’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں، ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
EPAPER
Updated: September 03, 2024, 12:59 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai
’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں، ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
اسکول انتظامیہ اور والدین کا محتاط رہنا ضروری
بدلا پور میں دوطالبات کے ساتھ جو ہوا ایسی حرکتوں کو روکنے کیلئے اسکول انتظامیہ کے ساتھ ساتھ والدین بھی تیار رہیں۔ کھانے پینے کے وقفے کے دوران اسکول کے عملہ کا چوکس رہنا بہت ضروری ہے۔ وقفے میں بچوں کی کڑی نگرانی کریں خصوصاً ایچ ایم اپنی کرسی چھوڑ کر تمام کلاسوں کا معائنہ کریں ۔ بہتر صورت یہ بھی ہوسکتی ہے طالبات کی کلاس بالکل الگ ہوں اور بطور کلاس ٹیچر کسی خاتون کا تقرر کیاجائے۔ والدین بھی وقفے وقفے سے اسکولوں کا معائنہ کرتے رہیں۔ بچے جب شام کو گھر لوٹتے ہیں تو والدین کو چاہئے کہ ان کے سروں پر شفقت سے ہاتھ پھیریں، پڑھائی سےمتعلق باز پرس کریں ۔ پیارومحبت سے باتیں کریں تاکہ وہ کسی کی قابل اعتراض حرکت سے متعلق کسی کی بات کو مخفی نہیں رکھیں۔ انتہائی باریک بینی سے بچوں کے حالات کا جائزہ لیں، اس کو معمول بنائیں ۔ اس کا اثریہ ہوگا کہ شام کو گھر پہنچتے ہی بچے ہر بات کو پوری سچائی اور ایماندار ی کے ساتھ بیان کریں گے۔ اس طرح کوئی بھی ان کی معصومیت کا فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔
زبیر احمد بوٹکے(نالا سوپارہ)
اس کاحل صرف’ اسلامی قانون‘ ہے
’عصمت دری‘ کا گھناؤنا سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے، انسانیت شرمسار ہے۔ لڑکیاں بلکہ عمردراز خواتین، اسکول اور ہائی اسکول کی بچیاں تک محفوظ نہیں۔ کولکاتا، بدلا پور اور دیگر مقامات کے شرمناک واقعات سب کے سامنے ہیں۔ ان حالات اور واقعات نے ہر شخص کو دعوت ِ فکر دی ہے۔ تاریخ انسانی گواہ ہے کہ نبی آخر الزماں ؐ نے اپنی تعلیم وتربیت سے ایک ایسے سماج کو اخلاق واعلیٰ کردار، صدق وصفا، عدل وانصاف اور عفت وپاکدامنی کی روشن مثال بنادیا جو جرائم پیشہ تھا۔ آپؐ نے ’سوچ‘ کو بدلا، جرائم کے راستوں کا سد باب کیا، گناہوں کے دروازوں پر خوف خدا کا پہرہ بٹھادیا۔ سنگین جرائم پر سخت سزاؤں کا نفاذ فرمایا۔ آج جب کہ بدلاپور جیسے حالات کی وجہ سے انسانیت منہ چھپانے پر مجبور ہے، ہمارا یقین وایمان ہے کہ اس کاحل صرف’ اسلامی قانون‘ ہے۔ چند سال پہلے راج ٹھاکرے بھی یہ کہنے پر مجبور ہوئے تھے۔
مولانا نظام الدین فخرالدین(پونے)
ان ۱۰؍ باتوں پر عمل کیا جائے
(۱) چھوٹے بچوں کو گڈ اور بیڈ ٹچ کے بارے میں بتانا چاہئے۔ (۲) تھوڑے بڑے بچیوں کو سیلف ڈیفنس سکھانا چاہئے۔ (۳) بچیوں کو واش روم بھیجتے وقت خالہ ماں ساتھ ہونا چاہئے۔ (۴) بچیوں کے اسکول میں خواتین عملہ زیادہ سے زیادہ ہونا چاہئے۔ مرد عملہ کو اسکول کے گیٹ تک محدود رکھنا چاہئے۔ (۵) بچیوں کے واش روم میں ایمرجنسی گھنٹی لگانی چاہئے تاکہ ناخوشگوار حالات میں طلبہ اس کا استعمال کرسکیں۔ (۶) بچیوں کے اسکول میں مرد عملہ کا تقرر کرتے وقت اس کی مکمل شناختی جانچ کرنا چاہئے۔ (۷) مردعملہ کیلئے پولیس ویری فیکیشن سرٹیفکیٹ لازمی قرار دیناچاہئے۔ (۸) بچیوں کے جنسی استحصال کرنے والے مرد عملہ کو سخت سے سخت سزا دینا چاہئے تاکہ دوسرا کوئی مرد ایسی حرکت کرنے سے پہلے سو بار سوچے۔ (۹) لڑکیوں کے تمام اسکول میں سی سی ٹی وی کیمرہ لگاناچاہئے۔ (۱۰) لڑکیوں کے اسکول میں ایسی کمیٹی بنانی چاہئے جس میں اسکول کی ٹیچر، والدین اورایک خاتون ڈاکٹر شامل ہونا چاہئے جس کے ذریعے ایسے حالات پر قابو پایاجاسکے۔
ڈاکٹر سلیم احمد مومن( بھیونڈی)
پھانسی کی سزا تجویز کرنی چاہئے
بدلاپور جیسے حالات سے بچنے کیلئے مجرم اور ناقابل معافی جرم میں معاونت کرنے والے افراد کو قلیل وقت میں پھانسی کی سزا تجویز کرنی چاہئے۔ سزائے عمر قید میں متاثرہ کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔ بدعنوانی، سیاسی لیڈروں اور وزراء کے اثر ورسوخ کی وجہ سے مجرمین آسانی سے چھوٹ جاتے ہیں۔ ان مجرموں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ جب تک ہم مجرموں کے خلاف سخت اقدام کا اعلان نہیں کریں گے ان کاخاتمہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ بدلاپور جیسے حالات سے بچنے کیلئے مجرموں کے خلاف انصاف پسند وکلاء کی ٹیم کا تقرر کرنا ہوگا۔ ہر گاؤں ، دیہات اورشہر میں بہادر اور باہمت نوجوان کی مدد لی جائے۔ مجرمین کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے قوم کا درد رکھنے والے صاحب ثروت افراد کی مدد لی جائے۔ ہر سماج کے سرکردہ ذمہ داران کی اصلاح کمیٹی اور انصاف کمیٹی بنائی جائے۔ جو قانونی امداد کے لئے بھی ہمہ وقت تیاررہے۔
محمد اکبر حکیم (رمضان پورہ دیانہ، مالیگاؤں )
اسلامی سزا کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے
قرآن نے زندگی کے تمام گوشوں کیلئے رہنمائی فراہم کی ہے۔ زنا کی جو سزا قرآن نے بتائی ہے، جن اسلامی ممالک میں اس پر عمل ہورہا ہے، وہاں عصمت دری کے اس طرح کے واقعات نہ کے برابر ملیں گے۔ ہندوستان میں بھی اسلامی سزا کو اختیار کیا گیا تو ہندوستانی سماج ایک بہت بڑے فتنے سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ پھر احتجاج کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی کسی طرح کے ’بند‘ کی۔ یقین نہ آئے تو خلفائے راشدین کے زریں دور کا مطالعہ کریں۔ آپ بھی میری اس رائے سے متفق ہوجائیں گے کہ عصمت دری کا صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے اسلامی سزا۔ کوئی تو بات تھی کہ گاندھی جی نے کہا تھا کہ ’’ میں حضرت عمرؓ کے جیسا اور دیکھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘
محمدیعقوب ایوبی ( سبکدوش معلم، تہذیب ہائی اسکول، مالیگاؤں )
سزائے موت ہونی چاہئے
ایسے مجرموں کوسزائے موت ہونی چاہئے ۔ اسی طرح اسکولوں ، کالجوں اور کام کی جگہوں پر خواتین کے احترام کے بارے میں تعلیم دیں۔ جنسی تشددکے قانونی نتائج کے بارے میں بتائیں۔ سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب میں اضافہ کریں ۔ ایسے حفاظتی ایپس کے استعمال کو فروغ دیں جن کی مدد سے خواتین ہنگامی حالت میں حکام یا دیگر معاون ذرائع سے فوری طور پر رابطہ کرسکیں۔ ایسے واقعات پر قابو پانے کیلئے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، کمیونٹی اور سول سوسائٹی کے درمیان تعاون کی ضرورت ہے۔
کے آرپی ( میرا روڈ)
فاسٹ ٹریک کورٹ کے ذریعے فیصلہ کیا جائے
کولکاتا کےآر جی کراسپتال میں خاتون ڈاکٹر کے ساتھ جو گھناؤنی حرکت کی گئی، اس کے خلاف سارے ملک اور بیرونی ممالک میں سخت احتجاج کیا گیا۔ ابھی اس درد ناک واقعہ سےلوگ سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ بدلا پور کے اسکول میں ۲؍ بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی جس کے خلاف مظاہرین نے ریلوے ٹریک پر زبردست احتجاج کیاجس کےبعد مقامی پولیس اور سوئی ہوئی سرکار نیند سے بیدار ہوئی۔ جہاں تک خواتین کے تحفظ کی بات ہے تو پولیس ایسے حساس اور سنگین معاملات پر کس قدر سنجیدہ ہے، یہ اس بات سے اندازہ لگتا ہے کہ اس گھناؤنے جرم کے خلاف ایف آئی آر ۱۲؍گھنٹوں کے بعد درج کی گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسکول کا مالک بی جے پی کا لیڈر ہے۔ ۲۰۱۲ء میں نربھے کانڈ سے لے کر بدلاپور تک ایک طویل فہرست ہے جس میں پولیس اورسیاسی لیڈروں کی اپنی ملی بھگت سے خواتین کے خلاف جنسی زیادتیاں روکنے میں ناکامی ہوئی۔ کچھ میں تو خود سیاستداں سوامی چنیا نند، کلدیپ سنگھ سنگار اور خود ساختہ بابا جیسے آسا رام اور بابا رام رحیم ملوث پائے گئے۔ حالانکہ نربھے کانڈ کے بعد ملک میں سخت قانون لائے گئے مگر ان جرائم میں کمی کے بجائے زیادتی دیکھنے کو ملی۔ نربھے معاملے میں ملزموں کو۲۰۲۰ء یعنی ۸؍ سال کے طویل عرصے بعد پھانسی دی گئی۔ ریاستی حکومتیں اگر واقعی سنجیدہ ہیں تو سپریم کورٹ کی ۲۰۱۳ء وشا کھا ہدایات اس کے علاوہ سخت پاکسو قانون اور ایسے معاملات کو فاسٹ ٹریک کورٹ کے ذریعے فیصلہ ۳؍ مہینے کے اندر اندر ختم کرکے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانا لازمی ہے۔
سید معین الحسن انجینئر (ویمان نگر، پونے)
سوشل میڈیا کے ذریعے عریانیت اور فحاشی کے پھیلاؤ کو روکا جانا چاہئے
بدلا پورمیں اسکول کی بچیوں کے جنسی استحصال کے واقعہ نے پورے ملک کو شرمسار کر دیا ہے۔ بدلا پور جیسے حالات سے بچ پانا ناممکن تو نہیں مگر مشکل بہت ہے۔ ایسے حالات رونما ہونے سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ معاشرے کے افراد اپنی سماجی ذمےداریوں اور اخلاقی فرائض بحسن و خوبی انجام دیں ساتھ ہی اس بنیادی مرکز کا خاتمہ کریں جہاں سے اس کے پھلنے پھولنے کا خدشہ اور اندیشہ ہو۔ سوشل میڈیا کے ذریعے عریانیت اورفحاشی کے پھیلاؤ کو روکا جانا چاہئے۔ موبائل فون پر عریاں فلموں کی فراہمی پر پابندی عائد ہونی چاہئے۔ آج کے معاشرے میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو بدلا پور جیسے واقعہ کیلئے ماحول پیدا کرنے کا ایک اہم سبب ہے۔ لہٰذا منشیات مخالف تنظیموں کو فعال بنانے کی سخت ضرورت ہے۔ ایسے واقعات کیلئے حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کا ’ دہرا‘ معیار بھی ختم ہونا چاہئے۔ جی آر میڈیکل کالج میں ڈاکٹرکے جنسی استحصال او رقتل کے معاملے میں آسمان سر پر اٹھا لینے والی سیاسی جماعتیں بدلا پور کے معاملے میں اپوزیشن پر سیاست کرنے کا الزام لگا رہی ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔
افتخار احمد اعظمی، (سابق مدیر’ضیاء ‘، مسلم یونیورسٹی علیگڑھ)
حکومت اسکولوں میں سی سی ٹی وی کیمرےلگانے کا نوٹیفکیشن جاری کرے
گزشتہ ۱۰؍ برس میں عصمت دری کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ این سی آر بی کے مطابق ملک میں روزانہ اوسطاً۸۶؍ معاملہ درج ہوتے ہیں جن میں ۱۰؍ فیصد تو نابالغ شکار ہوتے ہیں علاوہ ازیں دیکھا جائے تو ملک میں سیکڑوں واقعات ہوتے ہیں لیکن ان معاملات کو بدنامی کے ڈر سے منظرعام پر نہیں لایا جاتا ہے۔ ملک کے حالات کے تناظر میں سرپرستوں کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو چھیڑخانی جیسے نازیبا واقعات کے تعلق سے آگاہ کریں اور حکومت کو چاہئے کہ سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کیلئے نوٹیفکیشن جاری کرے۔
نور محمد خان، ممبئی
خواتین کا احترام اور مثبت سوچ پیدا کی جائے
اگر حالات پر نظر رکھی جائے اور ہمیں اس میں کچھ تبدیلی نظر آرہی ہو تو ہمیں متوجہ ہو جانا چاہئے اور اس کیلئے جو اقدامات ہم کر سکتے ہیں، انہیں انجام دینا چاہئے۔ منتظم یا سربراہ کو یہ پتہ ہونا چاہئے کہ کون سے شخص میں کیا خوبیاں اور کیا خرابیاں ہیں۔ عادات و اطوار پر گہری نظر رکھنی چاہیے اور اس بات کی کوشش کرنی چاہئےکہ ایسے افراد کی اخلاقی طور پر کیسے اصلاح کی جا سکتی ہے۔ صرف قانون سخت کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا اس کے اسباب اور ذرائع دریافت کر کے ان پر قدغن لگانا ضروری ہے سماج میں خواتین کے احترام کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ گھر میں والدین لڑکوں میں بہنوں کی عزت اور احترام پیدا کرے۔ اسکولوں اور کالجوں میں اساتذہ خواتین سے متعلق احترام کا جذبہ پیدا کریں ساتھ ہی ساتھ جو ٹی وی سیریل دکھائے جا رہے ہیں جن میں عشق، پیار و محبت، عداوت اور رقابت بتائی جارہی ہے جن سے بچوں کے ذہنوں پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس پر بھی قابو پانا ضروری ہے۔ بچوں کو اکیلے میں کسی سے بھی ملنے سے منع کریں۔ اسکول کے اوقات میں گروپ میں یا گروپ ہی میں کسی سے ملاقات ہو۔ ان باتوں پر سختی سے عمل کیا جائے گا تو بدلا پور جیسے حالات ان شاءاللہ پیدا ہی نہیں ہوں گے۔
محمد رفیق دیشمکھ (شہادہ)
ہم سے کہیں نہ کہیں کوئی لاپروائی ضرور ہورہی ہے
دن بدن تنزلی کا شکار معاشرے کے ذمہ دار ہم سبھی ہیں اور ہم سے کہیں نہ کہیں کوئی لاپروائی ضرور ہورہی ہے۔ ہر شخص اپنے کام کی ذمہ داری سو فیصد درست رکھیں تو ان شاءاللہ ان برائیوں پر بریک لگ سکتا ہے۔ اسکول اور کالج کے اسٹاف اپنے کام کے تئیں مثبت رویہ اپنائیں تو ماحول سازگار ہونے میں دیر نہیں لگے گی اور بیٹیاں محفوظ ہو جائیں گی۔ ان شاءاللہ تعالیٰ
محمد جاوید انور قادری ( مدرس، دارالعلوم اصلاح المسلمین ، کلیان)
بدلاپور جیسے واقعات کی روک تھام کیلئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے
بدلاپور جیسے واقعات کی روک تھام کیلئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ عوام کو چوکنا رہنا چاہئے اور بچوں کی حفاظت کے بارے میں اپنے محلوں اور شہروں میں عوامی آگاہی پھیلانی چاہئے۔ والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ کھل کر بات چیت کرنی چاہئے، انہیں ذاتی حفاظت کے اصول سکھانے چاہئے، گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کا فرق سمجھانا چاہئے ساتھ ہی ساتھ باقاعدگی سے اسکول کے ماحول سے جڑے رہنا چاہئے۔ اسکولوں کو اپنے عملے میں بھرتی کے سخت طریقے اپنانے، سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب ، عملے کی تربیت اور حساس علاقوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ رپورٹنگ کے واضح طریقے فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو لازمی طور پر سخت قوانین کا نفاذ کرنا چاہئے، اسکولوں میں حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانا چا ہئے اور بدسلوکی کے واقعات کا فوری جواب دینے کیلئے خصوصی تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دینی چاہئے۔ عوامی بیداری مہم اور بچوں کی حفاظت کی تعلیم کے فروغ سے محفوظ ماحول پیدا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ہیلپ لائنیں فراہم کی جانی چاہئے۔ ان اقدامات کو اپناکر ایک معاشرہ اپنے بچوں کی حفاظت کیلئے کام کر سکتا ہے اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔
عبید انصاری ھدوی( غوری پاڑہ، بھیونڈی)
ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے وزیرتعلیم نے گائیڈلائن جاری کی ہے
ملک میں جنسی زیادتی اور عصمت دری اور آبرو ریزی کے واقعات یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ملک کے مستقبل کو درندہ صفت حیوانوں اور شیطانوں سے کیسے بچایا جائے۔ خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم نے گویا ایک وباء کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ملک میں ہر ۲۰؍ منٹ میں زنا بالجبر کا ایک واقعہ پیش آتا ہے جبکہ جنسی زیادتی کے ۷۰؍ معاملات میں صرف ایک کیس کا اندراج ہو پاتا ہے۔ دارالحکومت دہلی اس معاملے میں سب سے آگے ہے۔ اس کے بعد عروس البلاد ممبئی کا نمبر آتا ہے۔ بدلاپورواقعہ کے کلیدی مجرم اکشے شندے کو بیچ چوراہے پر پھانسی دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تاکہ آئندہ اس کے اس قسم کی حرکت کرنے والوں میں ڈر اور خوف پیدا ہو۔ وزیرتعلیم دیپک کیسرکر نے طالبات کے تحفظ کے ضمن میں تمام اسکولوں کو سرکیولر جاری کے ساتھ گائیڈ لائن جاری کی ہے اور اس پر عمل کا حکم دیا ہے۔ سرکیولر میں ہر اسکول میں سکھی ساوتری کمیٹی شکایت باکس اور چوتھی جماعت کی طالبات کیلئے صرف خواتین کی تقرری جیسی ہدایت بھی ہے۔ سرکیولر کے مطابق اسکولوں اور احاطوں میں طلبہ اساتذہ اور غیر تدریسی عملی کیلئے سی سی ٹی وی کیمرہ لگانا ضروری ہے۔ جن اسکولوں میں ٹی وی کیمرہ نہیں لگائے جائیں گے، ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔ ایسے اسکولوں کی گرانٹ روکنے کے ساتھ ان کی لائسنس کو بھی منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ سیکوریٹی گارڈ، خاتون عملہ، سپاہی اور اس طرح کے دیگر ملازمین کا تقرربڑی ذمہ داری سے کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
انصاری محمد صادق (حسنہ عبدالملک مدعو وومینس ڈگری کالج، کلیان)
قوانین کے ساتھ احتیاط بھی ضروری ہے
صنف نازک کے تحفظ کیلئے موجودقوانین پر سختی سے عمل کیا جانا چاہئے اور اس کے اسباب پر غور کرکے ٹھوس لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے۔ اسے یوں کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی بارش میں بھیگنے سے بیمار ہو جائے تو اسے دوا کے ساتھ ہی بارش میں بھیگنے سے بچنے کا مشورہ بھی دیا جائے گا کیونکہ اگر مریض دوا لیتا رہا اور بارش میں بھیگتا بھی رہا تو مرض ختم نہیں ہوگا۔ ٹھیک اسی طرح صنف نازک کیلئے قوانین کے ساتھ ہی سماج میں قلبی پاکیزگی کا نظم بھی ہونا چاہئے۔ قلبی پاکیزگی کا نظم یہ ہے کہ صنف نازک کو مخلوط اور غیر محفوظ معاشرے سے ممکنہ طور بچایا جائے اور صنف نازک کے تقدس کو سمجھایا جائے.... اور اگر کہیں صنف نازک کی ضرورت ہوتو وہاں ان کے تحفظ و تقدس پر قلبی پاکیزگی کا نظم کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی اس قبیل کے مجرموں کو عوامی طور پر سزا دی جانی چاہئے اور سزاجلد دینی چاہئے تاکہ دوسروں کے دلوں میں خوف پیدا ہوسکے۔
مفتی محمد اختر علی واجد القادری (جامعہ اسلامیہ میراروڈ ممبئی)
سزائیں سخت کردی جائیں
ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے ضروری ہے کہ ہم بچیوں کو بچپن ہی سے ایسا لباس پہننے کی عادت ڈالیں جس سے ان کا پورا جسم ڈھکا رہے اور اسکول میں بچیوں کا یونیفارم بھی ایسا تجویز کریں جس سے جسم پورے طور پر چھپ جائے۔ بہت سے والدین بچیوں کو چھوٹی سمجھ کر ایسا مغربی لباس پہناتے ہیں جس سے جسم نظر آتا ہے اور بہت سارےاسکولوں کا یونیفارم اسکرٹ رہتا ہے۔ ان بچیوں کو شلوار پہننے کی اجازت نہیں رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ایسے مجرمین کو اسلامی قانون کی طرح سخت سزا دی جائے تاکہ وہ دوسروں کیلئے عبرت بنے...لیکن عام طور سے ہوتا یہ ہے کہ جب اس طرح کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو لوگ احتجاج کرتے ہیں، حکومت سے سخت سزا دینے کی اپیل کرتے ہیں اور پھر کچھ دنوں کے بعد بھول جاتے ہیں بلکہ یہاں تک دیکھا گیا کہ بلقیس بانو کے مجرمین کی جیل سے رہائی پر استقبال بھی کیا گیا تھا۔
ابو حماد صلاح الدین سنابلی (کرلا، ویسٹ ممبئی)
سوشل میڈیا پر لگام کسنا وقت کا تقاضا ہے
کولکاتا اور بدلا پور میں ہوئے جرائم کی ابھی گونج سنی ہی جار ہی تھی کہ دیگر ریاستوں میں بھی اس قسم کے جرائم ہونے لگے۔ ایسا کیوں ہوا؟ ایسا اسلئے ہوا کہ لوگوں کے دلوں سے قانون کا ڈر نکل گیا ہے۔ قانون کے نفاذ میں لاپروائی اور عدالتوں میں تاریخ پر تاریخ دینے کا نظام سے مجرمین کے حوصلے بڑھے ہیں۔ رشوت خوری بھی بڑی حد تک ذمہ دار ہے... اور سب سے بڑا ذمہ دار سوشل میڈیا اور سماج میں پنپنے والی آزاد خیالی ہے۔ سیاسی تنگ نظری بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ بعض جگہوں پر مجرمین کوکچھ اس طرح پھول ہار پہناتے ہیں، گویا وہ کوئی بڑا کارنامہ انجام دے کر آئے ہیں۔ اگر بدلا پور جیسے حالات سے بچنا ہے تو جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ شکنی اور سوشل میڈیا پر لگام کسنا ضروری ہے۔ ہرمذہب میں اچھی تعلیمات ہیں، انہیں عام کرنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی قانون کا نفاذ کرنے والوں کی کاؤنسلنگ بھی کی جانی چاہئے۔
مرتضیٰ خان( نیا نگر، میرا روڈ، تھانے)
بچے اور بچیوں پر نظر رکھنی چاہئے
جس معاشرے میں خواتین سے رکشا اور ٹرک چلوا کر فخر کیا جائے اور جس سماج میں جسم کے ایک چوتھائی حصے سے بھی کم لباس پہننے والوں کو ترقی یافتہ اور سر ڈھکنے والوں کو دقیانوسی قرار دیا جائے، ان سے نفرت کا اظہار کیا جائے اور ان پر پابندی لگانے کی بات کی جائے، اس سماج میں اس طرح کی برائیوں کے پھیلنے سے بھلا کیسے روکا جاسکتا ہے۔ ایسے میں ہمیں چاہئے کہ اپنے بچوں کو ان کی عمر کا لحاظ رکھتے ہوئےگھروں میں، اسکول میں اور مساجد میں تعلیم دیں اور ان برائیوں سے جو اخلاقی، جسمانی اور روحانی طور پر ان کیلئے نقصاندہ ہوں، ان سے آگاہ کریں۔ ان کے اوقات کہاں گزر رہے ہیں ؟ کن لوگوں کے ساتھ ان کا میل جول ہے، کس قسم کی کتابیں پڑھ رہےہیں اور موبائل کا استعمال کس طرح کررہے ہیں ؟ اس پر نظر رکھیں۔ یہ سب کام پیار ومحبت، اپنائیت، حکمت و تدبیر اور بہ ضرورت ڈانٹ ڈپٹ اور سختی سے کریں۔
ابو حنظلہ ( پونے)
شکایتوں کی سماعت والی کمیٹی ہر ادارے میں ہو
اس کیلئے ضروری ہے کہ طلبہ کے ساتھ ہی والدین کی بھی کونسلنگ ہو۔ طالبات کو سیلف ڈیفنس کی ٹریننگ دی جائے، بچوں کو سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے روکنے کیلئے والدین کی ذہن سازی ہو، کالج میں خواتین عملے کی زیادہ سے زیادہ تقرری ہو، ادارے کی سطح پر شکایتوں کی سماعت والی کمیٹی ہو اور واش روم میں گھنٹی لگائی جائے۔ اسکولوں اور کالجوں کیلئے مذکورہ انتظام کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اب اس پر سختی سے توجہ دینے اورذمہ داری کے ساتھ اسے عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ عصمت، پاکیزگی، آبرو اور عزت کے ان صدیوں پرانے تصورات اور اصلاحات پر بھی بات کی جانی چاہئے ورنہ صورتحال وہی رہے گی کہ اپنے۱۷؍ سے زیادہ معاشقوں کا ذکر کرنے والے جوش ملیح آ بادی تو مرد کے بچے رہیں گے اور سارہ شگفتہ خود کشی کرنے کے بعد بھی’نیمفو مینیا‘کا شکار کہلائے گی۔
حافظ افتخاراحمدقادری(کریم گنج، پورن پور، پیلی بھیت، یوپی)
ان حالات کی ایک بڑی وجہ ہمارا مخلوط تعلیمی نظام ہے، اس سے بچنا چاہئے
ہماری آزاد خیالی اور ہمارے مخلوط تعلیمی نظام کی وجہ سے بڑے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ اسی طرح ہمارے سماجی اور مذہبی پروگراموں میں بھی مرد و زن کے اختلاط بھی برائیوں کا سبب بن رہے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ ان سے چھٹکارا پانا بھی اب آسان نہیں رہا۔ بدلاپور جیسے سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ حکومت تمام سیاسی اور سماجی جماعتوں کو لے کر ایک مضبوط لائحہ عمل تیار کرے اور اس پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کرے۔ گاؤں اور شہروں میں ذہن سازی کے پروگرام منعقد کرکے لوگوں میں اچھا شہری بننے کی ترغیب پیدا کرے.... اس کے بعد بھی اگر ایسے جرم ہوتے ہیں تو مجرمین کیلئے قرار واقعی سزا کاانتظام ہونا چاہئے۔
محمد سلمان شیخ (تکیہ امانی شاہ، بھیونڈی)
اس قبیل کے مجرمین کو سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ لوگ عبرت لیں
بدلا پور جیسے حالات سے بچنے کیلئے لڑکے اور لڑکیوں کے اسکول الگ ہوں، لڑکیوں کے اسکولوں میں اساتذہ اور اسٹاف کے تمام لوگ لیڈیز ہوں۔ گھر سے اسکول لے جانے اور لانے کیلئے اپنے ہی گھر کا کوئی فرد ہو۔ اس کے علاوہ اس قبیل کے ملزمین کیلئے قبل از گرفتاری کی ضمانت منظور نہ کی جائے۔ تشدد کی شکار کوئی خاتون یا اُس کے رشتے دارایف آئی آر درج کرنے کو کہیں تو فور اًاس پر عمل ہو اورمجرم کو جس قدر ممکن ہو جلد از جلد گرفتار کیا جائے۔ سیاسی اثرورسوخ اور عہدوں کو خاطر میں نہ لایا جائے۔ کورٹ کا فیصلہ بھی جلد از جلد ہو، گواہوں اور ثبوتوں کی بھول بھولیوں میں قید ہوکر تاریخ پہ تاریخ دینے کا نظام تبدیل ہو۔ اس قبیل کے مجرمین کو ایسی سزا دی جائے کہ مجرم کی روح تک کانپ جائے اور صرف مجرم ہی نہیں بلکہ اسے دیکھنے والے بھی عبرت لیں۔
ش۔ شکیل (اورنگ آباد، مہاراشٹر)
اساتذہ، والدین اور سماج کی پہل سے اس طرح کے واقعات روکے جاسکتے ہیں
صرف حکومتوں کو ذمہ دار ٹھہرادینا ٹھیک نہیں ہے۔ اس طرح کے واقعات کو روکنے کیلئے اساتذہ، والدین اور سماج کی طرف سے بھی پہل کی ضرورت ہے۔ وقفے وقفے سے والدین کو اسکولوں میں جاتے رہنا چاہئے اور وہاں کے حالات کا جائزہ بھی لینا چاہئے۔ اگر انہیں کوئی خامی نظر آتی ہے تو وہ ان کی نشاندہی کرکے انتظامیہ کو آگاہ کرسکتے ہیں ۔ اسی طرح سماجی تنظیموں کے ذریعے بچوں کو حفاظت کی تدبیریں بتائی جاسکتی ہیں۔ ان کے علاوہ زیادہ اہم یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں میں اس بات کا شعور پیدا کریں کہ وہ ان حالات سے خود کو کیسے بچاسکتے ہیں۔
ممتاز احمد خان (گولی بار سانتا کروز، مشرق، ممبئی)
عریانت اورفحاشی کو غلط سمجھیں اور اس سے بچیں
یہ دراصل پردے اور طلاق کو ظلم کہنے والے سماج کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہاں عورتوں کی خبر تب تک نہیں لی جاتی جب تک کہ روپ کنور اور نینا ساہنی جیسے کیس سامنے نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ بدلا پور میں بھی اسکول کی جانب سے تساہلی برتی گئی۔ یہ ہمارے سماج کا رویہ ہی ہے جو آدمیت، اخلاق، اقدار، شرافت اور تہذیب کو جھلسا رہی ہے۔ اس سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ احکام الٰہی پر سختی سے عمل کریں اور عریانیت و فحاشی کو غلط سمجھ کر اس سے بچنے کی تدابیر اختیار کریں۔
عبدالرحمان یوسف (سبکدوش معلم، بھیونڈی)
اپنے بچوں کی تربیت نیک انداز میں کرنی چاہئے
اپنی اولادوں کو برائیوں سے بچنے کی تعلیم دیں اور اس تربیت کچھ اس انداز میں کریں کہ وہ خود ہی اس قبیل کی برائیوں سے دور رہنے کی کوشش کریں۔ اسی طرح سماج میں رائج گندی فلموں اورعریاں تصویروں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کریں، عوامی مقامات پرعورت و مرد کو کوئی ایسی حرکت کرنے کی اجازت نہ دی جائےجس سے دوسروں کے اندر جسمانی ہوس کی آگ بھڑکے۔ یہ کوشش ہمیں انفرادی سطح پر کرنی ہوگی۔ ہم میں سے ہرایک کو خود ہی اللہ تعالیٰ کی محبت اور آخرت میں عذاب سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے اوراللہ تعالیٰ سے ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھنے کی دعا کرنی چاہئے۔
مولانا حسیب احمد انصاری(مبلغ سنی دعوت اسلامی، بھیونڈی)
جرائم کی پردہ پوشی کرنے والوں کو بھی سخت سزا ملے
اس قسم کے جرائم کے خلاف سخت قانون بنانا لازمی ہوگیا ہے۔ ہر اسکول اور کالج میں سی سی ٹی وی کیمرہ لگانا بھی ضروری ہے۔ ہر اسکول میں ایک شکایتی پیٹی ہونی چاہئے۔ کے جی تا ساتویں جماعت کیلئے صرف اور صرف لیڈیز ٹیچر ہی کو رکھنا چاہئے۔ باتھ روم میں بچوں کو اکیلے نہیں جانے دیا جائے۔ ٹیچرس میں اگر کوئی مشکوک ہو تو اسے ہٹا دینا چاہئےاور اس قسم کے جرائم کی پردہ پوشی کرنے والوں کو بھی سخت سزا دینی چاہئے۔
ریاض نورانی (مالیگاؤں، مہاراشٹر)
قانون کا خوف ہی جرم کے سدباب کا واحد ذریعہ ہے
جنسی جرائم سے متعلق مقدمات کی سماعت تیزی کے ساتھ کی جائے اور انہیں وقت پرمکمل کیا جائے۔ اس کیلئے قانون کو مزید سخت کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ جنسی زیادتی، اجتماعی آبروریزی اوراس کے بعد بے رحمانہ قتل کی سزا میں کسی بھی طرح کی راحت نہیں دی جانی چاہئے۔ قانون کا خوف ہی جرم کے سدباب کا واحد ذریعہ ہے۔ جب وہ فطری، اخلاقی اور سماجی دباؤ سے خود کو الگ کرلے تو وہ سخت سزا کا مستحق ہو جاتا ہے۔ ایسے درندوں کو پھانسی یا اس سے بھی سخت سزا دے کر سماج کو بچایا جاسکتا ہے۔
غلام جیلانی (دارالعلوم قمر علی درویش، کیمپ، پونے)
بچوں سے مستقل بات ہونی چاہئے تاکہ وہ اپنے مسائل بتاسکیں
بدلاپور جیسے افسوسناک واقعات سے بچنے کیلئے معاشرہ، والدین اورتعلیمی اداروں کو مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے، اسکولوں میں سیکوریٹی کے نظام کو مضبوط کیا جائےجیسے کہ سی سی ٹی وی کیمرے اور خواتین عملے کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے۔ والدین کو بچوں سے مستقل بات چیت کرنی چاہئے تاکہ وہ ان سے اپنے مسائل بلاجھجھک بیان کر سکیں۔ بچوں کو ایسے حالات میں کیا کرنا چاہئے، اس کی بھی تربیت دی جانی چاہئے۔ اس کے علاوہ، معاشرے میں ایسے جرائم کے خلاف بیدار کرنا اور ان پر فوری قانونی کارروائی کرنا بہت اہم ہے تاکہ مجرموں کو جلد اور سخت سزا دی جا سکے۔
سالم ابن منور مہدی ( امبرناتھ، تھانے، مہاراشٹر)
لڑکیوں کے تحفظ کی ذمہ داری، لڑکوں کو بھی لینی چاہئے
بچیوں کواسکول جانے اور پھر واپس گھر آ نے کی ذمہ داری والدین کو لینی چاہئے۔ اسی طرح اسکولوں کے ہر کلاس روم میں سی سی ٹی وی کیمرے ہوں اور اس کی ریکارڈنگ کی مانیٹرنگ روزانہ کی بنیاد پر ہو۔ بیت الخلا اور واش روم میں لڑکیوں کی حفاظت کیلئے خاتون خا دمہ کی تقرری ہو۔ تعطیل کے وقت خاتون ٹیچروں کو چاہئے کہ وہ بچیوں پر توجہ دیں۔ یہ ذمہ داری اسکول کے ذمہ داران باری باری سے لگا سکتے ہیں۔ خادمہ پر بھی نظر ر کھی جائے۔ صدر مدرس کے ساتھ ہی کلاس ٹیچروں کو بھی اپنی کلاس کے طالبات کی نگرانی کرنی چاہئے۔ لڑکے اور لڑکیوں کیلئے بیت الخلا کا انتظام الگ الگ ہو۔ لڑکوں کی تربیت بھی کچھ اس طرح کی جائے کہ وہ لڑکیوں کے تحفظ کی ذمہ داری لیں۔
شیخ عبدالموحد عبدالرؤف(مسعود سکندر پٹھان ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج، مہا پولی، بھیونڈی)
مجرمینکو سرعام سزا دی جائے تاکہ لوگوں میں خوف پیدا ہو
اس طرح کے واقعات کے پس پردہ کئی طرح کے عوامل شامل ہوتے ہیں۔ صرف سخت قانون بنا دینے سے ان پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔ جنسی تشدد ایک سماجی اور نفسیاتی مسئلہ ہے۔ فرد، خاندان، سماج، حکو مت، عاملہ اور عدلیہ سب کو اپنی اپنی ذمے داریاں نبھانی ہوں گی۔ اسی طرح سماجی اصلاح کے ساتھ تیز رفتار عدالتوں کا قیام بھی ضروری ہے تاکہ جلد از جلد انصاف کا راستہ ہموار ہو۔ اس قبیل کے مجرمینکو سرعام سزا دی جائے تاکہ لوگوں میں خوف پیدا ہو۔
سعید الرحمان محمد رفیق (گرین پارک، شیل، تھانے)