Inquilab Logo

غزہ میں نسل کشی، امریکی جامعات میں بغاوت

Updated: May 01, 2024, 1:10 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

طلبہ کے احتجاجی مظاہروں نے اسرائیل اور امریکہ کے حکمرانوں کی نیندیں اڑا دی ہیں اسی لئے ساری دنیا کو جمہوریت اور شخصی آزادی پر لیکچر دینے والے امریکی لیڈران طاقت کے ذریعہ طلبہ کی تحریک کو کچلنے پر مصر ہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

کوئی کوئی ستم ظریفی دلنشیں  بھی ہوتی ہے اور امید افزا بھی۔اس وقت امریکہ کے طول و عرض میں  ایسی ہی ستم ظریفی کا مظاہرہ ہورہا ہے۔ جس ملک کے حکمراں  اس اسرائیل کی مکمل سیاسی، سفارتی، اقتصادی اور عسکری حمایت پر مصر ہیں  جو ساڑھے چھ ماہ سے غزہ میں  فلسطینیوں  کا قتل عام کررہا ہے اسی ملک کی مشہور و معروف جامعات کے طلبہ غزہ کے مظلوم فلسطینیوں  کے ساتھ اظہار یکجہتی کی خاطراپنی حکومت سے ٹکرانے پر پر آمادہ ہوگئے ہیں ۔
 غزہ میں  دو سو دنوں  سے جاری نسل کشی رکوانے کے لئے نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں  پندرہ دن قبل جو مظاہرے شروع ہوئے تھے وہ اب امریکہ کی درجنوں  جامعات میں  پھیل چکے ہیں ۔ نیو یارک ٹائمز نے مانا کہ’’ملک بھر کی درس گاہیں  بڑھتے احتجاجات پر قابو پانے میں  ناکام‘‘ ہیں ۔مظاہرین پر پولیس کریک ڈاؤن میں  اب تک نوسو سے زیادہ طلبہ گرفتار کئے جاچکے ہیں  اور پھر بھی فلسطینی حمایتی تحریک تھمنے کا نام نہیں  لے رہی ہے۔طلبہ کے ان مظاہروں  کا امریکی معاشرے اور امریکی سیاست پر کافی اثر ہورہا ہے۔ امریکہ میں  جہاں  یہودیوں  کا طوطی بولتا ہے،رائے عامہ تیزی سے اسرائیل مخالف ہو تی جارہی ہے۔ غزہ میں  اسرائیل ڈیفنس فورسز کی درندگی کے مناظرنے امریکی طلبہ کو افسردہ بھی کیا اور برہم بھی۔ وہ چاہتے ہیں  کہ غزہ میں  نسل کشی فوراً بند کی جائے، امریکی حکومت اسرائیل کو ہتھیاروں  کی فراہمی پر پابندی لگائے اور امریکی جامعات ان تمام صنعتی اور تجارتی اداروں  کے ساتھ لین دین اور تعلقات منقطع کرلیں  جو اسرائیلی جارحیت کی حمایت اور سرپرستی کرتے ہیں ۔ یونیورسٹیوں  کے سرسبز کیمپسوں  میں  سروں  اور گلوں  میں  سفیدو سیاہ فلسطینی اسکارف (کفیہ) لپیٹے لڑکے اور لڑکیاں  خیمہ زن ہیں ، جابجا فلسطینی پرچم لہرارہے ہیں  اور گٹار پر انسانیت اور آزادی کے نغمے گائے جارہے ہیں ۔ان مظاہروں  میں  امریکہ کے انصاف اور امن پسند اساتذہ بھی جوق در جوق شامل ہورہے ہیں ۔
 امریکہ کی یونیورسٹیوں  میں  دنیا بھر کے طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ اسی لئے فلسطینی یکجہتی تحریک میں  بھی مختلف قوموں  اور نسلوں  کے نوجوان شامل ہیں ۔ کولمبیا یونیورسٹی کے دھرنے میں  کچھ ترمیم کے ساتھ جے این یو کا یہ مقبول نعرہ’’ہم کیا چاہتے ہیں ؟ فلسطین کی آزادی…چھین کے لیں  گے آزاد ی ‘‘ بھی سنا گیا۔ گرفتار شدگان میں  پرنسٹن یونیورسٹی کی ایک ہندوستانی نژاد طالبہ اچنتھیا شوالنگم بھی شامل ہے۔ امریکی طلبہ اپنے ملک میں  یا بین الاقوامی سطح پرہونے والی ناانصافی اور ظلم کے خلاف ماضی میں  بھی تحریکیں  چلا چکے ہیں ۔ ۱۹۵۰ء کے اواخر میں  سیاہ فام باشندوں  کے خلاف صدیوں  سے رائج امتیازی سلوک کے خاتمہ اور شہریوں  کے مساوی حقوق کی حصولیابی کیلئے چلائی گئی تحریک میں  بھی امریکی طلبہ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ۱۹۶۰ء کے اواخر میں  ویتنام جنگ کے خلاف ملک گیر تحریک کی شروعات بھی ا مریکہ کی جامعات سے ہی ہوئی تھی۔ اس تحریک کا خاطر خواہ اثر بھی ہوا اور ۱۹۷۳ء میں  رچرڈ نکسن کو جنگ بند کرنے اورویت نام سے افواج کے انخلا کا اعلان کرنا پڑا۔ 
امریکہ میں  جمہوریت، شہری حقوق اور اظہار آزادی رائے کی جڑیں  اتنی گہری اور مضبوط ہیں  کہ کوئی شہری حکومت کی کسی بھی پالیسی پر نہ صرف تنقید کرسکتا ہے بلکہ ملک کے صدر کو اس کے منہ پر کھری کھوٹی بھی سناسکتا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کی اسرائیل کی اندھی حمایت سے امریکی شہریوں  کا ایک بڑا طبقہ اس قدر ناراض ہے کہ صدر انتخابی مہم میں  حصہ لینے جہاں  جارہے ہیں  عوامی ناراضگی ان کا تعاقب کررہی ہے۔ ۸۱؍ سالہ بائیڈن کو ایسے ایسے تضحیک آمیز القابات سے نوازا جارہا ہے جن کا انہوں  نے تصور بھی نہیں  کیا ہوگا۔ غزہ کی نسل کشی میں  نیتن یاہو کی پشت پناہی کرنے کے سبب اینٹی وار مظاہرین نے بائیڈن کو ایک نیا نام دیا ہے: "Genocide Joe"
طلبہ کے احتجاجی مظاہروں  نے اسرائیل اور امریکہ کے حکمرانوں  کی نیندیں  اڑا دی ہیں ۔ ان مظاہروں  نے انہیں  ساری دنیا کے سامنے برہنہ کردیا ہے۔اسی لئے ساری دنیا کو جمہوریت اور شخصی آزادی پر لیکچر دینے والے امریکی لیڈران دیرینہ امریکی جمہوری اقدار کو فراموش کرکے طاقت کے ذریعہ طلبہ کی تحریک کو کچلنے پر مصر ہیں ۔ امریکی یونیورسٹیوں  میں  پولیس کریک ڈاؤن شاید اتنے بڑے پیمانے پر نہیں  ہوا ہوتا اگر اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے فلسطینیوں  سے یکجہتی میں  ہونے والے مظاہروں  پر اتنا سخت ردعمل نہ ظاہر کیا ہوتا۔ نیتن یاہو نے احتجاجی طلبہ کو’’یہود مخالف ہجوم‘‘ (anti-Semitic mob) بھی قراردیا اور نازیوں  سے ان کا موازنہ بھی کردیا۔ یاد رہے کہ فلسطین کی آزادی کے لئے یہ مظاہرے ہاورڈ، ییل، ایم آئی ٹی اور کولمبیا جیسی معروف یونیورسٹیوں  میں  ہورہے ہیں  اور مظاہرین بھی کوئی للو پنجو نہیں  بلکہ شاندار تعلیمی ریکارڈ رکھنے والے دنیا بھرکے ذہین ترین لڑکے لڑکیاں  ہیں ۔صہیونیوں  اور ان کے مغربی دلالوں  کا یہ دیرینہ حربہ رہاہے کہ وہ اسرائیل کی انسانیت سوز پالیسیوں  پر کی جانے والی تنقید پر یہودی دشمنی کا واویلا شروع کرکے اپنے نکتہ چینوں  کی زبان بند کروادیتے ہیں ۔ لیکن اس بار امریکی دانشور اور سیاستداں  ریاست کے اس جعلی بیانیہ کی دھجیاں  اڑارہے ہیں ۔ سینیٹر برنی سینڈرس جیسے سیکڑوں  معروف امریکی اشخاص اسرائیلی وزیر اعظم کی طلبہ کی تحریک کو بدنام کرنے کی کوشش کا منہ توڑ جواب دے رہے ہیں ۔ سینڈرس نے جو خود یہودی ہیں  نیتن یاہو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:’’ غزہ میں  تمہاری شدت پسند حکومت کی کالی کرتوتوں  کیلئے تمہیں  ذمہ دار ٹھہرانا یہود دشمنی نہیں  ہے۔ ‘‘
 میرا سوال یہ ہے کہ’’ فلسطینیوں  کی نسل کشی‘‘ بند کرو کا مطالبہ کرتے ہوئےکیا یہ امریکی طلبہ ’’یہودیوں  کا قتل عام‘‘شروع کرو کا نعرہ بلند کررہے ہیں ؟ سوال یہ بھی ہے کہ فلسطین کو آزادی دینے کا مطالبہ کرتے وقت کیا یہ طلبہ اسرائیل کی آزادی چھین لینے کے عزم کا اظہار کررہے ہیں ؟ اگر دونوں  سوالوں  کا جواب نفی میں  ہے تو یہ واضح ہے کہ امریکی طلبہ کی جنگ مخالف تحریک anti-semiticنہیں  ہے۔ ان مظاہروں  میں  ہزارو ں  یہودی لڑکے لڑکیاں  بھی شامل ہیں  تو آخیر یہ anti-semitic کیسے ہوسکتے ہیں ؟ ۱۹۶۸ء میں  ویتنام جنگ کے خلاف امریکہ میں  ملک گیر تحریک کا آغاز کولمبیا یونیورسٹی سے ہی ہوا تھا۔ طلبہ کے احتجاج نے اقتدار کے ایوانوں  کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ حالانکہ حکومت نے تحریک کو کچلنے کیلئے جامعات میں  فوج بھیج دی اور ہزاروں  مظاہرین کو گرفتار بھی کیا تاہم بعد میں  اسے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ ساٹھ سال قبل طلبہ کی تحریک نے امریکہ کی تاریخ کا رخ موڑ دیا تھا۔ کیا تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرانے والی ہے؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK