• Fri, 21 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

(ووٹ) چوری کا دکھڑا بیان کرنیوالے ڈکیتی کا شکار

Updated: November 21, 2025, 1:51 PM IST | shamim Tariq | mumbai

کانگریس رہنما جے رام رمیش نے پریس کانفرنس میں اچھی بات کہی کہ کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے ۹۰؍ فیصد اسٹرائک ریٹ حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے مگر یہی باتیں انہیں عدالت میں کہنا چاہئیں۔

INN
آئی این این
بہار اسمبلی کے انتخابات مکمل ہوئے، نتائج بھی سامنے آئے، ان پر تبصروں  سے بھی اخبارات بھرے ہوئے ہیں  اس لئے مزید تبصرے کی ضرورت نہیں ، البتہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ انتخابات کن حالات میں  لڑے گئے؟ کہنے کو تو ایک طرف این ڈی اے اور دوسری طرف مہا گٹھ بندھن میں  شامل پارٹیاں  تھیں ۔ پرشانت کشور اور مجلس اتحاد المسلمین کو امید تھی کہ وہ بادشاہ گر (کنگ میکر) بن کر ابھریں  گی مگر ہوا یہ کہ مہا گٹھ بندھن کو این ڈی اے یا عوام نے کنارے لگا دیا اور نتیش کمار کو عین ممکن ہے کہ جلد یا بدیر وہ اتحاد ہی کنارہ لگا دے جس کے لئے انہوں  نے بظاہر جان توڑ محنت کی۔ اس کی ابتداء ہو بھی چکی ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک امیدوار کے لئے ووٹ مانگتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ مودی جی ان کو بہت اوپر لے جانا چاہتے ہیں ۔ عوام یہ محسوس کر رہے تھے کہ الیکشن غیر جانبدارانہ نہیں  ہے۔ نتیش کمار کا اتحاد بی جے پی کو اور تیجسوی کا اتحاد کانگریس کو دبائے رکھنا چاہتا تھا۔ بعض نشستوں  پر دوستانہ مقابلے بھی ہوئے جس کے برے نتیجے سامنے آئے، لالو پرساد یادو کے دونوں  بیٹوں  تیجسوی اور تیج پرتاپ بھی ایک دوسرے کے مقابل دیکھے گئے۔ الیکشن کمیشن نے یہ تفصیل بہت دیر بعد دی کہ کتنے مرد اور کتنی خواتین نے ووٹ دیئے۔ تیجسوی یادو نے بلاشبہ بہت محنت کی اور بے روزگاری کا مسئلہ اٹھایا مگر نتیش اور بی جے پی نے MY (مسلمان اور یادو) کو مہیلا اور یوتھ (خواتین اور نوجوان) میں  تبدیل کرکے الیکشن کا پانسہ ہی پلٹ دیا۔ اویسی نے مہا گٹھ بندھن سے چند نشستیں  مانگی تھیں  جو انہیں  نہیں  ملیں  تو وہ ناراض ہوئے۔ ان کی ناراضگی سے تیجسوی محاذ کو نقصان تو پہنچا مگر وہ پانچ ہی نشست جیت سکے۔ اتنی ہی سیٹ وہ گزشتہ اسمبلی میں  بھی جیتے تھے، یہ الگ بات ہے کہ چار اراکین اسمبلی بعد میں  آر جے ڈی میں  شامل ہوگئے۔ مجموعی طور پر دیکھیں  تو اویسی کے جھنڈوں  اور تقریروں  نے جو ماحول تیار کیا وہ بی جے پی اور اس کے اتحاد کو تو راس آیا تیجسوی اور ان کے محاذ کے لئے نقصادہ ثابت ہوا۔ مگر مشکل یہ ہے کہ اگر تیجسوی کے محاذ نے اویسی کو شامل کر لیا ہوتا تب بھی ان پر دوسرے قسم کا الزام عائد کیا جاتا اور بہرحال ان کا اتحاد نقصان میں  رہتا۔ مکیش سہنی کے نائب وزیراعلیٰ بنائے جانے کے اعلان نے بھی دوسری برادریوں  کو تیجسوی محاذ سے دور کیا  ان کو شکایت رہی کہ سہنی کی برادری ۵؍ یا ۷؍ فیصد سے زیادہ نہیں  ہے اور وہ بھی زیادہ تر این ڈی اے یعنی بی جے پی اتحاد کے ساتھ رہتی ہے اس کو تو اہمیت دی گئی مگر دوسری پارٹیوں  اور برادریوں  کو اہمیت نہیں  دی گئی۔ کانگریس تو تنظیمی طور پر ختم ہوچکی ہے بہار میں  حکمت عملی بھی غلط اختیار کی گئی۔ شکیل احمد کے استعفیٰ اور اس میں  بیان کی گئی وجوہ کو نظرانداز نہیں  کیا جاسکتا۔
اس کے علاوہ مہا گٹھ بندھن میں  انتشار کا بھی اسے نقصان پہنچا۔ مسلمانوں  نے ووٹ نہ دیا ہوتا تو شاید تیجسوی بھی اپنی نشست نہ بچا پاتے مگر میرے خیال میں  حالیہ الیکشن میں  یہ بہت غلط پیغام عام ہوا ہے کہ مسلمان صرف اپنی پارٹی یا اپنی پارٹی کے کہنے پر ووٹ دیتے ہیں ۔ اس پیغام کو عام کرنے میں  ان تقریروں  کا بھی بہت ہاتھ ہے جن میں  کہا گیا کہ ۶، ۷؍ فیصد آبادی والی برادری کے لئے نائب وزیراعلیٰ تو مسلمان نائب وزیراعلیٰ کیوں  نہیں  جن کی آبادی سہنیوں  سے کہیں  زیادہ ہے۔ نتیش کمار پر حملہ کرنے میں  بھی کئی یا کافی لوگوں  نے توازن کھو دیا جس کا مہاگٹھ بندھن کو یوں  خمیازہ بھگتنا پڑا کہ نتیش کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنے والوں  کی تعداد بڑھتی گئی۔ کچھ دوسرے عوامل بھی ہیں  جن کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ نتیش حکومت کے ووٹ بڑھ گئے مثلاً شرد پوار کا یہ کہنا کہ خواتین کے اکاؤنٹ میں  ۱۰؍ ہزار روپیوں  کا ڈالا جانا نتیش کی جیت کا سبب بنا مگر کیرالا کے بی جے پی صدر راجیو چندر شیکھر کا یہ اعتراف کہ ایس آئی آر کا انتخابی نتائج پر اثر واضح ہے کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟ اگر واقعی مہا گٹھ بندھن نے فرضی ووٹوں  کی مدد سے پرانے انتخابات جیتے تھے تو راجیو چندر شیکھر کا محض بیان دینا کافی نہیں  ان کی پارٹی اور حکومت کو فرضی ووٹوں  کی بنیاد پر انتخاب جیتنے والوں  کے خلاف قانونی کارروائی بھی کرنا چاہئے۔ کانگریس رہنما جے رام رمیش نے پریس کانفرنس میں  اچھی بات کہی کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے ۹۰؍ فیصد اسٹرائک ریٹ حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ انہوں  نے الیکشن کمیشن کے مکمل طور پر یکطرفہ ہونے کی بھی بات کہی۔ کالم نویس کا کہنا ہے کہ پریس کانفرنس سے جے رام رمیش کا خطاب برا نہیں  مگر یہی باتیں  انہیں  عدالت میں  کہنا چاہئیں ۔
سابق آئی پی ایس افسر امیتابھ ٹھاکر نے الیکشن کمیشن کے نام اپنے مکتوب میں  البتہ صحیح سوال اٹھایا ہے اور صحیح طریقۂ کار بھی اپنایا ہے کہ بہار میں  ۶۶ء۹۱؍ فیصد ووٹنگ ہوئی جس میں  ۷؍ کروڑ ۴۵؍ لاکھ ووٹروں  نے اپنے حق کا استعمال کیا جبکہ ایس آئی آر کے بعد ۷؍ کروڑ ۴۲؍ لاکھ ووٹرس کو اپنا حق استعمال کرنا تھا، اگر صد فیصد بھی ووٹنگ ہوئی تو ۳؍ لاکھ ووٹرس کیسے بڑھ گئے۔ اسی قسم کی باتیں  کمیونسٹ (ایم ایل) رہنما دیپانکر بھٹا چاریہ نے بھی کہی ہیں ۔ یہ سوال اہم ہے بھی اور اس کا جواب ملنا چاہئے۔
 
 
ایک بات کالم نویس کے ذہن میں  بھی ہے وہ یہ کہ نتیش کمار نے نتائج کے پانچویں  دن تک استعفیٰ کیوں  نہیں  دیا ہے؟ اور وہ چراغ پاسوان و جیتن رام مانجھی سے کیوں  ملے تھے؟ کیا انہیں  بھروسہ نہیں  ہے کہ بی جے پی ان کو وزیراعلیٰ بنائے گی؟ ایک بات یہ بھی ہے کہ وہ کیوں  سمجھتے ہیں  کہ ان کے حکومت سازی کرنے کی صورت میں  تیجسوی کی پارٹی ان کا ساتھ دے گی یا وہ وزارت اعلیٰ کی کرسی کو برقرار رکھ سکیں  گے۔ نتیش کا تیجسوی (یا لالو) کی طرف بار بار پلٹنا ان کی کمزوری سمجھا جا رہا ہے، نتیش کی حکمت عملی نہیں ۔ آر جے ڈی کے سابق ریاستی صدر جگدا نند سنگھ کے بارے میں  بھی یہی پوچھا جاسکتا ہے کہ وہ عدالت کے سامنے کیوں  نہیں  کہتے کہ ہر ای وی ایم میں  ۲۵؍ ہزار ووٹ پہلے سے موجود تھے؟ بہرحال جب یہ سطر آپ پڑھ رہے ہوں  گے نتیش کمار وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھ چکے ہوں  گے مگر شاید اس لئے کہ ان کو وزیراعلیٰ نہ بنائے جانے کی صورت میں  مرکزی حکومت کے گرائے جانے کا خطرہ تھا مگر خطرہ اب بھی ہے لیکن دوسری قسم کا۔ سارے حقائق اگر عدالت کے سامنے لائے گئے تو بہار انتخابات کو ہی غیر قانونی قرار دیا جاسکتا ہے۔ جب نتیش کمار وزیراعلیٰ رہیں  گے نہ اسمبلی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK