• Fri, 24 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بہار میں انڈیا اتحاد کی رسہ کشی کے نتائج؟

Updated: October 24, 2025, 2:01 PM IST | Dr. Mushtaq Ahmed | mumbai

درحقیقت حالیہ دنوں میں کانگریس پارٹی میں یہ روش عام ہوئی ہے کہ ریاستی کانگریس کے نگراں کے طورپر دوسری ریاستوں کے کانگریس لیڈروں کو کمان تھمائی جاتی ہے جنہیں ریاست کی زمینی حقیقت سے کوئی واقفیت نہیں ہوتی۔

INN
آئی این این
بہار قانون ساز اسمبلی انتخاب کی تاریخ کے اعلان سے پہلے ہی یہ اندیشہ ظاہر ہونے لگا تھا کہ ریاست میں  قومی جمہوری اتحاد اور عظیم اتحاد جسے اب انڈیا اتحاد بھی کہا جاتا ہے، کے درمیان بالواسطہ مقابلہ ہوگا لیکن انڈیا اتحاد شاید متحد نہیں  رہ سکے۔اب جبکہ پہلے مرحلے کی پولنگ کے حلقوں  میں  پرچۂ نامزدگی کی تاریخ ختم ہو چکی ہے تو یہ تلخ حقیقت عیاں  ہو چکی ہے کہ انڈیا اتحاد نے ریاست کے ایسے لوگوں  کی امیدوں  پر پانی پھیر دیا ہے جو موجودہ بر سراقتدار جماعت کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی جد وجہد کر رہے تھے۔واضح ہو کہ بہار اسمبلی انتخاب کے لئے انتخابی کمیشن نے دو مرحلوں  میں  انتخابی عمل کو پورا کرنے کا اعلامیہ جاری کیا ہے اس کے مطابق پہلے مرحلے کی پولنگ ۶؍ نومبر کو ہوگی اس لئے پہلے مرحلے کے لئے پرچۂ نامزدگی کی آخری تاریخ ۱۷؍ اکتوبر تھی۔یوں  تو قومی جمہوری ا تحاد یعنی این ڈی اے کے درمیان بھی سیٹوں  کی تقسیم کو لے کر آخری وقت تک رسہ کشی جاری رہی لیکن بالآخر ان کے درمیان سیٹوں  کی تقسیم کو حتمی شکل دے دی گئی اور جیتن رام مانجھی، اوپندر کشواہا کے ساتھ چراغ پاسوان بھی اتحادیوں  کے امیدواروں  کی کامیابی کے لئے اتحاد کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں ۔جبکہ عظیم اتحاد جس میں  راشٹریہ جنتا دل، کانگریس اور بایاں  محاذ کی سی پی آئی، سی پی آئی ایم اور سی پی آئی (ایم ایل )کے ساتھ ساتھ مکیش سہنی کی قیادت والی وکاس شیل انسان پارٹی شامل ہیں ، ان کے درمیان پہلے مرحلے کی پرچۂ نامزدگی کی تاریخ ختم ہونے کے بعد بھی سیٹوں  کی تقسیم کا مسئلہ حل نہیں  ہو سکا۔
سب سے المناک پہلو تو یہ رہا کہ ان اتحادیوں  نے ایک دوسرے کے امیدوارو ں  کے خلاف بھی امیدوار کھڑے کر دئیے ہیں ۔ ایک طرف راشٹریہ جنتا دل کا موقف ہے کہ سیٹوں  کی تقسیم میں  قدرے تاخیر اور حتمی فیصلہ نہیں  ہونے کی وجہ کانگریس ہے جب کہ کانگریس کا کہنا ہے کہ راشٹریہ جنتا دل نے کانگریس قیادت کی لاکھ کوششوں  کے بعد سیٹوں  کی تقسیم پر رضا مندی نہیں  دی اور جس کے نتیجے میں  اس طرح کی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔درحقیقت جس بات کا اندیشہ تھا کہ انڈیا اتحاد میں  سی پی آئی (ایم ایل )اور وکاس شیل انسان پارٹی سیٹوں  کی تعداد کو لے کر جس طرح کے ضد پر اڑی ہوئی ہے اس سے اتحادیوں  کے درمیان رسّہ کشی کا ماحول ختم ہونے والا نہیں  ہے اور نتیجہ بھی یہی ہو ا کہ انڈیا اتحاد نے ایک دوسرے کے خلاف مورچہ کھول رکھا ہے۔ دراصل کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل میں  جس طرح امیدوار بدلنے کی رفتار رہی اس سے بھی اتحاد کو نقصان پہنچا ہے۔اگر راشٹریہ جنتا دل نے اپنی ایک سیٹ کے لئے آخری وقت تک امیدوار بدلا تو کانگریس کا فیصلہ بھی افسوسناک رہا جس کا خاطر خواہ فائدہ قومی جمہوری اتحاد کو مل سکتا ہے۔واضح ہو کہ امیدواروں  کی تبدیلی کا سلسلہ پرچۂ نامزدگی کے آخری لمحے تک ہوتا رہا جس سے عوام الناس میں  ایک عجیب طرح کی کشمکش کا ماحول پیدا ہوگیاہے۔مثلاً شمالی بہار کے دربھنگہ ضلع کے جالے اسمبلی حلقہ میں  کانگریس نے ایک مسلم امیدوار کو ٹکٹ دے دیا تھا لیکن پرچہ نامزدگی کے آخری وقت میں  امیدوار تبدیل کردیا گیا اور ایک ایسے امیدوار کو کانگریس نے ٹکٹ دیا جو ٹکٹ ملنے تک اس پارٹی کا ممبر بھی نہیں  تھا۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ وہ امیدوار محض ایک گھنٹہ پہلے تک کانگریس کے ذریعہ دئے گئے مسلم امیدوار کے خلاف زہر فشانی کر رہا تھا لیکن کانگریس نے اسے نہ صرف ٹکٹ تھما دیا بلکہ پرچۂ نامزدگی سے پہلے اسے پارٹی کا ممبر بنایا گیا۔ اب اس اسمبلی حلقے کے ایسے ووٹر جو انڈیا اتحاد کے لئے مہینوں  سے جد وجہد کر رہے تھے وہ سب خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں ۔اسی طرح دربھنگہ کے گورا بورام اسمبلی حلقہ سے ایک مسلم امیدوار کو راشٹریہ جنتا دل نے ٹکٹ دیا اور اس نے پرچہ بھی داخل کردیا لیکن پرچہ نامزدگی کے وقت خاتمہ کے محض ایک گھنٹہ پہلے یہ سیٹ مکیش سہنی کی وکاس شیل انسان پارٹی کے حصے میں  دے کر راجد نے اپنے ایک طاقتور امیدوار کو میدان سے الگ کردیا۔بہار کے دیگر حصوں  میں  بھی اسی طرح کی افراتفری دیکھنے کو ملی اور پوری ریاست میں  یہ چہ می گوئیاں  ہو رہی ہیں  کہ مبینہ طورپرکانگریس ا ور راشٹریہ جنتا دل کے امیدواروں  کے انتخاب میں  خرید وفروخت کا ماحول رہا ہے۔درحقیقت حالیہ دنوں  میں  کانگریس پارٹی میں  یہ روش عام ہوئی ہے کہ ریاستی کانگریس کے نگراں  کے طورپر دوسری ریاستوں  کے کانگریس لیڈروں  کو کمان تھمائی جاتی ہے جنہیں  ریاست کی زمینی حقیقت سے کوئی واقفیت نہیں  ہوتی اور وہ مبینہ طورپر ایسے امیدواروں  کومیدان میں  اتارنے کی سفارش کرتے ہیں  جن کا اپنے اسمبلی حلقے میں  تو کوئی وجود نہیں  ہوتا البتہ وہ پارٹی کے مبینہ بڑے لیڈران اور ریاستی نگراں  کی نظر میں  پسندیدہ ہوتے ہیں ۔ اس کی وجہ بھی جگ ظاہرہے۔
نتیجہ ہے کہ کانگریس کی زمین تیار کرنے والے کارکن انتخابی عمل سے یا تو بالکل ہی الگ ہو جاتے ہیں  یا تو ظاہری طورپر پارٹی میں  رہتے ضرور ہیں  لیکن وہ جوش وخروش کے ساتھ کام نہیں  کرتے جس کا خسارہ کانگریس کو ہر بار ہوتا ہے۔ واضح ہو کہ گزشتہ ۲۰۲۰ء کے اسمبلی انتخاب میں  کانگریس کو ۷۰؍ سیٹیں  ملی تھیں  لیکن اس کے پچیس فیصد امیدوار ہی کامیاب ہو سکے۔جہاں  تک راشٹریہ جنتا دل کا سوال ہے تو اس پر بھی یہ الزام ہے کہ بہت سے ایسے حلقے جہاں  سے اس کی کامیابی یقینی تھی وہاں  امیدواروں  کی تبدیلی کی وجہ سے کامیابی مشتبہ ہوگئی ہے۔
 
بہر کیف! اب جب کہ پہلے مرحلے کی پرچہ نامزدگی ختم ہو چکی ہے توایک طرف کانگریس کے چار امیدواروں  کے خلاف راشٹریہ جنتا دل نے اپنے امیدوار کھڑے کردئیے ہیں  تو دوسری طرف اتحاد میں  شامل سی پی آئی (ایم ایل) نے بھی کانگریس کے چار امیدواروں  کے مقابلے اپنے امیدوار دے دئیے ہیں  اور مکیش سہنی نے بھی دو حلقوں  میں  کانگریس کے امیدوار کے خلاف اپنے امیدوار کو پارٹی کا انتخابی نشا ن دے کر پرچہ نامزدگی داخل کردیاہے۔اب دوسرے مرحلے کی پولنگ ۱۱؍ نومبرکو ہونی ہے اور اس کے لئے پرچہ نامزدگی کا سلسلہ شروع ہوگیاہے اس کے باوجود اب تک انڈیا اتحاد کے درمیان سیٹوں  کی تقسیم کا مسئلہ بر قرار ہے بلکہ ریاست میں  اس طرح کا پیغام عام ہورہاہے کہ انڈیا اتحاد کے درمیان اب اتحاد نہیں  رہا۔اس لئے اس طرح کے تذبذب وکشمکش کے ماحول میں  کس کو کتنا سیاسی خسارہ ہوگا وہ جگ ظاہر ہے۔ یہ ایک المناک پہلو ہے جس پر اتحادیوں  کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ا ور پولنگ سے پہلے اس رسّہ کشی کو دور کرنا لازمی ہے کہ نتائج کا دارومدار امیدواروں  کے انتخاب اور پارٹی کارکنوں  کے جو ش ولولے پر منحصر ہے۔
bihar Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK