Inquilab Logo

گڑے مردے اکھاڑنے کی نوبت آگئی!

Updated: May 08, 2024, 1:06 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

جسٹس یو سی بنرجی کمیشن کی تحقیقات سے یہ حقیقت سامنے آئی تھی کہ ۲۷؍ فروری ۲۰۰۲ءکے دن سابرمتی ایکسپریس کے ایک ڈبے میں جو آگ لگی تھی وہ حادثاتی تھی۔ سوال یہ ہے کہ بائیس برس پہلے کے یہ گڑے مردے اکھاڑنے کیا ضروری تھے ۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

وزیر اعظم نریندر مودی نے پچھلے ہفتے بہار کی ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ لالو یادو جب وزیر ریل تھے تو انہوں  نے گودھر ا سانحہ کے مجرموں  کو بچانے کیلئے تحقیقاتی کمیشن کے ذریعہ ایسی رپورٹ تیار کروائی تھی جس کے ذریعہ ٹرین میں  ۶۰؍ کارسیوکوں  کو زندہ جلانے والے بے قصور ثابت کئے جاسکیں ۔ جسٹس یو سی بنرجی کمیشن کی تحقیقات سے یہ حقیقت سامنے آئی تھی کہ ۲۷؍ فروری ۲۰۰۲ءکے دن سابرمتی ایکسپریس کے ایک ڈبے میں  جو آگ لگی تھی وہ حادثاتی تھی۔ مودی جی اسی رپورٹ کا تذکرہ کر رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ بائیس برس پہلے کے یہ گڑے مردے اکھاڑنا کیا ضروری تھے اور سوال یہ بھی ہے کہ کیوں  ضروری تھے؟
 پچھلے ماہ تمل ناڈو میں  انتخابی مہم کے دوران مودی جی نے پچاس سال قبل اندرا گاندھی کے ذریعہ سری لنکا کو ایک ننھا سا جزیرہ (islet)  دیئے جانے کے واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کانگریس پر ’’بھارت کا ایک انگ کاٹ کر الگ ‘‘کردینے کا الزام لگایا۔ سچائی یہ ہے کہ نئی بحری حد بندیوں  کے تحت ہندوستان نے ۱۹۷۵ء میں  سری لنکا کو ’’کچاتھیو‘‘ (Katchatheevu) نام کا زمین کا یہ ٹکڑا دیا تھا اور اس کے عوض سری لنکا سے ’’ویج بینک‘‘ (Wadge bank) نام کا ساحلی علاقہ لیا تھا۔ لیکن حقائق کو مسخ کرنا، آدھا سچ اور پورا جھوٹ بولنا بی جے پی کی پرانی خصلت ہے۔ سوال یہ ہے کہ نصف صدی قبل کے اس واقعے کا ملک کے موجودہ معاشرتی، معاشی اور سیاسی حالات سے کیا لینا دینا جو وزیر اعظم کواسے یاد کرنا پڑا؟
  پندرہ دن قبل یوپی میں  مودی جی نے دعویٰ کیاکہ ۱۹۸۴ء میں  اندرا گاندھی کے سورگباش ہونے کے بعد راجیو گاندھی نے ملک کے  مروجہ قانون ِ وراثت کو بدل دیا تاکہ وہ اپنی والدہ کی مکمل جائیداد  حاصل کرسکیں ۔ مودی جی نے الزام لگایا کہ کانگریس وراثتی ٹیکس کا وہی قانون واپس لانا چاہتی ہے تاکہ ہندوؤں  کی دولت، بشمول عورتوں   کے منگل سوتر،  ان سے چھین کر مسلمانوں  میں  تقسیم کرسکے۔ مودی جی نے خود ہی بتایا کہ یہ ۴۰؍ سال پرانا واقعہ ہے تو سوال یہ ہے کہ اس کو آج موضوع بنانے کی نوبت کیوں  آئی جبکہ کانگریس نے نہیں  کہا کہ وہ اقتدار میں  آئی تو وراثتی ٹیکس کو دوبارہ نافذ کریگی۔  
  کانگریس نے تو یہ بھی نہیں  کہا کہ وہ ہندوؤں  کی دولت، جائیداد یہاں  تک کہ عورتوں  کے گہنے ضبط کرکے مسلمانوں  میں  تقسیم کردیگی  لیکن جہاں  جھوٹ کا بازار گرم ہو وہاں  سچ کے خریدار بھلا کہاں  ملیں  گے؟ منموہن سنگھ کے ایک بیان کو تو ڑ مروڑ کر مودی جی پچھلے کئی ہفتوں  سے برادران وطن کو یہ باور کرارہے ہیں  کہ کانگریس کا یہ عقیدہ ہے کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں  کا ہے اور اگر کانگریس اقتدار میں  آئی تو ہندوؤں  کے دھن دولت اور عورتوں  کے زیورات تک کی خیر نہیں ۔ منموہن سنگھ کے جس بیان کا حوالہ دے کر کانگریس کے خلاف یہ فرضی بیانیہ چلا یا جارہا ہے، وہ۲۰۰۶ء کا ہے۔
  ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیر اعظم ہر انتخابی رَیلی میں  رائے دہندگان سے یہ اپیل کرتے کہ وہ ان کی دس سالہ حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پر ایک بار پھر انہیں  قوم کی خدمت کا موقع دیں ۔ بی جے پی اور مودی بھکت یہ دعویٰ کرتے نہیں  تھکتے کہ پچھلے دس برس میں  ملک نے جو ناقا بل یقین ترقی کی ہے وہ آزاد ی کے بعد ساٹھ پینسٹھ برس  میں  نہیں  ہوئی تھی اس لئے توقع تو یہی تھی کہ مودی جی فخر کے ساتھ اپنی حکومت کی ہمہ جہت کامیابیوں  کاریکارڈ عوام کے سامنے پیش کرکے انہیں  یہ بتاتے کہ اگر وہ چاہتے ہیں  کہ ترقی اور وکاس کا یہ سلسلہ نہ صرف برقرار رہے بلکہ اور تیز گام ہو تو انہیں  مودی جی کو لگاتار تیسری بار بھی ملک کی باگ ڈور سونپ دینی چاہئے۔گودی میڈیا اور مودی فین کلب کی مانیں  تو دس سال میں  بھارت نے اقوام عالم میں  ایک نیا وقار اور مرتبہ حاصل کیا ہے۔ تو مودی جی  یہ کیوں  نہیں  کہہ رہے ہیں  کہ اگر وہ چاہتے ہیں  کہ بھارت دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے اور ترقی پزیر سے ترقی یافتہ ملک میں  تبدیل ہوجائے تو ووٹروں  کو انہیں  تیسری بار بھی کامیاب کرنا چاہئے؟ 
  مودی جی نہ’’ وِکست بھارت ‘‘کی بات کررہے ہیں  اور نہ ہی ’’سب کا ساتھ،سب کا وکاس اور سب کا وشواس ‘‘کا پرفریب نعرہ ان کی زبان پر ہے۔ حیرت ہے کہ دس سال تک  راج کرنے، تابعدار میڈیا کے ذریعہ دن رات اپنی حکومت کے کارناموں  کا ڈھنڈورا پٹوانے اور آئینی اداروں  کو اپنے قدموں  میں  جھکانے کے باوجود، مودی جی اپنے حکومتی ریکارڈ کی بنیاد پر رائے دہندگان سے مثبت ووٹ کا مطالبہ کرنے سے قاصر ہیں ۔ وہ ووٹروں  کو خوف زدہ کرنے کیلئے تیس چالیس سال پرانے بھوت زندہ کررہے ہیں ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہر آمر کا یہ شیوہ رہاہے کہ وہ کسی ایک نسلی یا مذہبی گروہ کو ملک کو درپیش مصائب کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے،اپنے سیاسی حریف کو اس گروہ کا حامی قرار دے کریہ دعویٰ کرتا ہے کہ اگر وہ پارٹی اقتدار میں  آگئی تو قیامت آجائیگی۔ جب عوام خوفزدہ ہوجاتے ہیں  تو وہ انہیں  تسلی دیتا ہے کہ جب تک وہ زندہ ہے ان پر کوئی آنچ نہیں  آنے دے گا۔
 ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء  میں  مودی جی کی انتخابی مہم مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ تعصبات سے بہت حد تک پاک تھی۔ وہ ملک سے کرپشن اور جرائم مٹاکر، خوشحالی لاکر، ہر سال دو کروڑ نوکریاں  دے کر اور غیر ممالک میں  چھپے ہوئے اربوں  ڈالر کے کالے دھن کو واپس لانے کا وعدہ کرکے اقتدار میں  آئے تھے۔ وہ’’ اچھے دن آئیں  گے‘‘ کے رتھ پر سوار ہوکر راج سنگھاسن تک پہنچے اور’’ نیو انڈیا‘‘ بنانے کے عزم کا اظہار کرکے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔ ان کے پاس یہ بہترین موقع ہے کہ عوام کو مطلع کریں  کہ انہوں  نے جو اہداف مقرر کئے تھے ان میں  سے کتنے پورے ہوگئے  اور کتنے ابھی باقی ہیں ۔ لیکن تین مرحلوں  کی ووٹنگ کے بعدشاید انہیں  ہوا کے رخ کا اندازہ ہو گیا ہے۔ اسی لئے وہ ۸۰؍ فیصد ہندواکثریت کو پندرہ فی صد مسلم اقلیت سے دہشت زدہ کرنا چاہ رہے ہیں  اور کانگریس اور انڈیا اتحاد میں  شامل پارٹیوں  کو نہ صرف مسلم دوست بلکہ ہندو مخالف ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ بے روزگاری اور مہنگائی جیسے ایشوزپر بات نہیں  ہورہی ہے، ووٹ اس ایشو پر مانگا جارہا ہے کہ تیجسوی یادو مچھلی اور مٹن کھاتے ہیں ۔ مقصد صاف ہے: انتخابات کو پوری طرح مذہبی خطوط پر پولرائز کرنا تاکہ اقتدار کی ہیٹ ٹرک کا خواب شرمندہ تعبیر ہو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK