Inquilab Logo

ایسے بیانات کو’ نیو نارمل‘ نہ بننے دیا جائے!

Updated: April 23, 2024, 1:19 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

اتوار کو بانسواڑہ، راجستھان کی انتخابی رَیلی میں وزیر اعظم مودی نے کانگریس کے انتخابی منشور کو بنیاد بناکر ملک کے مسلمانوں کو جس طرح ہدف بنایا وہ بے حد افسوسناک ہے۔ ایک سو چالیس کروڑ ہندوستانیوں کے نمائندہ کو، جس نے دُنیا کے بیشتر ملکوں میں ہندوستان کی نمائندگی کی، ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں ۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 اتوار کو بانسواڑہ، راجستھان کی انتخابی رَیلی میں  وزیر اعظم مودی نے کانگریس کے انتخابی منشور کو بنیاد بناکر ملک کے مسلمانوں کو جس طرح ہدف بنایا وہ بے حد افسوسناک ہے۔ ایک سو چالیس کروڑ ہندوستانیوں  کے نمائندہ کو، جس نے دُنیا کے بیشتر ملکوں  میں  ہندوستان کی نمائندگی کی، ایسی باتیں  زیب نہیں  دیتیں ۔ آزادی کے بعد سے اب تک کے وزرائے اعظم میں  سے کسی نے کبھی ایسی کوئی بات نہیں  کہی۔ اِس ملک میں  سیکڑوں  الیکشن پہلے بھی ہوئے اور حکمراں  جماعت نیز حزب ِاختلاف میں  رسہ کشی، تناؤ اور ایک دوسرے کو ہدف بنانے کا ماحول پہلے بھی رہا۔ اس میں  این ڈی اے کے دور کو بھی جوڑ کر دیکھ لیجئے ایسی مثال نہیں  ملے گی۔ 
 کہا جاتا ہے کہ جب بی جے پی خود کو نامساعد اور مخالف حالات سے گھرا ہوا پاتی ہے تو اُس کے پاس فرقہ واریت کا سہارا لینے (کمیونل کارڈ کھیلنے) کے علاوہ کوئی چارہ نہیں  رہ جاتا مگر فرقہ واریت کیسی؟ صرف اکثریتی فرقے کی بات کرنا اور اقلیتی فرقوں کو سرے سے نظر انداز کرنا بھی فرقہ پرستی ہے۔ ہماری جمہوریت اور آئین اس کی بھی اجازت نہیں  دیتے تاہم، غلط ہی سہی، اسے گوارا کرلیا جاتا ہے مگر اس سے آگے بڑھ کر اقلیتی فرقوں  بالخصوص سب سے بڑی اقلیت پر جارحانہ انداز میں  تہمت لگانا اور اُسے اُن بنیادوں  پر ہدف بنانا جن کی کوئی اصل نہ ہو (مثلاً ’’زیادہ بچے پیدا کرنے والے‘‘ کی کوئی اصل نہیں  ہے)، زیادتی تو ہے ہی، ملک کے اٹھارہ تا بائیس کروڑ مسلمان شہریوں  کو الگ تھلگ کرنے اور اُن کیخلاف اکثریتی طبقہ میں  غیریت اور مخاصمت کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش بھی ہے جس کی ہندوستان جیسے آئین پسند، جمہوری اور ’’سرو دھرم سمبھاؤ‘‘ پر یقین رکھنے والے ملک میں  قطعاً گنجائش نہیں  ہے۔ضروری ہے کہ اسے ’’نیو نارمل‘‘ نہ بننے دیا جائے۔ 
 مگر، نہ تو ایسا پہلی بار ہوا ہے نہ ہی اسے غیر متوقع کہا جاسکتا ہے۔ اس سے قبل بھی وزیر اعظم ملک کے مسلمانوں کو متہم کرچکے ہیں ۔ گجرات میں  وزارت اعلیٰ کے دور میں  میاں مشرف والا جملہ (جبکہ ہندوستانی مسلمان خالص ہندوستانی ہیں )، کپڑوں  سے پہچاننے والی بات، قبرستان اور شمشان کا بیان اور ایسے کئی دوسرے جملے اُنہی کے نام درج ہیں  جن سے اقلیتی طبقات ہی نہیں ، اکثریتی فرقے کے لوگ بھی بددِل اور بدظن ہوئے۔ بحیثیت وزیر اعظم اگر اُنہوں  نے اپنی پارٹی کے اُن لوگوں کی گوشمالی نہیں کی جو بدزبانی کرتے رہے اور بار بار دریدہ دہنی کا ثبوت دیا تو یہ فرض کرکے دل کو تسلی دی جاسکتی تھی کہ ملک میں  ہزاروں  لوگ روزانہ ہزاروں  بیان دیتے ہیں ، وزیر اعظم کس کس بیان پر کس کس کی گوشمالی کرسکتے ہیں ؟ مگر خود وزیر اعظم کا قابل اعتراض جملے ادا کرنا کسی بھی زاویئے سے قبول نہیں کیا جاسکتا۔ وزیر اعظم کو خود ان تبصروں کو اَن سنا نہیں کرنا چاہئے جو نفرتی تقریروں  اور بیانات کے سلسلے میں  سپریم کورٹ نے کئے ہیں ۔ اب سے ٹھیک ایک سال پہلے سپریم کورٹ نے تمام ریاستو ں کو ہدایت دی تھی کہ اگر کوئی نفرتی تقریر ہوئی یا بیان دیا گیا تو اس کیلئے شکایت درج ہونے کا انتظار نہ کرتے ہوئے ازخود (سو‘ موٹو) معاملہ درج کیا جائے۔ افسوس کہ وزیر اعظم نے اپنے وزیر اعظم ہونے کا پاس تو نہیں رکھا، عدالتی ہدایت کو بھی نظر انداز کیا۔ جہاں  تک دیگر حقائق کا تعلق ہے، اُنہوں  نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کے متعلقہ بیان کو ادھورا نقل کیاہے۔ منموہن سنگھ نے یہ ہرگز نہیں کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر صرف اور صرف مسلمانوں کا حق ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK