و اقعات، سانحات، حادثات۔ ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ اس کی وجہ سے عوام کو زیادہ حساس ہوجانا چاہئے تھا مگر جیسا کہ آفاقی اُصول ہے، ہر چیز کی بہتات نقصان دہ ہے لہٰذا بے شمار واقعات و حادثات کی وجہ سے نقصان یہ ہوا کہ عوام زیادہ حساس ہونے کے بجائے کم حساس ہوگئے۔
چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) جسٹس بی آر گوائی۔ تصویر: آئی این این
و اقعات، سانحات، حادثات۔ ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ اس کی وجہ سے عوام کو زیادہ حساس ہوجانا چاہئے تھا مگر جیسا کہ آفاقی اُصول ہے، ہر چیز کی بہتات نقصان دہ ہے لہٰذا بے شمار واقعات و حادثات کی وجہ سے نقصان یہ ہوا کہ عوام زیادہ حساس ہونے کے بجائے کم حساس ہوگئے۔ انگریزی میں ایک لفظ ’’نیو نارمل‘‘ عام ہوگیا ہے۔ اس کا معنی ہے ایک جیسے واقعات کا معمول بن جانا (اور بے حسی جیسی بے حسی کا پیدا ہونا)۔
واقعات کی بہتات کاحال یہ ہے کہ چاروں طرف سے خبریں اُبل رہی ہیں۔ آپ دیکھنا اور پڑھنا چاہیں تب بھی اُبلتی ہیں اور نہ دیکھنا یا نہ پڑھنا چاہیں تب بھی اُبلتی ہیں۔ بڑی عجیب صورتحال ہے۔ جتنی عجیب ہے اُتنی ہی افسوسناک بھی ہے۔ ماضی میں ایک واقعہ رونما ہونے کے بعد کافی وقت پُرسکون طریقہ سے گزرتا تھا تب کہیں کوئی دوسرا واقعہ رونما ہوتا تھا۔ اب پہلے اور دوسرے واقعہ کے درمیان وقفہ یا تو مختصریا بالکل ختم ہوگیا ہے۔ بیک وقت کئی واقعات بھی رونما ہونے لگے ہیں اور یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ واقعات خوشگوار بھی ہوتے ہیں اور ناخوشگوار بھی۔ یہاں جن باتوں کو واقعہ یا واقعات کہا جارہا ہے اُن کے بارے میں آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہماری مراد خوشگوار واقعات سے ہے یا ناخوشگوار واقعات سے۔
ایک رجحان جو حالیہ برسوں میں پیدا ہوا وہ ایک واقعہ کو بے اثر کرنے کیلئے دوسرا واقعہ ’’گھڑنے‘‘ کا ہے۔ جب تین زرعی قوانین کے خلاف کسانوں نے اپنا تاریخی احتجاج شروع کیا اور دہلی کی سرحد پر ہزاروں کسان دھرنا دینے بیٹھے تھے تب، آپ کو یاد ہوگا کہ، کسانوں کا ایک ایسا جتھا بھی منظر عام پر آیا تھا جو تین زرعی قوانین کی حمایت میں مظاہرہ کررہا تھا۔ یہ دوسرا مظاہرہ زیادہ وقت تک جاری نہیں رہ سکا تھا کیونکہ غیر فطری تھا مگر ایک واقعہ کی اہمیت کم کرنے کیلئے اسے گھڑا گیا تھا۔ حالیہ بارہ تیرہ یا چودہ برس کے دوران ایسا کئی بار ہوا ہے۔ تازہ مثال چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) کی جانب جوتا اُچھالنے کے واقعہ سے دی جاسکتی ہے۔ اس واقعہ کی جتنی مذمت کی جاسکتی تھی اُتنی ہونی چاہئے تھی اور ہو بھی رہی تھی مگر اسی دوران ایسا گروہ پیدا ہوگیا جس نے اس واقعہ کو بے اثر کرنے کیلئے مہم چلا دی اور سی جے آئی کے خلاف منافرت پھیلانے لگا۔ اس گروہ نے جوتا اُچھالنے والے وکیل کی حمایت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس گروہ کے خلاف پنجاب میںکئی ایف آئی آر داخل کی جاچکی ہیں جبکہ کرناٹک میں بھی ایسا ہوا ہے مگر ذرا سوچئے ایک قابل مذمت واقعہ کی مذمت نہ کرنا اور ایک خاطی وکیل کی واہ واہی کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟
سوشل میڈیا کو متوازی یا جوابی مہم کیلئے نہایت مؤثر پلیٹ فارم کے طور پر منتخب کرلیا گیا ہے۔ اب سے پہلے، بہت سے لوگ جو بے بنیاد تنقید یا تنقیص کا سہارا لیتے تھے وہ اپنا نام ظاہر نہیں کرتے تھے مگر اب اُن میں اتنی جرأت پیدا ہوگئی ہے کہ نام یا چہرہ نہیں چھپاتے، بے خوفی بلکہ بے شرمی کے ساتھ کیمرہ کے سامنے آتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ انہیں غیر معمولی پشت پناہی حاصل ہے۔ کب، کس واقعے کی وجہ سے کون سا واقعہ بے اثر ہوگیا اس کا اندازہ سب کو ہے مگر کم لوگوں کو علم ہوپاتا ہے کہ اس کی وجہ سے کون سے بڑے نقصانات ہوئے۔