وزارتِ ثقافت کے ہدایت نامہ میں کہا گیا کہ جب تک تنظیمِ نو کیلئے منظوری نہیں مل جاتی، وزارت کی پیشگی اجازت کے بغیر کسی بھی ایوارڈ کا اعلان نہ کیا جائے۔
EPAPER
Updated: December 19, 2025, 8:01 PM IST | New Delhi
وزارتِ ثقافت کے ہدایت نامہ میں کہا گیا کہ جب تک تنظیمِ نو کیلئے منظوری نہیں مل جاتی، وزارت کی پیشگی اجازت کے بغیر کسی بھی ایوارڈ کا اعلان نہ کیا جائے۔
انگریزی روزنامہ ’دی ہندو‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، قومی ساہتیہ اکادمی نے مرکزی وزارتِ ثقافت کی جانب سے موصول ہونے والی ایک ہدایت کے بعد اپنے سالانہ ادبی ایوارڈز کے اعلان کیلئے طے شدہ پریس کانفرنس جمعرات کو منسوخ کر دی۔ آخری لمحات میں کئے گئے اس فیصلے نے ملک کے اعلیٰ ترین ادبی ادارے کے کام کاج میں حکومتی مداخلت کے متعلق خدشات کو جنم دیا ہے۔
واضح رہے کہ ہندوستان کی قومی ادبی اکیڈمی کی جانب سے ۲۴ ہندوستانی زبانوں میں بہترین ادبی کتابوں کو سالانہ ایوارڈز میں اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔ دہلی میں اکادمی کے ایگزیکٹیو بورڈ کے اجلاس کے بعد ایوارڈز کے اعلان کیلئے دوپہر ۳ بجے ایک پریس کانفرنس طے تھی، لیکن اس کے شروع ہونے سے چند منٹ پہلے ہی اسے منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ اس کے بعد ایوارڈز کا پورا عمل تعطل کا شکار ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ’’اقلیتوں کے اندر اپنے حقوق کے تئیں بیداری پیدا کرنا بے حد ضروری ہے ‘‘
وزارتِ ثقافت کی مداخلت اور اس کے پیچھے ممکنہ وجوہات
’دی ہندو‘ کے مطابق، وزارتِ ثقافت کی جناب سے اکادمی کو جاری کردہ ہدایت نامہ میں ایوارڈز کی ’تنظیمِ نو‘ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس نوٹ میں ۲۶-۲۰۲۵ء کیلئے وزارت اور اکادمیوں کے درمیان طے پانے والے ایک مفاہمتی معاہدے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ایوارڈز میں کسی بھی قسم کی تبدیلی یا تنظیمِ نو کیلئے وزارت سے مشاورت ضروری ہے۔
وزارت کے ہدایت نامہ میں مزید کہا گیا کہ جب تک تنظیمِ نو کیلئے منظوری نہیں مل جاتی، وزارت کی پیشگی اجازت کے بغیر کسی بھی ایوارڈ کا اعلان نہ کیا جائے۔ ایسی ہی ہدایات وزارت کے تحت دیگر ۳ خود مختار اداروں سنگیت ناٹک اکادمی، للت کلا اکادمی اور نیشنل اسکول آف ڈراما کو بھی بھیجی گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: کرناٹک میں نفرت انگیز تقریر اب غیر ضمانتی جرم
ادبی حلقوں اور اپوزیشن کا شدید ردعمل
وزارت کے نامعلوم حکام نے’دی ہندو‘ کو بتایا کہ پریس کانفرنس وزارت کو بتائے بغیر منعقد کی گئی تھی اور انتخابی عمل کو ابھی رسمی منظوری نہیں ملی تھی۔ تاہم، اکادمی کے ایگزیکٹیو بورڈ کے ایک رکن نے ’دی ٹیلی گراف‘ کو بتایا کہ وزارت کے نمائندے کی جانب سے ایوارڈ یافتگان کے ناموں پر نظر ثانی کی تجویز کو مسترد کر دیا گیا تھا کیونکہ بورڈ کے اراکین کا کہنا ہے کہ فاتحین کی جانچ پڑتال میں وزارت کا کوئی کردار نہیں ہے۔
ماٹربھومی کی رپورٹ کے مطابق، ممتاز مصنف اور اکادمی کے ایگزیکٹو بورڈ کے رکن کے پی رامانُنی نے کہا کہ ادبی ادارے کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی منسوخی ہے۔ انہوں نے ایوارڈز کے عمل کو ملتوی کرنے کے فیصلے کو ”بدقسمتی پر مبنی“ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھئے: منریگا کی منسو خی پر لوک سبھا کی مہر،بل منظور
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے جنرل سیکریٹری ایم اے بے بی نے سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی ”افسوسناک اور قابلِ ملامت“ بات ہے کہ ساہتیہ اکادمی نے اپنے ایوارڈز کی سفارشات مرکزی حکومت کو بھیجی ہیں۔ سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ میں ایم اے بیبی نے مزید کہا کہ ”اکادمی جیسے خود مختار ادارے کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ وہ برسراقتدار قوتوں کے سامنے جھک رہا ہے اور ان سے منظوری مانگ رہا ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ”شرمناک“ ہے کہ اکادمی، جو اس وقت مستقل سیکریٹری کے بغیر چل رہی ہے اور حکومت کی اجازت کیلئے گھٹنوں کے بل گری ہوئی ہے، جو اس کے جلیل القدر بانیوں کے وِژن کے ساتھ غداری ہے۔ واضح رہے کہ اکتوبر سے وزارتِ ثقافت کا ایک ڈائریکٹر کی سطح کا افسر، قائم مقام ممبر سیکریٹری کے طور پر فرائض انجام دے رہا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ریٹائرمنٹ سے قبل غیر معمولی عدالتی احکامات: چیف جسٹس نے تشویش ظاہر کی
بے بی نے وزیراعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ اور آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کو براہِ راست نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ میں مودی، شاہ اور بھاگوت کے `تثلیث` کی کوششوں کی شدید مذمت کرتا ہوں جو ہندوستان کے ثقافتی اداروں کو اپنے اشاروں پر نچانا چاہتا ہے۔ وہ تمام لوگ جو ادب سے محبت کرتے ہیں، انہیں اظہارِ رائے کی آزادی پر اس حملے کے خلاف متحد ہو کر مزاحمت کرنی چاہئے!“