• Tue, 14 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا ٹرمپ کو رِجھانے کی کوشش کارگر ہوگی؟

Updated: October 14, 2025, 4:46 PM IST | P. Chidambaram | Mumbai

غزہ جنگ بندی معاہدہ پروزیر اعظم مودی نے امریکی صدر کی تعریف کی۔ انہیں ٹرمپ کی تعریف کرنے کی اتنی عجلت کیوں تھی یہ سمجھنا مشکل ہے کیونکہ صدر ٹرمپ کا رویہ ہندوستان کے ساتھ دوستانہ تو ہے نہیں، وہ تو دشمنی پر آمادہ ہیں۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این
وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے۴؍ دن کے وقفے میں ایک نہیں بلکہ دو بار کسی فرد کی تعریف کرنا غیر معمولی بات ہےلیکن انہوںنے ایسا کیا ہے۔تعریف انہوں نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی کی ، وجہ وہ منصوبہ تھا جو ٹرمپ نے غزہ جنگ کے خاتمہ کیلئے اسرائیل اورحماس کوایک معاہدہ پر لانے کیلئے پیش کیا تھا ۔ ۳۰؍ستمبر۲۰۲۵ء کووزیر اعظم مودی نے ٹرمپ کے منصوبے کو’غزہ کے تنازع کو ختم کرنے کا ایک جامع منصوبہ‘ قرار دیا۔ یہ منصوبہ فلسطین اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ مغربی ایشیا خطے کیلئے پائیدار امن،سلامتی اورترقی کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ مودی نے ۷؍ زبانوں - عربی، چینی، انگریزی، فرانسیسی، روسی اور ہسپانوی کے ساتھ ساتھ عبرانی اور ہندی میں بھی بیان جاری کیا جو یقیناً ایک غیر معمولی قدم تھا۔۴؍ ا کتوبر وزیر اعظم مودی نے کہا’’ہم صدر ٹرمپ کی قیادت کا خیرمقدم کرتے ہیں کیونکہ غزہ میں امن کی کوششوں میں فیصلہ کن پیش رفت ہوئی ہے۔‘‘
حماس اور اسرائیل نے منصوبے کے پہلے مرحلے پر اتفاق کیا ہے۔ مزاحمتی تنظیم حماس یرغمالوں کو رہا کرے گی اور اسرائیل حملے روکے گا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ کب، لیکن جلد ہی ہوگا۔ معاہدہ کے بعد غزہ اور اسرائیل دونوں ہی جگہ شہری جشن منانے سڑکوں پر اتر آئے۔ حماس نے ابھی تک اس منصوبے کی متعدد شرائط کو قبول نہیں کیا ہے، خاص طور پر غزہ کاکنٹرول کسی بیرونی اتھاریٹی کو کنٹرول دینے پر۔
فطری طور پر، سوالات اٹھ رہے ہیں کہ وزیر اعظم مودی نے ٹرمپ کی تعریف اور انہیں خوش کرنے کیلئے اتنی بے چینی کیوں دکھائی جب کہ ٹرمپ نے ۲۰؍ جنوری ۲۰۲۵ء کو عہدہ صدارت پر فائز ہونے کے بعد سے ہندوستان کو مسلسل زک پہنچائی ہے اور اس کی تذلیل کی ہے ۔ صدر کے طور پر اپنی پہلی مدت (۲۰۲۱- ۲۰۱۷ء) میں ٹرمپ نے اسٹیل (۲۵؍ فیصد ) اور ایلومینیم (۱۰؍ فیصد ) پر ٹیرف لگا کر ہندوستان اور دیگر ممالک کو نشانہ بنایا اور ہندوستان کو ملنے والے جی ایس پی فوائد کو ختم کردیا۔۲۰۲۰ء میں انہوں نے اس ویزا کے کئی زمروں کو معطل کر دیا تھا جو ہندوستانی استعمال کرتے تھے، خاص طور پر ایچ وَن بی ۔ اس کے باوجود ۲۲؍ ستمبر ۲۰۱۹ء کو ہاسٹن، ٹیکساس میں ایک ریلی میں، مودی نے ’ اب کی بار، ٹرمپ سرکار‘کا نعرہ بھی دیا۔
اپنی دوسری میعاد کے ابتدائی۹؍ مہینوں میں، ٹرمپ نے ہندوستان (اور برازیل) پر سب سے زیادہ محصولات عائد کر دیے جس سے امریکہ کو اسٹیل، ایلومینیم، ٹیکسٹائل، جواہرات اور زیورات، سمندری خوراک، دواسازی، جوتے، فرنیچر، کاریں اور کھلونوں کی امریکہ کو برآمدات روک دی گئی ہیں۔ انہوں نے ہندوستان پر روس سے تیل خرید کر یوکرین کے خلاف جنگ میں فنڈنگ کرنے کا الزام لگایا اور ہندوستانی اشیاء پر۲۵؍ فیصد اضافی ٹیرف عائد کیا۔ ان کے قریبی ساتھی سینیٹر لینڈسے گراہم نے ہندوستان کو تباہ کردینے اور اس کی معیشت کو کچل دینے کی دھمکی دی تھی ۔ ٹرمپ نے ہندوستان کو’ ٹیرف کنگ‘ کہا اور ان کے تجارتی مشیر پیٹر ناوارو نے مزید سخت تنقید کی ۔ہندوستان اور روس کے تعلقات پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے دونوں کو ’’مردہ معیشت‘‘ قرار دیا تھا ۔ ٹرمپ نے بعد ازاں ایچ وَن بی ویزاکی درخواستوںکی فیس بھی ایک لاکھ ڈالر تک بڑھا دی اور اسٹوڈنٹ اور شریک حیات کے ویزا جاری کرنے کے قوانین کو سخت سے سخت تر کردیا۔ فروری-مئی۲۰۲۵ء میں، ایک ہزار سے زائد ہندوستانیوں کو، جو مبینہ طور پر غیر قانونی تارکین وطن تھے، فوجی طیاروں میں ہتھکڑیوں اور زنجیروں کے ساتھ ہندوستان بھیج دیا گیا۔
پہلگام حملے کے تناظر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی کشیدگی پرہندوستان کے موقف کو نظر انداز کرتے ہوئے مئی۔جون۲۰۲۵ء میں پاکستان انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ(آئی ایم ایف) کی جانب سے ایک بلین ڈالر ، اے ڈی بی کی جانب سے۸۰۰؍ ملین ڈالر اور ورلڈ بینک کی جانب سے ۴۰؍ بلین ڈالرکی امداد ا مریکہ کے تعاون سے دی گئی ۔ ٹرمپ ہندوستان کی جانب سے مسلسل تردید کے باوجود دعویٰ کرتے رہےکہ ہندپاک جنگ رکوانے کیلئے ا نہوں نے ثالثی کی اور یہ دعویٰ وہ اب بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آخری رسوائی اس وقت ہوئی جب انہوں نے پاکستان کے آرمی چیف کی ۱۸؍جون کو وہائٹ ہاؤس میں شاندارمیزبانی کی۔۲۵؍ ستمبر کوصدرر ٹرمپ نے وزیر اعظم اور آرمی چیف کے ساتھ ایک مشترکہ میٹنگ کی اور انہیں پاکستان کے ’عظیم لیڈر‘ کہہ کر مخاطب کیا ۔ اس کے عوض پاکستان کی طرف سے امریکہ کو نایاب معدنیات کی فراہمی کی پیشکش کی گئی نیز امریکہ کی جانب سے پاکستانی مصنوعات پر۱۹؍فیصد ٹیرف کے ساتھ تجارتی معاہدے پر مہر لگا دی گئی ۔بعد ازاں پھر پاکستان نے امریکہ کو بحیرہ عرب پر بندرگاہ بنانے اور چلانے کی دعوت دی ۔ٹرمپ وہ باتیں بھول گئے جب امریکہ نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کیخلاف آپریشن کیا تھا ۔ ٹرمپ نائن الیون بھی فراموش کرگئے۔ انہیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ کبھی ا نہوں نے پاکستان کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ قراردیا تھا ۔پھر پاکستان کے حوالے سے دیکھا جائے توایسا لگتا ہے کہ اس نے بیک وقت دو گھوڑوں (امریکہ اور چین) کی سواری کا فن سیکھ لیا ہے۔ جنوری۲۰۲۵ء سے اب تک امریکہ نے ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے جسے ہندوستان کے ساتھ دوستانہ قرار دیا جا سکتا ہو ۔ ہندوستان اورامریکہ تعلقات ایک ایسے ایسکیلیٹر پر ہیں جو نیچے کی طرف جاتا ہے اوروزیر اعظم مودی اس ایسکیلیٹر پر اوپر کی جانب چڑھنے کی کوشش کررہے ہیں۔دلچسپ سوال یہ ہے کہ ہندوستان کے وزیر اعظم اسرائیل کے حمایت یافتہ ’امن منصوبے‘ کے موقع کو استعمال کرتے ہوئے ٹرمپ کی تعریف کرنے کیوں کود پڑے۔ 
میری نظر میں، جنگ آخرکار رُک سکتی ہے، یرغمالوں (یا جو زندہ نہیں ہیں ان کی باقیات) کا جلد ہی تبادلہ کیاجاسکتا ہے اور غزہ کے بے سہارا باشندوں تک انسانی امداد پہنچ سکتی ہے، لیکن اس معاہدہ کے تحت غزہ خود ایک’ غیر سیاسی کمیٹی‘ کے تحت ایک مجازی کالونی ہو گا جس کی نگرانی ٹرمپ اور بلیئر کی پسند پر مشتمل ’بورڈ آف پیس‘ کرے گا۔ فلسطین کا خودمختار ریاست کا خواب پورا ہونا انتہائی مشکل ہے۔وزیر اعظم نے جو کہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہےکہ ا نہوں نے محسوس کیا ہے کہ دنیا میں ہندوستان کے بہت کم دوست ہیں اور ہندوستانی معیشت اتنی لچکدار نہیں ہے کہ وہ اپنے ارد گرد اٹھنے والے طوفانوں کا مقابلہ کر سکے لیکن تملق پیشگی، محتاط سفارت کاری ،بہتر تجارت اور سرمایہ کاری کی پالیسیوں کا متبادل نہیں ہو سکتی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK