یہ سوال سمجھنا ضروری ہے کیونکہ چین جو ہمارا پڑوسی ہے، کسی چیز کا منصوبہ بناتا ہے اور اُسے کامیابی سے ہمکنار کردیتا ہے مگر ہم منصوبے بنا تے تو ہیں، کامیاب نہیں کرپاتے۔
EPAPER
Updated: September 14, 2025, 3:04 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
یہ سوال سمجھنا ضروری ہے کیونکہ چین جو ہمارا پڑوسی ہے، کسی چیز کا منصوبہ بناتا ہے اور اُسے کامیابی سے ہمکنار کردیتا ہے مگر ہم منصوبے بنا تے تو ہیں، کامیاب نہیں کرپاتے۔
ایک امریکی اسکالر نے اپنی کتاب میں چین کے ارتقاء پر روشنی ڈالتے ہوئے اِس اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ چین کا معاشرہ انجینئروں کا معاشرہ ہے اور حکومت انجینئروں کی سرپرست۔ اس کے برخلاف امریکی معاشرہ قانون دانوں کا معاشرہ ہے۔ اس امریکی اسکالر کا نام ڈین وینگ ہے جن کا کہنا ہے کہ چینی عوام و خواص اشیاء سازی صنعت و حرفت میں مہارت رکھتے ہیں ۔ امریکہ کے پاس یہ مہارت نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ چین کی حکومت نے اپنے لئے یہی کردار منتخب کیا ہے۔ بالخصوص ۲۰۱۵ء میں اس نے ایک منصوبے کا اعلان کیا تھا جس کا نام تھا: ’’میڈ اِن چائنا ۲۰۲۵ء‘‘۔ وینگ کا کہنا ہے کہ کسی منصوبے کی کامیابی کیلئے کچھ کڑے قدم اُٹھانے پڑتے ہیں اور ہم نے دیکھا کہ شنگھائی میں حکومت ِ چین نے کتنا سخت لاک ڈاؤن لگایا تھا۔ اسی طرح حکومت ِ چین نے ایک سے زائد بچوں کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی تھی۔ مگر، ان چند باتوں سے قطع نظر، چین نے اپنی صنعتی پالیسی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے بڑی جدوجہد کی۔ اس کا نتیجہ ہیں ہائی اسپیڈ ریل، توانائی کو قابل استعمال بنانا، برقی موٹر گاڑیاں ، بحری جہاز سازی وغیرہ۔ اس کے ساتھ ہی چین نے ہوا بازی، سیمی کنڈکٹر، راکٹ اور مصنوعی ذہانت میں بھی غیر معمولی پیش رفت کو یقینی بنایا۔ان تمام شعبوں میں چین نے جو طے کیا وہ کرگزرا۔
یہ ایک دلچسپ موضوع ہے اور مضمون کے آخری حصے میں ہم اس پر لوَٹیں گے مگر اس سے پہلے آئیے ہم اپنے آپ سے دریافت کریں کہ ہم نے کیا طے کیا تھا اور کیا ہم کرگزرے؟
معیشت، روزگار، خارجہ پالیسی۔ ان تمام معاملات میں سوال یہ نہیں پوچھا جارہا ہے کہ ہم کیوں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ کوشش یہ ہورہی ہے کہ کس کو مورد الزام ٹھہرایا جائے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اِن مسائل سے ہمیں کوئی دقت نہیں ہوتی، اس لئے آئیے یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسا کیا ہے جو ہم نے کرنا چاہا اور کرگزرے: (۱) اسی ماہ راجستھان میں تبدیلیٔ مذہب سے متعلق ایک بل منظور کیا گیا۔ اس کے دو مقاصد ہیں ۔ پہلا یہ کہ ہندو اور مسلم لڑکے لڑکیوں کی شادی کو جرم قرار دیا جائے۔ دوسرا یہ کہ وہ طبقات جو حاشئے پر اور معاشی طور پر بے حد کمزور ہیں اُنہیں عیسائیت قبول کرنے سے روکا جائے۔ دیگر ریاستوں کی طرح راجستھان میں منظور کیا جانے والا بل بھی تبدیلیٔمذہب کو قانوناً جرم قرار دیتا ہے مگر اس استثنیٰ کے ساتھ کہ اگر کوئی شخص اپنے ’’اصل مذہب‘‘ یعنی باپ دادا کے مذہب کی طرف لوٹ آئے تو اس کا مذہب تبدیل کرنا جرم نہیں ہوگا۔ میرے خیال میں قارئین کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کا کیا معنی ہے۔ جب اس نوعیت کا پہلا قانون بنایا گیا تھا تب ہی اس کا معنی واضح ہوگیا تھا۔ اس نوع کا پہلا قانون اُتراکھنڈ فریڈم آف رِلیجن ایکٹ ۲۰۱۸ء تھا۔ اس کے بعد تو جیسے قطارلگ گئی اور کئی ریاستوں مثلاً ہماچل پردیش (۲۰۱۹ء)، یوپی (۲۰۲۰ء)، مدھیہ پردیش (۲۱ء)، گجرات (۲۱ء)، ہریانہ (۲۲ء) اور پھر کرناٹک (۲۲ء)نے یہ قانون بنایا۔ ان کے بعد راجستھان میں جو بل منظور ہوا اس میں ایک نئی بات ہے۔ وہ یہ کہ ہر طرح کی تشہیر و تبلیغ کو جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں کہا یہ گیا ہے کہ کسی بھی طرح کی تشہیر و تبلیغ، معلومات کی فراہمی، عقائد کا تعارف وغیرہ کا مقصد اگر لوگوں کو تبدیلیٔ مذہب کی طرف راغب کرنا ہے تو یہ جرم ہے۔
منظور ہونے والے بل کے ذریعہ سزا بھی بڑھا دی گئی ہے۔ اگر مذہب تبدیل کرنے والا شخص دلت یا ادیباسی ہے تو سزا کی میعاد ۱۴؍ سال اور ۲۰؍ سال ہوگی۔بی جے پی حکومتوں کے ذریعہ بنائے گئے اس نوع کے قوانین بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہیں مگر جہاں جہاں بھی ایسا قانون بنا وہاں وہاں کے لوگوں نے اس پر خاموشی اختیار کی اور اسے قبولیت بخشی۔ہم میں کتنے ہیں جو اس حقیقت سے واقف ہیں کہ راجستھان حکومت نے ۹؍ ستمبر کو یہ بل منظور کیا۔ ظاہر ہے کہ بیشتر لوگ واقف نہیں کیونکہ اول تو ہم ایسی خبروں کے عادی ہوگئے ہیں اور دوئم یہ کہ ٹی وی اینکر اس موضوع پر بحث نہیں کرنا چاہتے کہ اس بل کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
یہ ہے ایک مثال اس بات کی کہ حکومت نے جو طے کیا وہ کرگزری۔سیاسی طور پر ایک قانون بن جانے کے بعد اس کو بدلنا مشکل ہوجاتا ہے بالخصوص تب جب اسے سماجی طور پر قبول کرلیا گیا ہو۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایسے قوانین کے حامیوں اور مخالفین کی کی تعداد انہیں بدلنے والوں کی تعداد سے زیادہ ہوتی ہے۔
کرناٹک کا قانون جو ۱۷؍ مئی ۲۰۲۲ء کو نافذ کیا گیا۔ اس نوعیت کے دیگر قوانین کی طرح اس میں بھی شق ہے کہ اگر کوئی شخص مذہب تبدیل کرنا چاہے تو ضلع مجسٹریٹ کو ۳۰؍ دن پہلے اطلاع دے۔ مجسٹریٹ اُس عرضی کو اپنے اور تحصیلدار کے دفتر کے نوٹس بورڈ پر لگائے گا تاکہ کسی کو اس تبدیلی پر اعتراض ہو تو سامنے آئے۔ اِس ریاست میں ، مئی ۲۳ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد کانگریس نے کہا تھا کہ وہ اس قانون کو بدلے گی۔ ایک ماہ بعد (۱۵؍ جون ۲۳ء کو) ایک خبر میں بتایا گیا کہ سدرمیا کی حکومت نے تبدیلیٔ مذہب مخالف قانون واپس لے لیا۔ حقیقتاً ایسا نہیں ہوا۔ البتہ چند روز قبل (۸؍ ستمبر کو) ایسی اطلاعات ملیں کہ سدرمیا کی حکومت پروٹیکشن آف رائٹ ٹو فریڈم آف رِلیجن ایکٹ ختم کرنے پر قانونی مشورہ لے رہی ہے۔
اس کا معنی یہ ہے کہ جو قانون بنایا گیا تھا وہ اب بھی موجود ہے، نافذ ہے۔بی جے پی کے اقتدار کے دور میں یہاں بیف مخالف قانون، آزادیٔ مذہب مخالف قانون، شہریت سے متعلق قانون اور دیگر قوانین بنائے گئے کیونکہ حکمراں جماعت نے طے کیا تھا کہ یہ کام کرنے ہیں اور وہ کر گزری۔ یہ تمام قوانین تکثیریت کو ختم کرنے اور اقلیتوں کو ہدف بنانے والے ہیں ۔
معلوم ہوا کہ بی جے پی کی حکومتوں نے بہت کچھ کیا ہے ایسا نہیں کہ کچھ نہیں کیا۔ مگر ’’میڈ اِن چائنا ۲۰۲۵ء‘‘ جیسی پالیسی بنا کر اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کا کام ہم نے نہیں کیا۔ایک کام اور کیا گیا ہے وہ ہے ’’ری میک انڈیا ۲۰۲۵ء‘‘ جس کے نتیجے میں مذکورہ قوانین وجود میں آئے، وہ میڈیا پھلا پھولا جس نے حکومت سے تیکھے سوالات نہیں پوچھے اور اُس سماج کی تشکیل ہوئی جو ہمارے آس پا س ہے اور ہم جس کا حصہ ہیں ۔ یہ ایسا سماج ہے جو تب بھی نہیں بولتا جب اس کا بولنا ضروری ہوتا ہے۔