فوٹوگرافی یاتصویر کشی جتنی آسان سمجھی جاتی ہے اُتنی آسان تو ہے مگر اُتنی ہی مشکل بھی ہے۔ تصویر محض کسی شے کو کیمرہ میں قید کرلینے کا نام نہیں، یہ اُس لمحے کو قید کرلینے کا نام بھی ہے جو تاریخ بنتا ہے۔
EPAPER
Updated: March 10, 2025, 1:47 PM IST | sarwarul-huda | Mumbai
فوٹوگرافی یاتصویر کشی جتنی آسان سمجھی جاتی ہے اُتنی آسان تو ہے مگر اُتنی ہی مشکل بھی ہے۔ تصویر محض کسی شے کو کیمرہ میں قید کرلینے کا نام نہیں، یہ اُس لمحے کو قید کرلینے کا نام بھی ہے جو تاریخ بنتا ہے۔
سیاہ اور سفید تصویروں کو دیکھنا گویا گزرے ہوئے زمانے کو آواز دینا ہے۔ یہ احساس ہر اُس شخص کا ہو سکتا ہے جس نے ۶۰ء، ۷۰ء کی دہائی سے وابستہ شخصیات کی تصویروں کو دیکھا ہے۔ تصویروں کے ساتھ عمارتوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو ذہن میں ایک ایسے شہر کی تعمیر ہونے لگتی ہے جس کے در و دیوار اپنے وقت کی کہانی سناتے ہیں ۔یہ کہانی پرانی تصویروں کی بھی ہے اور گرتی ہوئی عمارتوں کی بھی۔ دونوں کے دیکھنے کا تجربہ مختلف ضرور ہے مگر ایک وقت ہے جو دونوں میں ٹھہر سا گیا ہے۔ فوٹوگرافی کے بارے میں امریکی مصنفہ سو سان سونتج کی بصیرتیں حیرت زدہ کرتی ہیں ۔ فوٹوگرافی جو بظاہر ایک سادہ سا عمل ہے وہ کس طرح سیاسی، سماجی اور تہذیبی زندگی کو متاثر کرتا ہے۔کس زاویے سے تصویر لی گئی اور کیا کچھ تصویر سے باہر رہ گیا، تصویر سے کیا تاثر قائم کیا گیا، اسے کس نے کس نظر سے دیکھا، یہ وہ سوالات ہیں جو فوٹوگرافی کو سوالات اور خدشات کی زد میں لے آتے ہیں ۔سو سان سونتج اپنی کتاب ’’آن فوٹوگرافی‘‘ میں لکھتی ہیں : ’’تصویر کھینچنا کسی دوسرے شخص کی، موت، کمزوری اور تغیر پزیری میں حصہ لینا ہے، خاص طور پر اس لمحے کو کاٹ کر اسے منجمد کر کے۔ تمام تصاویر وقت کے مسلسل پگھلنے کی گواہی دیتی ہیں ۔‘‘
وہ یہ بھی لکھتی ہیں : ’’صنعتی معاشرے اپنے شہریوں کو تصویری دیوانہ بنا دیتے ہیں ۔ یہ ذہنی آلودگی کی سب سے ناقابل مزاحمت شکل ہے۔‘‘ بہت پہلے ۱۹۳۱ء میں والٹر بنجامن (جرمنی کے فلاسفر، ثقافتی تنقید نگار اور میڈیا تھیورسٹ) نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ ’’مستقبل میں نا خواندہ وہ نہیں ہوگا جو حروف تہجی نہیں پڑھ سکتا،بلکہ وہ شخص ہوگا جو تصویر نہیں لے سکتا۔‘‘
فوٹوگرافی کو ایک فن کے طور پر دیکھنے اور برتنے کی لمبی روایت موجود ہے لیکن ہمارے زمانے میں تصویریں بنانے اور تصویریں کھینچنے کی سہولتوں نے جس کلچر کو پروان چڑھایا ہے، اس نے نمائش کی ایک ایسی سطح قائم کر دی ہے جو وقت کے ساتھ گرتی ہی جا رہی ہے۔ ۶۰ء اور ۷۰ء کی دہائی کی سیاہ و سفید تصویریں تہذیبی تاریخ بن گئی ہیں ۔ ان میں شائستگی کا جوحسن ہے اس پر شاید کبھی زوال نہ آئے۔ ان تصویروں کا البم ایک ایسی کتاب کی طرح ہے جس میں الگ الگ وقتوں کا ٹکڑا تصویر کے ساتھ باتیں نہیں بناتا بلکہ تاریخ، تہذیب اور سیاست کا اصل مفہوم سمجھاتا ہے۔ان تصویروں میں جو مسکراہٹیں ہیں ان کے کئی معنی شاید اس وقت بھی نہیں تھے۔یہ مسکراہٹیں اپنے وقت کے مسائل اور وسائل کے ساتھ بڑی معاملہ فہم،شفاف اور دورس اثرات کی حامل دکھائی دیتی ہیں ۔
اب صرف مختلف زاویوں سے تصویریں بنائی جا رہی ہیں ، تصویریں بنوانے والے اور تصویریں بنانے والے سبھی ایک ہی منزل کے سودائی ہیں ۔ والٹر بنجامن نے یہ بھی کہا تھا کہ اُس فوٹوگرافر کو بھی ناخواندہ کہنا چاہیے جو اپنی تصویروں کو پڑھ نہیں سکتا۔ وہ تصویریں جو انسانی عظمت اور انسانی شرافت کا اظہار ہیں اور جن سے اجتماعی شعور وابستہ ہے،ان کی طرف دیکھنا اور بار بار دیکھنا نہایت ضروری ہو گیا ہے۔ اب جو تصویروں کی سیاست ہے اور تصویروں میں جو سیاست ہے، ان کا تجزیہ کیجئے تو کوئی اور ہی تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ فوٹوگرافر کو برا بھلا کہنا دراصل اس کیمرے کی آنکھ کی طرف دیکھنا ہے جو منتظر ہے کسی صورتحال کو دیکھنے کے لئے۔ اسے قید کرنے کے لئے اور کبھی اس کا استحصال کرنے کے لئے۔ جارحیت کا رشتہ تصویر کشی سے بھی ہے۔ کچھ نہیں ہے تو تصویر بنائی جائے،کچھ نہیں ہے تو تصویر کے بارے میں سوچا جائے اور اس طرح سوچا جائے کہ جیسے تصویر ہی اصل حقیقت ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب تصویریں حقیقت کا اصل اظہار بن جاتی ہیں ۔ وقت کا کوئی ایک لمحہ تصویر میں پو ری طرح ٹھہر جاتا ہے۔ وہ لمحہ اپنے وقت کے ساتھ ہوتا ہے لیکن اس لمحے کے بارے میں وقت کے ساتھ سیاست تیز ہو جاتی ہے۔ فوٹوگرافی اصل صورتحال کو بگاڑ سکتی ہے۔ کتابوں اور اخباروں میں موجود تصویریں حروف سے پہلے اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہیں ۔کبھی کبھی تو تصویروں سے نگاہ ہٹتی ہی نہیں ہے۔
یہ تصویریں جو کچھ کہتی ہیں ، الفاظ اور حروف وہ سب کچھ دیر سے کہتے ہیں اور کبھی توایسا ہوتا ہے کہ کچھ کہہ ہی نہیں پاتے۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ تاریخی صدمات کی تفصیلات تصویروں کی زبانی حافظہ کا زیادہ حصہ بنی ہیں ؟ میدان جنگ کی تصویریں بھی فوٹوگرافی کا ایک اہم حوالہ ہیں ۔ میدان جنگ کی نئی اور پرانی تصویریں انسانی زندگی کی بےحرمتی کو سامنے لاتی ہیں لیکن ان تصویروں کو دیکھ کر انسانی زندگی کی بے حرمتی معمول کا عمل معلوم ہوتی ہے اور ساتھ ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے تصویروں نے بے حس معاشرے کو کچھ اور سخت دل بنا دیا ہے۔یہ تصویریں فوٹوگرافر کی سیاست سے کہیں زیادہ حکومت اور سیاست سے تحریک پا کر وجود میں آتی ہیں ۔ کیمرہ کی آنکھ کو کہاں تک جانا چاہیے اور کہاں سے رخ پھیر لینا چاہیے یہ بھی فوٹوگرافی کی سیاست کا ایک افسوسناک پہلو ہے۔ تہذیبی زندگی میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ فوٹوگرافی کے وقت بعض چہروں کو نمایاں کر کے کچھ چہروں کو دھندلا کر دیا جاتا ہے یا انہیں منظر نامے سے غائب کر دیا جاتا ہے۔یا یہ کہا جاتا ہے کہ اپ اپنی جگہ تبدیل کر لیجئے۔فوٹوگرافی، فوٹوگرافی کی سیاست اور فوٹوگرافی میں سیاست ایک ایسا موضوع ہے جو نئے سرے سے اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے : کیا واقعی دیگر ممالک امریکہ کو لوٹ رہے ہیں؟
میرؔ نے کہا تھا:سیاہ و سفید تصویریں انسانی خون کے چھینٹوں سے بھی پہچانی جاتی ہیں ۔یوں بھی وقت کے ساتھ سرخ رنگ سیاہی مائل ہو جاتا ہے۔تصاویر مختلف مقاصد کے ساتھ بھی تنہا ہو جاتی ہیں ۔فوٹوگرافر کیمرے کی آنکھ اور اس کی تنہائی کہ ساتھ کہیں دور نکل جاتا ہے۔فوٹوگرافی کی سیاست اور فوٹوگرافی میں سیاست دونوں کا رشتہ سیاست سے قائم ہو جاتا ہے۔اصل سوال یہ ہے کہ ہم کس کی اور کیسی تصویر دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ایک خاص وقت اور صورتحال کو تصویر میں دیکھنے کے باوجود چھپے ہوئے لفظ سے اس کارشتہ کس طرح قائم کرتے ہیں ۔کبھی لفظ کے مقابلے میں تصویر زیادہ اہم معلوم ہوتی ہے۔چھپے ہوئے لفظ کی سیاہی تصویر پہلے ہی اپنے وجود میں شامل کر چکی ہوتی ہے۔ایک سیاہی ہے جو سرخ ہے ۔باقر مہدی نے کہا تھا۔کالے سے لال رنگ کا اظہار کر گئے۔