رواں برس آر ایس ایس کے صدر موہن بھاگوت نے مسلمانوں کو راغب کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مسلمان اس ملک کے وفادار باشندے ہیں۔
EPAPER
Updated: September 12, 2025, 1:52 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai
رواں برس آر ایس ایس کے صدر موہن بھاگوت نے مسلمانوں کو راغب کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مسلمان اس ملک کے وفادار باشندے ہیں۔
اس سال وجے دشمی پر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ قائم ہوئے ۱۰۰؍ سال مکمل ہوجائیں گے۔ اس وقت سنگھ کی قیادت موہن بھاگوت جی کر رہے ہیں ۔ انہوں نے اس سال کئی ایسی باتیں کہی ہیں جو پہلے نہیں کہی گئی تھیں ۔ مدرسوں میں گئے ہیں ، طلباء سے ملے ہیں ، ائمہ اور علماء سے ملاقات کی ہے۔ اچھا کیا ہےمگر بنیادی بات یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے یا زندگی کے ہر شعبے میں اپنی ہمنوائی کرنے والے کو بڑھاوا دے کر وہ مسلمانوں کا اعتماد نہیں جیت سکتے۔ ان کو چاہئے کہ کچھ معاملات میں اپنی سوچ کو صاف کریں اور سب کے ساتھ انصاف کو اپنی کارکردگی کا حصہ بنائیں ۔ اگر کچھ لوگوں کی ہمنوائی سے مسلمانوں کا اعتماد جیت سکنا ممکن ہوتا تو سنگھ یہ کام کر چکا ہوتا کہ بڑی تعداد میں مسلم صحافی، ائمہ مساجد، علماء اور سیاستداں اس کیلئے کام کر رہے ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ سنگھ تسلیم کرے کہ مسلمان اس ملک کے وفادار باشندے ہیں ۔ ان کی ہمدردی کسی دہشت گرد یا تخریب پسند یا علاحدگی پسند تنظیم کے ساتھ نہیں ہے۔ ہر مسلمان چاہتا ہے کہ ملک دشمنی کا ارتکاب کرنے والوں کے ساتھ سخت سلوک کیا جائے مگر ملک دشمنی کا ارتکاب کس نے کیا ہے؟ اس کا فیصلہ ایمانداری کی بنیاد پر ہو۔
حال ہی میں محترم نے دہلی میں لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ میں نہیں کہتا کہ خود کو ’ہندو‘ کہو مگر اس بات کو سمجھو کہ بھارت کے ہندوؤں اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہے۔ اسلام تو کہتا ہے کہ ساری دنیا کے انسان چاہے کالے ہوں یا گورے، دراز قامت ہوں یا پستہ قامت، امریکی ہوں یا افریقی، برہمن ہوں یا دلت سب حضرت آدمؑ کی اولاد ہیں ۔ پیشہ، عہدہ، رنگ، نسل کی بنیاد پر کوئی بڑا چھوٹا نہیں بلکہ محترم اور نامحترم ہونا تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ ایمان و تقویٰ کی شرط کے ساتھ ابو جہل کی اولاد بھی محترم ہے۔ یہ مذہب اسلام نہیں ذہنی تعصبات و تحفظات ہیں جو انسانی وحدت اور ملکی وحدت کو ممکن ہونے سے روکتے ہیں مثال یہ ہے کہ عالمی منشور ۱۰؍ دسمبر ۱۹۴۸ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی منظور کر چکی تھی مگر مارچ ۱۹۶۵ء میں سلیمیٰ سے مونٹگمری تک ۸۰؍ کلو میٹر امریکہ کے سیاہ فام عوام نے مارچ کیا کہ انہیں برابری کا حق دیا جائے۔ ہندوستانی یا بھارتی مسلمان تو ہمیشہ سے کہتے رہے ہیں کہ اس دھرتی سے وفا داری اور دھرتی پر رہنے والوں کی خیرخواہی ہمارے خون میں شامل ہے۔ بس ان کو وفا داری کی ایسی صورتوں کو اختیار کرنے پر نہ مجبور کیا جائے جو شرک یا توہین رسالت کے زمرے میں آتی ہیں ۔ یہ کون سا مشکل معاملہ ہے۔ ان سے کہا جاسکتا ہے کہ تم پورے پورے مسلمان رہو مگر ملک اور ملک والوں سے محبت و وفاداری برقرار رکھو۔ سارا معاملہ اس لئے بگڑتا ہے کہ دیش پریم کو شرک و توہین رسالت سے جوڑا جاتا ہے۔
میں نے عام مسلمانوں سے بات کی۔ سب نے کہا کہ موہن بھاگوت جی نے اچھا کیا کہ ہر مسجد، درگاہ اور عبادت گاہ کے نیچے مورتی نہ تلاش کرنے کی بات کہی مگر وہ یہ کیوں نہیں محسوس کرتے کہ موجودہ دور میں مساجد و مقابر پر جس طرح حملے کئے جا رہے ہیں یا گائے اسمگلنگ کے شبہ میں مسلمانوں کو زندہ جلایا جا رہا ہے ویسا ہندوستان کی تاریخ کے کسی بھی دور میں نہیں ہوا تھا۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ منتظر ہیں کہ بھاگوت جی بیان دیں کہ مساجد و مقابر کے تحفظ میں ان کی جماعت مسلمانوں کا ساتھ دے گی۔ مسلمان ہندوستانی ہیں تو مریں گے بھی، اور مریں گے تو دفن بھی کئے جائیں گے، میں نے تو غیر مسلم ہندوستانیوں کو بھی دیکھا ہے کہ وہ مسلمان کا جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ مسلمانوں نے بھی ایسی مثالیں پیش کی ہیں ۔ ممبئی کے جمعہ مسجد ٹرسٹ نے غیر مسلموں کی آخری رسوم بھی انجام دی ہیں ۔ تو پھر قبرستانوں کے بارے میں شوشے کیوں چھوڑے جاتے ہیں ۔
بھاگوت جی اور سنگھ کے دوسرے ذمہ داروں سے ایک درخواست یہ بھی ہے کہ وہ بشمول مسلمان ان لوگوں پر گہری نظر رکھیں جو اپنے فائدے کے لئے سنگھ کو ادھوری یا غلط خبریں مہیا کرتے ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ اب مسلمان کسی شخصیت کے کہنے پر نہیں چلتا، وہ رواداری اور اصولوں پر چلتا ہے۔ ایسے اصولوں پر جو ملک اور دنیائے انسانیت کے حق میں ہوں ۔ اس کو معلوم ہے کہ اسلام پُرامن بقائے باہمی کا داعی ہے اور مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کو ہی غلط نہیں قرار دیتا بلکہ ساتھ میں رہ رہے غیر مسلموں پر ظلم و زیادتی کو بھی ناجائز ٹھہراتا ہے۔ معبودان باطل کے بارے میں بھی سورہ الانعام کی آیت (۱۰۸) ہے۔ اس کی تفسیر میں فخرالدین رازی نے لکھا ہے کہ بے جان بتوں پر سب و شتم کرنا بے سود ہے ان کی الوہیت سے انکار کرنے کے لئے اتنا کہہ دینا بھی کافی ہے کہ وہ محض جمادات ہیں جن میں نفع نقصان پہنچانے کی صلاحیت نہیں ہے۔
اکثر یہ بات سنی جاتی ہے کہ آر ایس ایس یا سنگھ پریوار کی سوچ بدل رہی ہے Bunch of Thoughts میں لکھی ہوئی کافی باتوں سے بھی اس کو اتفاق نہیں رہ گیا ہے۔ ممکن ہے ایسا ہو مگر اس کا اظہار ہونا چاہئے خاص طور سے مولانا آزاد، عطاء اللہ شاہ بخاری، حسین احمد مدنی اور تقسیم ہند کی مخالفت کرنے والے دیگر مسلم رہنماؤں کے بارے میں اپنی سوچ واضح کرنا چاہئے۔ حسرت موہانی کے بارے میں بھی سوچ واضح کرنا چاہئے جو مسلم لیگ میں رہے مگر پاکستان نہیں گئے۔ ہندوستان میں رہنے والا ہر مسلمان تقسیم کا مجرم یا پاکستان کا ہمنوا نہیں ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ سنگھ پریوار کا بھی مخالف نہیں مگر سنگھ پریوار سارے مسلمانوں کو ایک چھڑی سے ہانکتی ہے۔ جب تک یہ رویہ ختم نہیں ہوگا مسلمان سنگھ پریوار سے رشتہ نہیں جوڑیں گے۔ یہ سطور خیر خواہی اور خیر سگالی کے جذبے سے لکھی گئی ہیں ان کو اظہار دشمنی نہ سمجھا جائے اور ان پر خصوصی نظر رکھی جائے جو اپنے فائدے کیلئے سنگھ کو مسلمانوں کے خلاف ورغلاتے ہیں ۔