر پوچھی جاتی ہے اور کوئی نوعمر اپنی عمر ۱۶؍ یا ۱۸؍ سال سے زیادہ بتا سکتا ہے تاکہ مذکورہ قانون سے بچ جائے مگر کوشش یہ کی جارہی ہے کہ ایسا نہ ہو۔ اس کیلئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمس کو جوابدہ بنایا جارہا ہے۔ سنا گیا ہے کہ اپنا اکاؤنٹ بنانے والے نوعمروں کو عمر ظاہر کرنے والی کسی دستاویز کے ذریعہ آن لائن توثیق کرنی ہوگی۔ یہی نہیں بلکہ براؤزنگ ہسٹری کے ذریعہ بھی اندازہ لگایا جائیگا کہ صارف ۱۶؍ سال سے کم عمر کا ہے یا زیادہ کا۔اس کے باوجود یہ سو فیصد محفوظ نہیں ہے اور نئی عمر کے افراد کمپنی کو جُل دینے میں کامیاب ہوسکتے ہیں اسلئے آسٹریلوی حکومت نے کمپنیوں کو عملاً پابند کیا ہے۔ اگر اُنہوں نے خلاف ورزی کی تو اُن سے ۳۲؍ ملین ڈالر تک کا ہرجانہ وصول کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستانی روپے میں یہ رقم ۲؍ ارب ۸۵؍ کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ جب ایسا ہوگا تو یقیناً حالات بدلیں گے مگر اس میں بھی خدشہ ہے۔ کیا نوعمر اس بَین کو قبول کرلیں گے؟ کہیں اُن کی جانب سے کوئی ایسا ردعمل تو نہیں ہوگا جس کیلئے نہ تو والدین تیار ہوں نہ ہی سماج اور ملک؟ بہتر ہوگا کہ والدین اپنا کردار نبھائیں اور بچوں کو پابندی قبول کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار کریں۔ یہی مسئلہ کا حل ہے۔