• Thu, 06 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ظہران : بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں

Updated: November 06, 2025, 4:46 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

قوموں کی زندگی میں، کم کم ہی سہی، ایسے مواقع آتے ہیں جب ناممکن، ممکن بن کر مثل آفتاب درخشاں ہوتا ہے، جب مایوسی حوصلے کی قبا پہن کر جلوہ گر ہوتی ہے اور جب عام آدمی محسوس کرتا ہے کہ برسوں سے وہ بادشاہ گر تھا، مگر خود بادشاہ بن سکتا ہے۔

Zohran Mamdani. Photo: INN
ظہران ممدانی۔ تصویر: آئی این این
قوموں کی زندگی میں، کم کم ہی سہی، ایسے مواقع آتے ہیں جب ناممکن، ممکن بن کر مثل آفتاب درخشاں ہوتا ہے، جب مایوسی حوصلے کی قبا پہن کر جلوہ گر ہوتی ہے اور جب عام آدمی محسوس کرتا ہے کہ برسوں سے وہ بادشاہ گر تھا، مگر خود بادشاہ بن سکتا ہے۔ نیویارک سٹی میئر کے عہدہ کیلئے ظہران ممدانی کی فتح انتہائی دشوار تھی۔ یہ کوہ بیستوں سے جوئے شیر لانے کا عمل تھا مگر وہ، مروجہ سیاست سے بالاتر ہوکر عام آدمی کے حقوق اور مفاد کی بات کرتے رہے اور اس طرح عوام کو اعتماد میں لے کر بیستوں کو ہلانے اور جوئے شیر لانے میں ظفرمند ہوئے۔ یہ کامیابی امریکی ہی نہیں عالمی تاریخ میں بھی طویل عرصے تک یاد رکھی جائیگی۔ 
یہ کامیابی ظہران کی ہے نہ اُن کی پارٹی (ڈیموکریٹ) کی، یہ نیویارک کے محنت کشوں اور عام آدمیوں کی ہے، اُن کی ہے جو کئی کئی گھنٹے سفر کرکے نیویارک میں واقع اپنے دفتر پہنچتے ہیں کیونکہ دفتر کے قریب مکان خریدنا یا کرائے پر لینا اُن کی طاقت سے باہر ہے۔ یہ کامیابی اُن والدین کی ہے جو اپنے بچوں کے علاج کیلئے ہزاروں ڈالر خرچ نہیں کرسکتے۔ یہ کامیابی اُن کی ہے جن کیلئے آمد ورفت  مسئلہ ہے اور یہ کامیابی اُن کی ہے جن کیلئے لازمی اشیاء کی خریداری بڑا بوجھ ہے۔ اس کا ایک اور پہلو ہے۔ یہ کامیابی، عوام سے طاقت لینے کی نہیں عوام کو طاقت دینے کی جانب سفر ہے۔ یہ کامیابی تاریکی میں نمود ِ سحر کی مانند ہے۔
نیویارک میں منگل، ۴؍ نومبر کا سورج یہی پیغام لے کر طلوع ہوا کہ انسان ٹھان لے تو کچھ بھی ناممکن نہیں، وہ طاقتور ترین لوگوں کے خلاف جدوجہد کرکے صحرا میں پھول کھلا سکتا ہے۔ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ظہران کی مخالفت کس کس نے کی۔ صدرِ امریکہ ٹرمپ نے کی، ٹیسلا کے بانی ایلون مسک نے کی، امریکہ کی طاقتور یہودی لابی نے کی، امریکہ کی امیر ترین شخصیات نے کی اور ان کے ساتھ ساتھ اُن تمام لوگوں نے کی جنہیں اُن کا مسلمان ہونا، فلسطین نواز ہونا، اسرائیل مخالف ہونا، افریقی اور ہند نژاد ہونا، غریبوں کیلئے بولنا ، محنت کشوں کیلئے آواز اُٹھانا اور بلندی میں پرواز کی صلاحیت کا حامل ہونا بُری طرح کھٹک رہا تھا۔  
انتخابی مہم کے آغاز پر ظہران اتنے پاورفل لوگوں کے مقابلے میں کسی شمار و قطار میں نہیں تھے مگر تاریخ اسی وقت رقم ہوچکی تھی جب ڈیموکریٹ کی اُمیدواری جیت کر اُنہوں نے بڑی لکیر کھینچ دی تھی، پھر جیسے جیسے وقت گزرا وہ اس لکیر کو مزید بڑا کرتے گئے اور جب نتیجہ ظاہر ہوا تو ظہران (۵۰ء۴؍ فیصد ووٹ) کے مدمقابل اینڈریو کیومو (۴۱ء۶؍ فیصد) اور ریپبلکن اُمیدوار کرٹس سلیوا (۷؍ فیصد) بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ ظہران کی کامیابی کا راز عام آدمی کے تئیں اُن کا مخلص ہونا ہے، اُس کے حقیقی مسائل کو سمجھنا ہے، اُن مسائل کے حل کیلئے پُر عزم ہونا ہے اور اس  کوشش میں کسی سے مرعوب نہ ہونا ہے۔ اُنہوں نے روزمرہ کے اخراجات کم کرنے، کرایہ کی حد مقرر کرنے، قابل خرید مکانات کا نظم کرنے، عوامی ٹرانسپورٹ کو بہتر اور تیز رفتار بنانے اور پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کیلئے ہیلتھ کیئر اسکیم نافذ کرنے کا وعدہ کرکے اور ان سب کے ساتھ نہایت دل پزیر انداز میں سوشل میڈیا پر اختراع پسند مہم چلانے کے ذریعہ نیویارک کے شہریوں کا دل جیت لیا۔ دل جیت کر ہی اُنہوں نے الیکشن جیتا ہے۔ اب عالم یہ ہے کہ ظہران کی فتح اُن کی پارٹی ڈیموکریٹ کو بھی نئی سیاسی حکمت عملی تیار کرنے پر مجبور کریگی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK