Inquilab Logo

کانگریسی منشور کی مقبولیت میں مودی کا کردار

Updated: May 06, 2024, 1:16 PM IST | P Chidambaram | Mumbai

وزیراعظم کیلئے آگے کنواں پیچھے کھائی کی صورتحال ہے، وہ اپنی پارٹی کے منشور پر تنقید کرسکتے ہیں نہ راجناتھ سنگھ کی سربراہی والی منشور ساز کمیٹی پر گرفت، اسی لئے کانگریس کے منشور کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

وزیر اعظم مودی آج کل کانگریس کے تئیں  خوب خیر سگالی کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ اپنی تقاریر کے ذریعے وہ کانگریس کے انتخابی منشور کو توڑ مروڑ کر دوبارہ لکھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ وہ منشور کی اچھائیوں  کو غلط وضاحت کے ساتھ اجاگر کررہے ہیں  اور اپنے زرین خیالات اور مشوروں  سے نواز رہے ہیں ۔ شاید ان کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے ملک کے موجودہ سیاسی ماحول پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ گزشتہ ہفتوں  کی سرخیوں  کا جائزہ لیجئے، بہت کچھ سمجھ میں  آجائیگا۔ 
 اس منظرنامہ کے پیچھے ایک دلچسپ کہانی ہے۔ بی جے پی کا انتخابی منشور ۱۴؍ اپریل کو جاری کیا گیا لیکن سیاسی تجزیہ نگاروں  کی مانیں  تو مودی اپنی پارٹی کے منشور سے مطمئن نہیں  ہیں  جسے راجناتھ سنگھ جیسے سادہ لوح شخص کی سربراہی والی کمیٹی نے تیار کیا ہے۔ کمیٹی نے دبے لفظوں  میں  اعتراف کیا ہے کہ یہ دستاویز پارٹی کا انتخابی منشور نہیں ، بلکہ وزیراعظم مودی کی قابلیت کا سپاس نامہ ہے جنہوں  نے پارٹی کو نئی زندگی دے کر اسکی تشکیل نو میں  اہم کردار ادا کیا۔ اسی لیے منشور کا نام’’مودی کی گیارنٹی‘‘ رکھ کر وزیراعظم کو خراجِ تحسین پیش کیاگیا ہے۔ توقعات کے مطابق، مودی کی گیارنٹی سیاسی حلقوں  میں  موضوع بحث بنا لیکن چند گھنٹوں  میں  ہی اس کا جادو ختم ہو گیا۔ آج، اس منشور پر کوئی کچھ نہیں  کہہ رہا ہے حتیٰ کہ مودی اور پارٹی لیڈران بھی نہیں ۔’’مودی کی گیارنٹی‘‘ قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ 
 وزیراعظم مودی عجیب کشمکش میں  مبتلا ہیں ۔ وہ منشور پر تنقید کرسکتے ہیں  نہ منشور ساز کمیٹی کی قابلیت پر سوال اٹھا سکتے ہیں ۔ اسی لئے اُنہوں  نے کانگریس کے منشور کو نشانہ بنانا ضروری سمجھا۔ انہوں  نے کانگریس کے منشور پر یکے بعد دیگرے کئی تبصرے کیے جس کی وجہ سے کانگریس کا منشور سرخیوں  کی زینت بننے لگا اور اس کو حاصل کرکے یا ڈاؤن لوڈ کرکے پڑھنے والوں  کی تعداد میں  بھی زبردست اضافہ ہوا۔ صدیوں  قبل، قدیم ہندوستانی ادب میں  بھی تبصرے اور تجزیے اصل تحریر سے زیادہ اہمیت کے حامل ہواکرتے تھے۔ 
 اب تک مودی، عوام کو کانگریسی منشور کے کئی اہم نکات اپنی آسان زبان اور مفصل انداز میں  سمجھا چکے ہیں ۔ کئی دفعہ انہوں  نے اپنی طرف سے حذف و اضافہ بھی کیا اور غلط بیانی سے بھی کام لیا، مثلاً کانگریس کی سرکار بننے پر وہ لوگوں  کی زمینیں ، زیورات اور دیگر قیمتی اشیاء مسلمانوں  میں  تقسیم کریگی، لوگوں  کی ملکیت، خواتین کے زیورات اور قبائلی خاندانوں  کی چاندی کی اشیاء کو چھین لیا جائے گا اور سرکاری ملازمین کی زمینیں  اور نقد ضبط کرکے انہیں  عوام میں  بانٹ دیا جائیگا۔ کانگریس، خواتین کے منگل سوتر اور بچت کی کمائی، زیادہ بچے پیدا کرنے والوں  (مسلمانوں ) کے حوالے کردیگی۔ جن گھرانوں  کے پاس گاؤں  میں  گھر اور شہر میں  فلیٹ ہے، ان کی کسی ایک ملکیت کو چھین لیا جائیگا۔اسی طرح مودی نے بیان دیا: ’’ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں  کا ہے۔ میں  اس وقت گجرات کا وزیراعلیٰ تھا۔‘‘ مودی کے دائیں  ہاتھ اور قابل اعتماد مشیر امیت شاہ نے دعویٰ کیا کہ کانگریس مندروں  کی املاک کو ضبط کرکے اسے تقسیم کردیگی۔ اس بیان میں  راجناتھ سنگھ نے اپنی جانب سے اضافہ کیا کہ کانگریس عوام کے اثاثے ضبط کرکے انہیں  دراندازوں  میں  بانٹ دیگی۔ اگلے دن انہوں  نے اسی بیان میں  اپنی دانست میں  بیش قیمت اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس دفاعی افواج میں  مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن لانا چاہتی ہے۔
 اس دوڑ میں  مبصرین کی تعداد بڑھتی گئی جو ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے رہے۔ اسی درمیان نریندر مودی نے نیا شوشہ چھوڑا کہ کانگریس، مرحومین کے اثاثوں  پر بھی ٹیکس عائد کرنا چاہتی ہے۔ انہوں  نے اس ٹیکس کی کڑی مخالفت بھی کی۔ سیتارمن صاحبہ بھی کہاں  پیچھے رہنے والی تھیں ؟ انہوں  نے مودی کے شوشہ ’’جائیداد ٹیکس‘‘ پر بیان دے کر اپنی دانست میں  ذہانت کا مظاہرہ کیا۔ وہ اس بات سے لاعلم ہیں  کہ ۱۹۸۵ءمیں  کانگریس نے ’’جاگیر ٹیکس‘‘ (جو جائیداد ٹیکس کی ایک قسم ہے) کو ختم کردیا تھا اور ۲۰۱۵ء میں  مودی حکومت نے ’’تمول/امارت ٹیکس‘‘ کو ہٹایا تھا۔ 
 کانگریس کے منشور پر ہونے والے ان منظم حملوں  کو بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ ۱۹؍ اپریل کو پہلے مرحلہ کی پولنگ کے بعد مودی اور بی جے پی بوکھلاگئے۔ مودی نے ۲۱؍ اپریل کو جالور اور بانسواڑہ کی ریلیوں  میں  کانگریس کو نشانہ بنایا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ دیگر پارٹی لیڈران بھی کانگریس پر حملے کررہے ہیں ۔ میڈیا نے ان بیانات پر روک لگانے کا پرزور مطالبہ کرنا چاہیے تھا لیکن اخبارات، ان بیانات کی تشریح کرنے اور ان پر اداریے لکھنے میں  مصروف ہو گئے ہیں ۔ اس طرح مودی اِس جھوٹی جنگ کو بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ انہی وجوہات کی بناء پر ۵؍ اپریل سے ۱۹؍ اپریل کے درمیان کانگریس کا منشور پورے ملک میں  خوب وائرل ہوا اور عوامی بحث کا مرکز بنا۔ کانگریس کے وعدے، خاص طور پر، ذات پات پر مبنی ملک گیر سروے اور سماجی و معاشی سروے، منریگا مزدوروں  کیلئے روزانہ ۴۰۰؍ روپے کی اجرت، غریب گھرانوں  کیلئے مہا لکشمی اسکیم، زراعتی پیداوار پر ایم ایس پی کی قانونی گیارنٹی، زراعتی لون کی معافی کیلئے ایک کمیشن کا قیام، نوجوانوں  کیلئے انٹرن شپ اسکیم، اگنی ویر اسکیم کا خاتمہ، تعلیمی قرض کی معافی اور حکومت بننے کے بعد ایک سال کے اندر ۳۰؍ لاکھ سرکاری نوکریوں  پر بھرتی کا اعلان، وغیرہ عوام کے دل و دماغ پر چھائے رہے۔ 
 تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن نے کانگریس کے منشور کو’’لوک سبھا انتخابات کا ہیرو‘‘ قرار دیا ہے۔ اس بیان سے مودی کو تکلیف ہوگی جو اسے ولن کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ اسے حالات کی ستم ظریفی کہئے کہ کانگریس کے منشور کے کسی بھی حصہ میں  کوئی خامی نہیں  نکالی جاسکتی۔ اس لئے مودی نے کسی فرضی منشور کا تصوری خاکہ تیار کیا اور اسکے ساتھ کانگریس کا نام جوڑ کر اسی فرضی منشور پر تنقید کرنے لگے۔ شاید، ایسا کرکے مودی کانگریس کے اصل منشور کی عظمت کو سلام کرنا چاہتے ہیں ۔
 غلط بیانیوں  اور جھوٹی خبروں  کو بروئے کار لاکر حقائق کو غلط انداز میں  پیش کرنے والے وزیراعظم مودی اور بی جے پی نے عوام کو واضح اشارہ دے دیا ہے کہ اگر وہ تیسری دفعہ حکومت بنانے میں  کامیاب ہوگئے تو ان سے مثبت اور تعمیری کاموں  کی امید نہیں  کی جاسکتی۔ اس کیلئے کانگریس کو وزیراعظم کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ کانگریس کے منشور کو توڑ مروڑ کر دوبارہ لکھنے کے کورس میں  نمایاں  نمبرات سے گریجویشن ڈگری حاصل کرنے کے بعد وزیراعظم مودی، ہندوستان کے دستور کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کرسکتے ہیں ۔ عوام کو خبردار رہنا ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK