• Tue, 18 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

شٹ ڈاؤن امریکی معاشی نظام کی کمزوریوں کا عکاس

Updated: November 18, 2025, 1:33 PM IST | Professor Ashwini Mahajan | mumbai

اکتوبر کے بعد سے، امریکی حکومت عملاً تعطل کا شکار رہی ۔ تقریباً۹؍ لاکھ وفاقی ملازمین کو فارغ کر دیا گیا اور مزید۲؍ ملین کو بغیر تنخواہ کے کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔

INN
آئی این این
امریکی حکومت کا شٹ ڈاؤن جو یکم اکتوبر سے جاری تھا، گزشتہ دنوں  صدر ٹرمپ کے مالیاتی بل پر دستخط کرنے کے بعد ختم ہوگیا۔ امریکہ کی تاریخ کا یہ طویل ترین شٹ ڈاؤن تھا ۔۴؍نومبر کو اس نے ۲۰۱۸ء کے ۳۵؍دن کے شٹ ڈاؤن کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ اکتوبر کے بعد سے، امریکی حکومت عملی طور پر تعطل کا شکار رہی ۔ تقریباً۹؍ لاکھ وفاقی ملازمین کو فارغ کر دیا گیا اور مزید۲؍ ملین کو بغیر تنخواہ کے کام کرنے پر مجبور کیا گیا، بہر حال شعبہ صحت، ٹرانسپورٹیشن اور سیکوریٹی ایڈمنسٹریشن جیسی ضروری خدمات اس سے مستثنیٰ رہیں  ۔ یہ امریکی تاریخ میں  اس طرح کا ۱۱؍ واں  شٹ ڈاؤن تھا ۔ پچھلا طویل ترین شٹ ڈاؤن ۱۹-۲۰۱۸ء میں  ٹرمپ کی سابقہ مدت کے دوران ہوا تھا، حالانکہ یہ مکمل حکومتی شٹ ڈاؤن نہیں  تھا۔ اگر ہندوستان میں  ایسا شٹ ڈاؤن ہوتا تو دنیا بھر میں  خاص طور پر امریکہ میں  ہندوستانی آئین اور نظام پر تنقید کرتے ہوئے بے شمار مضامین لکھے جاتے۔ تاہم، امریکہ میں  اس طرح کے ایک بڑے واقعے پر اس طرح کی خبریں  نہیں  آتیں  اور اس طرح تجزیہ بھی نہیں  کیا جاتا جیسی ضرورت ہے۔
صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا تعلق ریپبلکن پارٹی سے ہے۔ ریپبلکن کے زیرانتظام ایوان نے ایک فنڈنگ بل منظور کیا لیکن یہ سینیٹ میں  حمایت حاصل کرنے میں  ناکام رہا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کا دعویٰ ہے کہ ہیلتھ انشورنس سبسیڈیز (بالخصوص وہ امور جن کاتعلق صحت کی سستی خدمات سے متعلق قانون سے ہے) بجٹ میں  شامل نہیں  ہیں ۔ مزید برآں ، کانگریس کی شکایت ہے کہ صدارتی انتظامیہ بجٹ کے عمل میں  کانگریس کے اختیارات پر تجاوز کر رہا ہے۔ کانگریس کو خدشہ ہے کہ بجٹ کی غیر مشروط منظوری سے کانگریس کے اختیارات سلب ہو جائیں  گے۔ اس شٹ ڈاؤن نے نہ صرف حکومتی کارروائیوں  کو مفلوج کر کے رکھ دیابلکہ اس نے ۴۰؍ ملین سے زیادہ لوگوں  کیلئے خوراک کی امداد، خاص طور پر سپلی مینٹل نیوٹریشن اسسٹنس پروگرام (ایس این ا ے پی) کے بھی منقطع ہونے کا خطرہ بڑھا دیا تھا۔ بعض محکموں  نے فوجی اہلکاروں  کی تنخواہوں  کو یقینی بنانے کے لیے نجی شعبے سے فنڈز بھی اکٹھے کیے ہیں ۔ اگرچہ ڈیموکریٹس اپنے مطالبے پر بضد نہیں  ہیں ، انہوں  نے اپنی مانگ گھٹا کر صرف ۲۰؍بلین ڈالر کردی ہے جو کہ ان کے سابقہ ڈیمانڈ سے نمایاں  طورپر کم ہے، لیکن کوئی حل اب بھی نہیں  ہے۔ شٹ ڈاؤن تو ختم ہوچکا ہے لیکن موجودہ تنازع صرف پارٹیوں  کے درمیان نہیں  رہا بلکہ یہ ریپبلکن پارٹی کی داخلی کشمکش کو بھی اجاگرکرگیا۔
 
 
ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ۳؍ نومبر۲۰۲۶ء کو بڑے انتخابات ہونے والے ہیں ۔ ان وسط مدتی انتخابات میں  امریکی ایوان نمائندگان کی تمام۴۳۵؍نشستوں  اور امریکی سینیٹ کی ۱۰۰؍ میں  سے ۳۵؍نشستوں کیلئے انتخابات شامل ہوں  گے، جس سے ریاستہائے متحدہ امریکہ کی ۱۲۰؍ ویں  کانگریس تشکیل دی جائے گی۔ ۲۹؍ریاستی اور علاقائی گورنری کے انتخابات کے ساتھ ساتھ متعدد ریاستی اور مقامی انتخابات بھی لڑے جائیں  گے۔ امریکہ میں  آئندہ وسط مدتی انتخابات درحقیقت حکومتی شٹ ڈاؤن کے فوری یا دیرپا حل میں  رکاوٹ بنے رہے۔ امریکی شٹ ڈاؤن نہ صرف انتظامی ناکامی کا مظہر رہا بلکہ امریکی معاشی اور سیاسی نظام میں  گہری ساختی اور نظریاتی کمزوریوں  کی علامت بھی ثابت ہوا۔ اس طرح کا طویل شٹ ڈاؤن امریکی سیاسی نظام کے مسابقتی مفادات، خاص طور پر مالی دانشمندی اور عوامی مفاد کی سیاست کے ساتھ مصالحت کرنے میں  ناکامی کا عکاس بھی ثابت ہوا ۔ بجٹ کی منظوری یا قرض کی حد میں  اضافہ کئے جانے میں  ناکامی ایک ٹوٹی پھوٹی جمہوریت کی عکاسی کرتی ہے جسے مفاد پرستوں  کے ہاتھوں  یرغمال بنایا گیا ۔ امریکی شٹ ڈاؤن میں  وہ کیفیت سامنے آئی جس میں  قلیل مدتی سیاسی فوائد طویل المدتی قومی ترجیحات کو پامال کرتے ہیں ۔
اس شٹ ڈاؤن نے اس بات کا پردہ فاش کیا ہے کہ کس طرح امریکی معاشی ماڈل مسلسل قرض لینے کا عادی ہو گیا ہے اور کس طرح سیاسی لیڈران مالی بے ضابطگیوں  کے نتائج کا سامنا کرنے کیلئے تیار نہیں  ہیں ۔ امریکی پالیسی سازوں  کا دوہرا معیار واضح طور پر بے نقاب ہو چکا ہے، کیونکہ امریکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں  کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کو مالی ذمہ داری کی یاددہانی کرتا ہے لیکن وہ خود اس پر عمل کرنے میں  بری طرح ناکام رہتا ہے۔ امریکی مالیاتی نظام حقیقتاً قرض پر چل رہا ہے اور جو نظام جتنا قرض پر چلتا ہے،اس پر قرض کی ادائیگی اوردیگر معاشی امور میں  توازن قائم رکھنا بتدریج مشکل ہوتا جاتا ہے۔ایسے ہی سسٹم میں  بینک دیوالیہ ہوتے ہیں  ۔ شٹ ڈاؤن اور بار بار قرض کی حد کے بحران سے امریکی مالیاتی نظام پر عالمی اعتماد کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس سے ڈالر کی تخفیف کے عالمی رجحان کو ہوا مل رہی ہے اور غیر مستحکم مغربی معیشتوں  پر انحصار کے بجائے خودکفیل مالیاتی نظام کی تعمیر میں  ہندوستان کے یقین کو تقویت مل رہی ہے۔ شٹ ڈاؤن کھپت پر مبنی معاشی نظام کا نتیجہ ہے جو لوگوں  پر منڈیوں  کو ترجیح دیتا ہے۔ غیرپنشن یافتہ سرکاری ملازمین، خدمات میں  تاخیر اور سماجی عدم تحفظ جیسے اسباب اس نئے لبرل ازم کی ناکامی کی واضح نشاندہی کرتے ہیں ۔
مغربی میڈیا اور خاص طور پر امریکہ ہندوستانی اداروں  کو کمزور اکائیوں  کے طور پر پیش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں  دیتا۔ شٹ ڈاؤن اس بیانیے کو منہدم کرتا ہے کیونکہ ہندوستان میں  مغربی اقتصادی نظام کے مقابلے کہیں  بہتر ادارہ جاتی استحکام نظر آتا ہے۔ امریکی شٹ ڈاؤن ابھرتی ہوئی معیشتوں  خصوصاً ہندوستان کیلئے خود کفالت، متوازن تجارت اور تعاون پر مبنی وفاقی طرز حکومت اورمعیشت ایک نئی عالمی اقتصادی قیادت قائم کرنے کا ایک موقع ہے بشرطیکہ وہ اسے ایک موقع کے طور پر دیکھیں  اور اس کا فائدہ اُٹھائیں ۔ اس معاملے میں  مغرب اپنے تضادات کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، ہندوستان کو اپنی اقدار کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہئے، نہ کہ مغرب سے مستعار لئے گئے ماڈل کی بنیادپر۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK