• Sat, 27 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

جنگوں سے کون کس کو باز رکھ رہا ہے؟

Updated: December 27, 2025, 3:55 PM IST | Inquilab News Network | mumbai

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ بار بار کہہ رہے ہیں اور اب تک کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اُنہوں نے جنگیں رُکوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس یکطرفہ دعوے کو دو طرفہ ہوتے کسی نے نہیں دیکھا۔ اس کی ایک آدھ مثال مل سکتی ہے مگر جتنی بار ٹرمپ نے دعویٰ کیا اُس کا دس فیصد بھی کسی نے اعتراف نہیں کیا۔ کیا یہ دھاندلی نہیں ہے؟

INN
آئی این این
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ بار بار کہہ رہے ہیں   اور اب تک کئی بار کہہ چکے ہیں   کہ اُنہوں   نے جنگیں   رُکوانے میں   اہم کردار ادا کیا۔ اس یکطرفہ دعوے کو دو طرفہ ہوتے کسی نے نہیں   دیکھا۔ اس کی ایک آدھ مثال مل سکتی ہے مگر جتنی بار ٹرمپ نے دعویٰ کیا اُس کا دس فیصد بھی کسی نے اعتراف نہیں   کیا۔ کیا یہ دھاندلی نہیں   ہے؟ غزہ جنگ روکنے میں   ٹرمپ آج بھی ناکام ہیں  ۔ اُن میں   اتنی ہمت نہیں   ہے کہ نیتن یاہو کو فون کردیں   کہ کل سے جنگ رُک جانی چاہئے ورنہ اُن کے فوجیوں   کو امریکی فوجیوں   کا سامنا کرنا پڑیگا۔ کیا ٹرمپ ایسا کہہ بھی سکتے ہیں  ؟ اُن کے اندر جو تیس مار خاں   ہے وہ اسرائیل کا نام آتے ہی اپنے تیس مار خاں   ہونے کا چغہ اُتار کر بالائے طاق رکھ دیتا ہے اور صفر مار خاں   ہوجاتا ہے۔ وہ یوکرین روس جنگ بھی نہیں   رُکوا سکے۔ ماسکو کو روکنا اُن کے اختیار میں   نہیں   ہے۔ یوکرین کو سمجھانا اختیار میں   تھا مگر وہاں   زیلنسکی ہیں   جو وہائٹ ہاؤس کے آداب کو ٹھوکر میں   رکھ کر بغیر سو‘ٹ پہنے پہنچ گئے تھے۔ ٹرمپ نے اسے بے ادبی گردانا۔ ہوا کرے بے ادبی، زیلنسکی اس کو نہیں   مانتے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ملٹری لباس اُتار دوں   گا تو اس کا مطلب یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جنگ ختم ہوچکی ہے جبکہ جنگ ختم نہیں   ہوئی ہے۔ اُدھر سوڈان کی جنگ بھی ٹرمپ رُکوا نہیں   سکے۔ غزہ کی طرح یہ جنگ بھی وہ رُکوانا نہیں   چاہتے۔ اسی لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ٹرمپ جب یہ کہتے ہیں   کہ مَیں   نے اتنی جنگیں   رُکوائیں  ، تب اُنہیں   یہ بھی کہنا چاہئے کہ مَیں   نے اتنی جنگیں   نہیں   رُکوائیں  ۔ ایسا ہو تو اُن سے دریافت کیا جائے کہ جو جنگیں   آپ نے رُکوائیں   اُن کے رُکوانے کا مقصد کیا تھا اور جو نہیں   رُکوائیں   اُن کے نہ رُکوانے کا مقصد کیا ہے۔ 
اس سے حقیقت واضح ہوجائیگی کہ وہ کس طرح کا کھیل کھیل رہے ہیں  ۔ اسرائیل نے جب ایران پر حملہ کیا تو اس جنگ کو رُکوانے کے بجائے وہ خود جنگ میں   کود پڑے تھے۔ یہ الگ بات کہ اُن کی شمولیت سے ایران کا ایسا کوئی نقصان نہیں   ہوا جسے قابل ذکر کہا جاسکے۔ اسرائیل نے قطر پر بھی حملہ کیا مگر ٹرمپ یہاں   کنی کاٹ گئے۔ قطر سے التجا کرتے رہے کہ جوابی حملہ نہ کرے۔ سچائی یہ ہے کہ وہ اسرائیل کے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں   اور امریکہ کو گریٹ اگین بنانا چاہتے ہیں  ۔ اس کی وجہ بھی سمجھ میں   آتی ہے کہ اسرائیلی مفادات کی حفاظت کے بغیر امریکہ گریٹ اگین نہیں   بن سکتا کیونکہ وہ خود امریکہ کی یہودی لابی کی سرپرستی سے ’’گریٹ اگین‘‘ (دوبارہ صدر) بنے ہیں  ۔ اسرائیل کو فوجی تعاون دینا اُن کا فرض ہے جسے وہ اپنا حق سمجھتا ہے۔ اسلحہ کی فراہمی کو وہ موضوع بحث نہیں   بناتے مگر کوشش یہی کرتے ہیں   کہ اُن کا اسلحہ فروخت ہو۔ گزشتہ ہفتے اُنہوں   نے اعلان کیاکہ اُن کا ملک اب تک کےسب سے بڑے بحری جنگی جہاز بنانے جارہے ہیں   اور متعلقہ حکم نامے پر دستخط کرچکے ہیں  ۔ اس پر ٹرمپ نے بہت باتیں   کیں   مگر اُن کے بیان سے یہ ظاہر نہیں   ہوا کہ مجوزہ جنگی جہازوں   پر (جو دراصل کئی جہازوں   پر مشتمل  بیڑے ہوں   گے) کتنی رقم خرچ کی جائیگی۔ چاہے جتنی ہو، امریکہ اُس سے پیچھے نہیں   ہٹے گا کیونکہ وہ اسلحہ سازی اپنے لئے تو کرتا ہی ہے، عالمی بازار میں   فروخت کیلئے بھی کرتا ہے۔ اندازہ کے مطابق اس کی اسلحہ فروختگی کم و بیش ۳۲۰؍ ارب ڈالر جیسی خطیر رقم کی ہے۔ ایک طرف جنگیں   روکنے کا دعویٰ کرنا اور دوسری طرف اسلحہ کی فروختگی میں   سب سے آگے رہنا یہ ہے امریکہ، یہ ہیں   ٹرمپ!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK