Inquilab Logo Happiest Places to Work

کون کہتا ہے کہ حب الوطنی پر کسی کو کوئی اختلاف ہے

Updated: May 10, 2025, 3:13 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

بلاشبہ ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنے ملک سے بے پناہ محبت ہے۔ امیر خسرو نے وطن ہند کی جو تعریف کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

پہلگام کے بعد کے حالات میں سفارتی سرگرمیاں تو تیز تر ہوئی ہی ہیں ، بھارت نے دریائے چناب بگلیہار ڈیم باندھ کر پانی کے فلو (روانی) کو بھی روک دیا ہے، اب وہ کشن گنگا ندی میں باندھ باندھ کر بھی اسی قسم کی تیاریوں میں ہے۔ ذرائع کے مطابق جموں کے ہائیڈرو الیکٹرک باندھ اور شمالی کشمیر میں ہائیڈرو الیکٹرک باندھ بھارت کو پانی چھوڑنے کے وقت کو ریگولیٹ کرتے ہیں ۔ یہ کام آسانی سے نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت نے ۱۹۶۰ء میں یہ کام عالمی بینک کو درمیان میں ڈال کر کیا تھا۔ بگلیہار ڈیم بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک طویل عرصے سے متنازع معاملہ ہے۔ پاکستان اس معاملے میں عالمی بینک سے مدد لینے کا مطالبہ بہت پہلے کر چکا ہے۔ اسی دوران فضائیہ کے چیف نے وزیراعظم سے ملاقات کی۔ کسی کا فوٹو چھپ جانے کے سبب بھی دو افراد کے گرفتار کئے جانے کی خبر ہے۔ پاکستان نے دو بندرگاہوں کو بھی بند کیا ہے جہاں پاکستانی پرچم کے ساتھ کئی آبدوزیں سرگرم تھیں ۔ 
 ایسے میں وزیراعظم کی رہائش پر وزیراعظم شری نریندر مودی اور سنگھ سربراہ مومن بھاگوت کی ملاقات کی اہمیت اور معنویت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم کے دفتر اور سنگھ پریوار کے ذرائع نے کوئی جانکاری نہیں دی ہے اس لئے یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ دونوں میں کیا بات ہوئی ہوگی۔ اگر چندر شیکھر کا ایک انٹرویو ذہن میں ہو تو اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ہوا یہ کہ جب چندر شیکھر سے پوچھا گیا کہ راشٹر پر سنکٹ یا بحران کی گھڑی ہو تو اس سنکٹ کو دور کرنے کا کام کون کرے گا؟ چندر شیکھر نے فوری طور پر جواب دیا کہ ہندوستان کی مسلح افواج اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ۔ چندر شیکھر کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ پکے سماجوادی یا سوشلسٹ تھے۔ اس سے پہلے وزیراعظم وزیر دفاع اور تینوں افواج کے سربراہوں سے ملے تھے۔ اسی ملاقات میں تینوں افواج کو وقت مقرر کرنے اور اپنے طریقے کے مطابق جواب دینے کا اختیار دیا تھا۔ اس ملاقات میں سنگھ نے اپنی بھاؤنا سے یا جذبات سے افواج کو باخبر کر دیا ہوگا۔ 
 سنگھ نے دہشت گردانہ حملے کے بعد جو بیانات دیئے ہیں ان سے بھی اس کے دل کی بات ظاہر ہوتی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو آپسی اختلافات سے اوپر اٹھ کر دہشت گردوں کو سزا دینے کی بات کرنا چاہئے۔ دہلی کے ایک پروگرام میں بھی موہن بھاگوت جی نے کہا تھا کہ ہم اپنے پڑوسیوں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے لیکن کوئی غلط راہ کا انتخاب کرے گا تو اس کو تو جواب ملنا ہی چاہئے۔ پہلے پہلگام میں ایک ایک سے ان کے نام پوچھے گئے پھر انہیں نشانہ بنایا گیا اب ’اشٹ بھجا شکتی‘ سے ’اَسُروں ‘ کو تباہ کیا جانا چاہئے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ عوام میں حملہ آوروں کے خلاف شدید غصہ ہے۔ دوسری طرف ملک دشمن طاقتیں بھی سرگرم یعنی موقع کی تاک میں ہیں ۔ اس لئے دہشت گردوں کے خلاف ہمہ گیر اقدام کی صورت میں داخلی سلامتی بھی ایک اہم مسئلہ ہوسکتی ہے۔ یہ اس صورت میں اور بھی مشکل ہے جب ہر فیصلہ کن اقدام کی مخالفت کرنے والے یا اس کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والے یہاں موجود ہیں ۔ سنگھ کی ۴۴؍ جدید تر تنظیمیں ہیں کام کرنے والوں کا تو بہت بڑا طبقہ ہے جو فعال بھی ہے۔ 
 پہلگام کا حملہ تو ہندوستان کی سر زمین پر ہوا مگر اس کے تانے بانے عالمی سیاست سے بھی ملے ہوئے ہیں ۔ اس نیریٹیو سے ہی کشمیریوں اور مسلمانوں کی آزادی اظہار رائے کا بھی معاملہ ہے مگر آزادی اظہار رائے کا معاملہ بھی ایک خاص دائرے تک محدود ہے۔ اس آزادی کو لامحدود نہیں کہا جاسکتا۔ 
 ’ہندوستان دوستی‘ سے کسی کو اختلاف نہیں ہے جو ہندوستانی ہے اس کو ہندوستان سے پیار کرنا ہی ہوگا مگر اس ہندوستان دوستی کی شکل کیا ہوگی یہ ایک سوال ہے؟ ایک بار نہیں ہم ہزار بار کہتے ہیں کہ ہندوستان ہمارا وطن ہے اور اس وطن کو ہم جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں مگر اس شرط کے ساتھ کہ ہندوستان دوستی کو وطن کی پرستش کی شکل میں نہ پیش کیا جائے۔ مسلمان کا مذہب زمین کے کسی ٹکڑے کو پوجنے کی اجازت نہیں دیتا چاہے یہ زمین کا ٹکڑا ہندوستان جنت نشاں ہو یا کعبہ ہو یا مدینۃ الرسول ہو۔ مسلمان کعبہ کی نہیں کعبہ کے خالق کی پرستش کرتا ہے۔ 
 بندے ماترم کہنے میں بھی اس کو اعتراض اس وقت ہوتا ہے جب بندے کا ترجمہ پرستش کرنا لیا جاتا ہے اپنے وطن کی تعریف سے اس کا مذہب اس کو نہیں روکتا۔ امیر خسرو نے وطن ہند کی جو تعریف کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اقبال کی نظم میں بھی جب معنی کی کئی ترسیل ایک دوسرے کی جگہ لے لیتی ہے تو اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ کہہ کر تو اقبال نے وطن سے بے پناہ محبت کا اظہار کیا ہے۔ اس ترانۂ ہندی میں کہیں ’وطنیت‘ ’ترانۂ ملی‘ جیسی نظموں کا کوئی مصرع نہیں ہے۔ حیرت صرف ان پر نہیں جو خاصے پڑھے لکھے ہیں اور محبت و پرستش میں فرق نہیں کرتے حیرت ان پر بھی ہے جو تھوڑا سا فائدہ اٹھانے کے لئے مسلمان کے گھر پیدا ہو کر بھی اپنی محبت کو پرستش کی شکل میں پیش کرتے ہیں ۔ اگر سنگھ پریوار چاہتا ہے کہ ہندوستان کا ہر شخص ہندوستان سے محبت کرنے والا اور اس کے لئے جان دینے والا ہو تو ہم بھی یہی کہتے ہیں مگر ساتھ میں یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ مہارانا پرتاپ اور شیواجی کی فوج تو مسلمانوں کے بغیر مکمل نہیں ہوئی پھر موجودہ کابینہ مسلمانوں کے بغیر مکمل کیوں ہے اور بلاشبہ جناح نے ملک کی تقسیم کا نعرہ دیا تھا ان کا نام تو لیا جاتا ہے مگر ان کے مقابلے وہ دس افراد جنہوں نے تقسیم کی مخالفت کی تھی فراموش کیوں کر دیئے گئے ہیں ؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK