Inquilab Logo Happiest Places to Work

بھارتی خلاء باز کی زبان پر سارے جہاں سے اچھا

Updated: August 01, 2025, 5:38 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

شبھانشو شکلا جس زبان میں ہندوستان کی خوبصورتی کا نعرہ بلند کر چکے ہیں اس زبان کو غیر ملکی زبان اور اس زبان میں ’سارے جہاں سے اچھا‘ تخلیق کرنے والے اقبال کو غیر بھارتی شاعر نہ قرار دیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

۴۱؍ سال پہلے ایک بھارتی راکیش شرما کی خلاء تک رسائی ہوئی تھی اور جب ان سے پوچھا گیا تھا کہ وہاں  سے ہندوستان کیسا لگتا ہے تو انہوں  نے ڈاکٹر اقبال کے ترانۂ ہندی کا پہلا مصرع پڑھا تھا کہ ’’سارے جہاں  سے اچھا ہندوستاں  ہمارا‘‘۔ ۴۱؍ سال بعد جب شبھانشو شکلا نے اپنا خلائی سفر مکمل کیا تو ایک بار پھر انہوں  نے یہ کہتے ہوئے کہ خلاء سے آج کا بھارت بھی پُر عزم، حوصلہ مند، نڈر اور اعتماد و فخر سے اتنا سرشار لگتا ہے کہ سارے جہاں  سے اچھا کہا جاسکتا ہے۔ یہ لمحہ اس حیثیت سے بھی قابل فخر ہے کہ ہم ہندوستانی ہیں  اور اس حیثیت سے بھی کہ ہم اس بھارتی زبان کے شیدائی ہیں  جس زبان میں  سارے جہاں  سے اچھا کہا گیا.... اِس زبان، اِس ترانہ اور اِس ترانہ کے خالق کے بارے میں  چونکہ کافی غلط فہمیاں  پھیلائی گئی ہیں  اس لئے یہ بتانا ضروری ہے کہ اقبال نے اپنی تین نظمیں  ’ترانۂ ہندی‘، ’وطنیت‘ اور ’ملی ترانہ‘ الگ الگ موقعوں  پر الگ الگ کیفیت میں  لکھی ہیں  لہٰذا ان کو ایک دوسرے کی کاٹ نہیں  کہا جاسکتا۔ ’ترانۂ ہندی‘ میں  حب الوطنی کے جذبے کا اظہار ہے۔ ’ترانۂ ملّی‘ میں  اس تصور کا کہ ہماری حب الوطنی اور وطن دوستی ہمیں  انسانیت دوستی یا عالم انسانیت کا حصہ ہونے کے احساس سے ہیں  روکتی اسی لئے ملک میں  وشو ہندو پریشد اور کرشچین مشنریز بھی کام کر رہی ہیں  اور ملک کے ہوائی اڈوں  پر بھی لکھا ہوتا ہے کہ Indian at Heart, Global in Spirit  یعنی دل سے ہندوستانی، جوش و جذبے میں  عالمی۔ ’وطنیت‘ کے عنوان سے جو نظم ہے اس میں  وطنیت کے نام پر اس ذہنیت کی مخالفت ہے جو یورپ سے درآمد یا اسمگل کی گئی ہے اور مسولینی اور ہٹلر پیدا کرتی ہے۔ جو لوگ ان نظموں  کے مختلف مصرعوں  کو ملا کر پڑھتے ہیں  یا اُردو کو کٹھ ملاؤں  کی زبان کہتے ہیں  ان کو اپنی زبان کو لگام دینے اور فکر کو صحیح سمت عطا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں  ایک سوال کرنا بے موقع نہیں  ہے۔ سوال یہ ہے کہ ’’سارے جہاں  سے اچھا ہندوستاں  ہمارا‘‘ کی تکرار صرف ان کی زبان پر کیوں  ہوتی ہے جو خلاء میں  پہنچتے ہیں  یا خلاء سے واپس آتے ہیں ؟ وہ بھی تو ’’سارے جہاں  سے اچھا ہندوستاں  ہمارا‘‘ کی تکرار کرسکتے ہیں  جو ہندوستان کی زمین پر رہتے ہیں  یا پارلیمنٹ یا اسمبلیوں  یا قانونی اور دستوری عہدوں  پر فائز ہیں ۔
 ہم یہ مطالبہ قطعی نہیں  کرتے کہ اقبال کی ہر بات کو قبول کر لیا جائے یا ان کی ہر بات میں  مذہب تلاش کیا جائے لیکن یہ ضرور چاہتے ہیں  کہ اس بات پر اصرار کیا جائے کہ جو شاعر متحدہ و غیر منقسم ہندوستان (۱۸۷۷ء) میں  پیدا ہوا اور متحدہ و غیر منقسم ہندوستان (۱۹۳۸ء) میں  سپرد خاک ہوا اس کے ہندوستانی اور ہندوستانیت کے ترجمان ہونے سے انکار نہ کیا جائے، ہاں  اس کی کسی بات سے یا عمل سے اختلاف کی گنجائش ہے لیکن اس سے اقبال کے ہندوستانی ہونے پر کیا فرق پڑتا ہے، انہوں  نے تو یہ کہا نہیں  تھا کہ انہیں  پاکستان اپنا قومی شاعر بنائے۔ انہوں  نے فارسی میں  بھی شاعری کی ہے اور بیشک فارسی ہندوستان سے قریبی تعلق کے باوجود غیر ملکی زبان ہے لیکن اُردو تو خالص ہندوستانی زبان ہے جس کا ارتقاء کھڑی بولی پر ہوا ہے اور اس نے عربی، فارسی، ترکی اور دیگر غیر ہندوستانی زبانوں  کے الفاظ اپنائے بھی ہیں  تو اپنی شرط پر، اپنے مزاج کے مطابق۔ ہم اپنی کم علمی اور تعصب کے لئے اُردو کو ذمہ دار نہیں  قرار دے سکتے مثال کے طور پر ذہن میں  آتا ہے کہ اقبال کی نظم ’ہمالہ‘ میں  عراق کا لفظ کیوں  آیا ہے جبکہ گنگوتری ہمالہ میں  اور ہمالہ ہندوستان میں  ہے۔ جواب یہ ہے کہ اقبال کے مصرعے ’چھیڑتی جا اس عراق دلنشیں  کے ساز کو‘ میں  عراق سے مراد وہ ملک نہیں  جہاں  عربی بولی جاتی ہے بلکہ ’عراق‘ سے مراد وہ راگنی ہے جو چاشت کے وقت گائی جاتی ہے اور اس کا خاص تعلق ہندوستان اور اس کے لوگوں  سے ہے۔ شاعری کا مفہوم متعین کرنا ہر شخص کا کام نہیں  اس لئے بات کی کھال نکالنے والوں  سے کہا جاسکتا ہے کہ اقبال جس عقیدہ کے ماننے والے تھے اس عقیدہ میں  روئے زمیں  پر سب سے اچھا یا سب سے اچھی زمین وہ ہے جہاں  کعبہ ہے یا ریاض الجنہ ہے اور ان کا یہ کہنا کہ ’’سارے جہاں  سے اچھا ہندوستاں  ہمارا‘‘ کسی طرح بھی ان کے عقیدہ یا مذہبی ایقان و احساس کی نفی نہیں  ہے۔ سارے جہاں  سے اچھا کہنا ان کی حب الوطنی کا ثبوت ہے۔
 شبھانشو شکلا خلائی اسٹیشن میں  ۱۸؍ دن گزارنے کے بعد کامیابی کے ساتھ دھرتی پہ آئے۔ ان کی کامیابی ہماری یعنی ہر ہندوستانی کی کامیابی ہے لیکن اب ان کا فرض ہے کہ وہ جو نعرہ خلاء میں  بلند کر چکے ہیں  وہ اس دھرتی خصوصاً بھارت کی دھرتی کے لوگوں  کو بھی بلند کرنے پر آمادہ کریں ۔ اس وقت ہم انسانوں  کا جس میں  بھارت واسی بھی شامل ہیں  سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم سب پرندوں  کی طرح اڑنا اور مچھلیوں  کی طرح تیرنا تو چاہتے ہیں  مگر روئے زمین پر انسانوں  کی طرح جینا نہیں  چاہتے۔
 خلائی گاڑی تک پہنچنے اور لوٹنے کے ۲۰؍ دن کے مشن میں  شبھانشو اور ان کے ساتھیوں  نے ۳۲۰؍ بار زمین کے چکر لگائے۔ اس دوران کئی تجربوں  کو بھی انجام دیا۔ ۲۰؍ دن کے اس مشن میں  شبھانشو نے اپنے ساتھیوں  کے ساتھ ۱۸؍ دن خلائی اسٹیشن میں  بسر کئے۔ ایک ایک دن زمین سے اڑان بھرنے اور واپس لوٹنے میں  صرف ہوئے۔ ناسا اور ایکسیوم کے تعاون سے شروع کئے جانے والے اس مشن میں  بھارت کو تقریباً ۵۵۰؍ کروڑ خرچ کرنے پڑے۔ ایک بھارتی کی حیثیت سے شبھانشو کی کامیابی پر ہمارا فخر کرنا جائز ہے مگر یہ خواہش بھی ہے کہ خلاء سے پہلے راکیش شرما اور اب شبھانشو شکلا جس زبان میں  ہندوستان کی خوبصورتی کا نعرہ بلند کر چکے ہیں  اس زبان کو غیر ملکی زبان اور اس زبان میں  ’سارے جہاں  سے اچھا‘ تخلیق کرنے والے اقبال کو غیر بھارتی شاعر نہ قرار دیں ۔ یہ زبان اور شاعر دونوں  بھارتی ہیں ۔ انہوں  نے بھارت کو اپنا مولد و مسکن ماننے سے کہیں  انکار نہیں  کیا ہے ’وطنیت‘ جیسی نظم میں  انہوں  نے صرف یہ کہا ہے کہ وطن کا مادی تصور جغرافیائی حدود سے وابستہ ہے جس سے اللہ کی مخلوق نہ صرف تقسیم ہوگئی ہے بلکہ ایک دوسرے سے مصروف جنگ بھی ہے۔ اس کے مادی حدود کو اگر پار کر لیا جائے تو وطن کا تصور تعمیری اور تخلیقی ارتقاء کا باعث بن جائے گا۔ اس تقسیم کے لئے وہ مسلمانوں  کو بھی مورد الزام ٹھہراتے ہیں ۔
 ’’مسلم نے بھي تعمير کيا اپنا حرم اور/ تہذيب کے آزَر نے ترشوائے صنم اور‘‘ ایسے اشعار کی بنیاد پر کیا ایسے شاعر کو بھارت مخالف کہنا درست ہے جس نے ہر مذہب کے لوگوں  کو ’سارے جہاں  سے اچھا‘ کہنا سکھایا ہے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK