اب تک کی انتخابی مہم میں ظہران ممدانی نے بھرپور ذہانت و صلاحیت اور اس سے بھی بڑھ کر جرأت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ۴؍نومبر کو میئر الیکشن کا نتیجہ ظاہر ہوگا۔
اگر سب کچھ ٹھیک رہا (اور یہ کالم نگار چاہتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہی رہے) توعنقریب گجراتی باپ اور پنجابی ماں کا بیٹا دُنیا کا سب سے مشہور شہر فتح کرلے گا۔ ظہران ممدانی نے جون میں ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی جیتی تھی اور اُمید کی جارہی ہے کہ وہ ۴؍ نومبر کو نیویارک کا میئر انتخاب بھی جیت لیں گے۔
مگر یہ میرا موضوع نہیں ہے بلکہ مَیں اس سے متعلقہ ایک اور بات کی جانب آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔ وہ یہ ہے کہ ظہران نے انتخابی مہم کس طرح چلائی اور کس طرح اپنے مد مقابل کو پیچھے چھوڑا۔ اس سال جنوری میں عالم یہ تھا کہ اُن کی حمایت میں ایک فیصد ووٹ تھے مگر جون تک تصویر یکسر بدل گئی اور اُنہوں نے پرائمری کا ۴۳؍ فیصد جیت لیا۔ (واضح رہے کہ یہ ابتدائی الیکشن ڈیموکریٹک پارٹی کا اُمیدوار طے کرنے کیلئے تھا )۔ اب جو انتخابی سروے آرہے ہیں اُن کے مطابق وہ ۵۰؍ فیصد ووٹ حاصل کرلیں گے۔ ایسے تجزیئے کو امریکی، قیاس آرائی قرار دیتے ہیں اور آج اس کالم میں قیاس آرائی ہی کا سہارا لیا جائے گا چنانچہ سب سے پہلے نیویارک شہر کی آبادی کی نوعیت پر غور کیجئے۔ اس شہر میں ساڑھے تین لاکھ وہ لوگ ہیں جو لکھ پتی (ملینئرس) ہیں ۔ ۱۲۳؍ افراد ارب پتی (بلینئرس) ہیں ۔ جس شہر میں وال اسٹریٹ (امریکہ کا تجارتی مرکز) واقع ہو وہاں اتنا تو ہو ہی سکتا ہے۔ لیکن اسی شہرکی ایک چوتھائی آبادی غربت کا شکار ہے ۔ وہاں غربت کو جانچنے کا پیمانہ یہ ہے کہ چار افراد کا ایک خاندان سالانہ ۴۷؍ ہزار ڈالر سے کم کماتا ہو۔ نیویارک میں ایسے لوگوں کی تعداد ۲۰؍ لاکھ ہے۔
ممدانی نے انتخابی مہم کی شروعات میں اسی معاشی مسئلہ کو اُجاگر کیا مگر یہ ایسا مسئلہ نہیں تھا جس پر ایک حد سے زیادہ زور دیا جاسکتا تھا۔ معلوم ہوا کہ رائے دہندگان کے نزدیک جرائم اور تحفظ زیادہ اہم مسائل ہیں ۔ اُن کے مخالفین انہی مسائل پر گفتگو کررہے تھے۔ تب ممدانی نے تین بنیادی حل پر گفتگو شروع کی: (۱) اپارٹمنٹس کا کرایہ (۲) بچوں کا ۵؍ سال کی عمر تک مفت علاج و معالجہ، اور (۳) بس کا مفت سفر۔ ممدانی نے ان موضوعات کے ساتھ ایک سال پہلے اپنی مہم کا آغاز کیا تھا اور اب تک وہ انہی موضوعات سے بحث کررہے ہیں یعنی ان پر قائم ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
ان کی اب تک کی فتوحات کا دوسرا راز یہ ہےکہ اُنہوں نے حامی رضاکاروں کی ایسی فوج تیار کی جو اُن کے پیغام کو پُرجوش طریقے سے عام کررہی ہے۔ جون میں ان رضاکاروں کی مجموعی تعداد ۵۰؍ہزار تھی جن میں سے ۳۰؍ ہزار وہ تھے جنہوں نے گھر گھر دستک دینے، عوامی مقامات پر لوگوں سے ملاقات کرنے، سرمایہ اکٹھا کرنے کیلئے فون کرنے کی مہم اور نئے رضاکاروں کی شمولیت کیلئے دستخطی مہم چلانے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اکتوبر کے اخیر تک رضاکاروں کی تعداد دُگنا ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی معمولی تعداد نہیں ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں ۔ ایک: ممدانی کی سیاسی رہائش گاہ واقع نیویارک ڈیموکریٹک سوشلسٹسآف امریکہ (ڈی ایس اے)۔ یہ ایسا گروپ ہے جس نے انتخابات میں حصہ لینے کی ابتداء محض دس سال پہلے کی ہے مگر اس کی ساکھ بہت مضبوط ہے کیونکہ اس کی توجہ ملازمت پیشہ لوگوں پر مرکوز رہتی ہے اور وہ اس سے منحرف نہیں ہوتے۔ ڈی ایس اے نے سابقہ انتخابات میں جتنے رضاکاروں کو مامور کیا تھا، ممدانی نے اُس تعداد میں قابل ذکر اضافہ کیا ہے۔ اُن کی انتخابی مہم میں پُرجوش طریقے سے شامل رہنے والوں میں سب نوجوان ہیں جن کی عمریں ممدانی کی عمر (۳۴؍ سال) سے بھی کم ہیں ۔ انہیں اتنے بڑے الیکشن کا تجربہ نہیں ہے اس کے باوجود ان کی کارکردگی ثابت کر رہی ہے کہ وہ انتخابی مشورے دینے اور مہم چلانے والے تجربہ کار پروفیشنلس یا ماہرین سے زیادہ فعال اور کارآمدہیں ۔
ممدانی کی اپنی شخصیت بھی نیویارک کے عوام کی خصوصی توجہ کا مرکز بنی بالخصوص اُن کی جرأت اور اس کے سبب دوٹوک اعلان کہ وہ مسلمان ہیں ۔ نائن الیون کے بعد جس شہر میں اسلاموفوبیا موضوع بحث رہا ہو وہاں یہ کہنا کہ ہاں مَیں مسلمان ہوں اور نیویارک کے شہریوں کا میئر بننے کا خواہشمند ہوں ، جرأت نہیں تو اور کیاہے۔ اس شہر کی آبادی میں ۴۰؍فیصد وہ لوگ ہیں جن کی ولادت امریکہ میں نہیں ہوئی۔ یہاں خاصی تعداد مسلمانوں کی بھی ہے اور جنوبی ایشیائی تارکین وطن کی بھی،جو اِس الیکشن میں ممدانی کے ساتھ کھڑے ہیں ۔
اسے شخصیت کا جادو ہی کہنا چاہئے کہ ممدانی نیویارک میں رہنے والے ہر طبقہ کے لوگوں کو رجھانے میں کامیاب ہیں ۔ ان میں نوجوان یہودی بھی شامل ہیں ۔ جس انداز میں ممدانی نے سوشل میڈیا مہم چلائی، وہ آنے والے کئی برسوں تک سوشل میڈیا پر انتخابی مہم چلانے کیلئے مثال یا نمونہ ثابت ہوگی۔ لوگوں نے اس کی نقل تو کرنی شروع کی ہے مگر اس میں ندرت نہیں ہے، یہ بھونڈی نقل ہے کیونکہ جو لوگ نقل کررہے ہیں اُن میں ممدانی جیسی صلاحیت نہیں ہے کہ مہم انتخابی بھی رہے اور تفریحی بھی لگے۔ اسی لئے امریکی ماہرین اُنہیں ’’خوش و خرم سپاہی‘‘ کہتے ہیں ۔
میرے خیال میں ، یہی خصوصیات ممدانی کی کامیابی کی بنیاد بنیں گی اور زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ ۴؍ نومبر کو جب نتائج سامنے آئینگے تو ان کی اب تک کی کامیابی پر حتمی کامیابی کی مہر لگ جائیگی۔اگر واقعی ایسا ہوا تو اس کی وجہ سے امریکیوں کا اسرائیل کے تئیں نظریہ بدل سکتا ہے جو نسل پرستی اور نسلی صفائے پر یقین رکھتا ہے۔ اس ممکنہ تبدیلی کی جڑیں سیاست میں پیوست نہیں ہیں کیونکہ امریکہ میں اسرائیل نواز طبقہ کافی طاقتور ہے اور اُمیدوار کی راہ کو آسان اور ہموار نہیں رہنے دیتا۔ ممدانی اس طبقے کے اشتعال انگیز اور خطرناک حملوں کا مقابلہ کرچکے ہیں ۔ اُن کے مخالف کا سب سے بڑا ہتھیار یہی تھا کہ ممدانی کو متعصب، یہود مخالف یا جہادی کہیں ۔ اُن پر اس نوع کے حملے اب بھی جاری ہیں لیکن اب ان میں اتنی دھار نہیں ہے جتنی چند سال پہلے ہوسکتی تھی۔ اس کی وجہ ممدانی کی جرأت مندی ہے۔ اگر اسی جرأت کے ساتھ جنگ جیت لی گئی تو ایک گجراتی و پنجابی کی یہ فتح امریکہ کو نئی سمت عطا کرنے کے قابل ہوگی ۔