اللہ اللہ کیا منظرتھا، زمیں تا آسمان تکبیر و تہلیل کی صدا گونج رہی تھی، ایسے میں آپ ؐ آفتاب عالمتاب کی طرح کوہ عرفات کی چوٹی سے طلوع ہوئے۔
EPAPER
Updated: June 06, 2025, 5:14 PM IST | Naseeruddin Qasmi Walidpuri | Mumbai
اللہ اللہ کیا منظرتھا، زمیں تا آسمان تکبیر و تہلیل کی صدا گونج رہی تھی، ایسے میں آپ ؐ آفتاب عالمتاب کی طرح کوہ عرفات کی چوٹی سے طلوع ہوئے۔
نبی کریم ﷺ ۸؍ذی الحجہ کو منیٰ میں قیام فرماکر ۹؍ کو نمازِ فجر ادا کرنے کے بعد منیٰ سے روانہ ہوئے اور وادیٔ نمرہ میں قیام پزیر ہوئے، دن ڈھلنے کے قریب میدان عرفات میں تشریف لائے، تو ایک لاکھ چوبیس ہزار توحید پرستوں کا ایک جم غفیر سامنے تھا اور زمین سے آسمان تک تکبیر وتہلیل کی صدائیں گونج رہی تھیں، اب سرکارِ دوعالم قصویٰ پر سوار ہوکر آفتابِ عالم تاب کی طرح کوہِ عرفات کی چوٹی سے طلوع ہوئے؛ تاکہ خطبہٴ حج ادا فرمائیں۔
خطبہٴ حج الوداع
حجة الوداع کے وقت دولت وحکومت کا سیل رواں مسلمانوں کی طرف امڈتا چلا آرہا تھا اور رسول اللہ ﷺ کا غم یہ تھا کہ دولت کی فراوانی، امت کے اتحاد کو پاش پاش کردے گی، اسی لئے اتحادِ امت کا موضوع اپنے سامنے رکھ لیا اور پھر دردِ امت کی پوری توانائی اسی موضوع پر صرف فرمادی، پہلے نہایت درد انگیز الفاظ میں قیامِ اتحاد کی اپیل کی، پھر فرمایا کہ پس ماندہ طبقات کو شکایت کا موقع نہ دینا، تاکہ حصارِ اسلام میں کوئی شگاف نہ پڑجائے، پھر اسباب نفاق کی تفصیل بیان کرکے ان کی بیخ کنی کا عملی طور پر سروسامان فرمایا، پھر واضح کیا کہ جملہ مسلمانوں کے اتحاد کا مستقل سنگ ِ اساس کیا ہے؟ آخری وصیت یہ فرمائی کہ ان ہدایات کو آئندہ نسلوں میں پھیلانے اور پہنچانے کے فرض میں کوتاہی نہ کرنا، خطبہ دینے کے بعد حضور ﷺ نے اپنی ذات کی سرخروئی کے لئے حاضرین سے شہادت پیش کرتے ہوئے اس طرح بار بار اللہ کو پکارا کہ خدا کی مخلوق کے دل پگھل گئے، آنکھیں سیلاب بن گئیں اور روحیں انسانی جسموں میں تڑپنے لگیں۔
حمد وصلوة کے بعد خطبہ حج کا پہلا درد انگیز فقرہ یہ تھا:
’’ اے لوگو! میں خیال کرتا ہوں کہ آج کے بعد میں اور تم اس اجتماع میں کبھی دوبارہ جمع نہیں ہوں گے۔ ‘‘
اس ارشاد سے اجتماع کی غرض وغایت اظہر من الشمس تھی اور سب کے سامنے آگئی تھی۔ جس نے بھی یہ ارشاد مبارک سنا، تڑپ کر رہ گیا۔ اب سرکار دو عالمؐ اصل پیغام کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایا:
”اے لوگو! تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزت و ناموس اسی طرح ایک دوسرے پر حرام ہے جس طرح یہ دن (یوم قربانی) یہ مہینہ (ذی الحجہ) اور یہ شہر (مکہ مکرمہ) تم سب کے لئے قابلِ حرمت ہے“ اور اسی نکتہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ”اے لوگو! آخر تمہیں بارگاہ خداوندی میں حاضر ہونا ہے، وہاں تمہارے اعمال پیش کئے جائیں گے اور ان کی باز پرس ہوگی، خبردار! میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارتے پھرو۔ “
رسول پاک ﷺ کی یہ دردمندانہ وصیت زبان مبارک سے نکلی اور تیر کی طرح دلوں میں پیوست ہوگئی، اس کے بعد آپ ﷺ نے ان نفاق انگیز شگافوں کی طرف توجہ دلائی جن کے پیدا ہونے کا اندیشہ تھا، یعنی یہ کہ اسلام کے اقتدار کے بعد غریب اور پس ماندہ گروہوں پر ظلم کیا جائے گا اس سلسلہ میں فرمایا:
”اے لوگو! اپنی بیویوں کے متعلق اللہ سے ڈرتے رہنا، تم نے نامِ خدا کی ذمہ داری سے انہیں زوجیت میں قبول کیا ہے، عورتوں پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ غیر کو تمہارے بستر پر نہ آنے دیں، اگر وہ ایسا کریں، تو تم انہیں ایسی مار مارو جو نمایاں نہ ہو اور عورتوں کا حق تم پر یہ ہے کہ انہیں با فراغت کھانا کھلاؤ اور بافراغت کپڑا پہناؤ اور جو خود کھاؤ وہی اپنے غلاموں کو بھی کھلاؤ، جو پہنو وہی انہیں بھی پہناؤ۔ “
رسم جاہلیت کی بیخ کنی
عرب میں فساد وخوں ریزی کی بڑی بڑی دو وجہیں تھیں : (۱) ادائے سود کے مطالبات (۲) مقتولوں کا انتقام: ایک شخص دوسرے شخص سے اپنے قدیم خاندانی سود کا مطالبہ کرتا اور یہی جھگڑا پھیل کر خون کا سمندر بن جاتا، ایک آدمی دوسرے آدمی کو قتل کردیتا، اس سے نسلاً بعد نسلٍ قتل وانتقام کے سلسلے جاری ہوجاتے، رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں اسبابِ فساد کو باطل قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
”اے لوگو! آج میں جاہلیت کے تمام قواعد ورسوم کو اپنے قدموں سے پامال کرتا ہوں، جاہلیت کے قتل وغارت گری کے جھگڑے کو ملیامیٹ کرتا ہوں اور سب سے پہلے خود اپنے خاندانی مقتول ربیعہ بن حارث کے خون سے جسے ہذیل نے قتل کیا تھا، دست بردار ہوتا ہوں، زمانہٴ جاہلیت کے تمام سودی مطالبات باطل قرار دیتا ہوں اور سب سے پہلے خود اپنے خاندانی سودعباس بن عبدالمطلب کے سود سے دست بردار ہوتا ہوں۔ “
اہل عرب کے نزاع اور اسباب کا دفعیہ ہوچکا، تو اس میں بین الاقوامی تفریق کی طرف توجہ فرمائی، جو صدیوں کے بعد عرب وعجم، یا گورے اور کالے کے نام سے پیدا ہونے والی تھی، ارشاد فرمایا:
”اے لوگو! تم سب کا خدا بھی ایک ہی ہے اور تم سب کا باپ بھی ایک ہے، لہٰذا کسی عربی کو عجمی پر، کسی گورے کو کالے پر، کسی کالے کو گورے پر کوئی پیدائشی برتری اور فضیلت نہیں ہوگی، ہاں ! افضل وہ ہے جو پرہیزگار ہو، ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور تمام مسلمان ایک کنبہ اور خاندان کے مانند ہیں۔ “
اس کے بعد آپ ﷺ نے اتحادِ اسلام کی اساس کی طرف رہ نمائی فرمائی اور ارشاد فرمایا:
”اے لوگو! میں تم میں وہ چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھا، تو تم کبھی گمراہ نہ ہوگے، وہ چیز ہے اللہ کی کتاب۔ “
اس کے بعد آپ ﷺ نے اتحادِ امت کے عملی پروگرام کی طرف رہ نمائی فرمائی اور یوں گویا ہوئے:
”اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور نہ میرے بعد کوئی نئی امت ہے، پس تم سب اللہ کی عبادت کرنا، نماز پنج گانہ کی پابندی کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، خوش دلی سے اپنے مالوں کی زکوٰة دینا، اللہ کے گھر کا حج کرنا اور اللہ کی جنت میں جگہ حاصل کرنا۔ “
آخر میں فرمایا: ”ایک دن اللہ تعالیٰ تم لوگوں سے میرے متعلق گواہی طلب کریں گے، تم اس وقت کیا جواب دوگے؟“
اس پر مجمع عام سے پرجوش صدائیں بلند ہوئیں :
” اے اللہ کے رسول ﷺ آپ نے سب احکام پہنچا دئیے، آپؐ نے فرضِ رسالت ادا کردیا، آپؐ نے کھرے کھوٹے کو الگ کردیا۔ “
اس وقت حضور سرور عالم ﷺ کی انگشتِ شہادت آسمان کی طرف اٹھی، ایک دفعہ آسمان کی طرف انگلی اٹھاتے تھے اور دوسری دفعہ مجمع کی طرف اشارہ کرتے تھے اور فرماتے جاتے تھے: ” اے اللہ خلق خدا کی گواہی سن لے، اے اللہ خلق خدا کا اعتراف سن لے، اے اللہ گواہ ہوجا۔ “
اس کے بعد ارشاد فرمایا:
”جو لوگ حاضر ہیں، وہ ان لوگوں تک جو یہاں موجود نہیں ہیں، میری ہدایات پہنچاتے چلے جائیں ؛ ممکن ہے کہ آج کے بعض سامعین سے زیادہ پیام تبلیغ کے سننے والے اس کلام کی حفاظت کریں۔ “
تکمیل دین اور اتمامِ نعمت
خطبہٴ حج سے فارغ ہوئے، تو جبرئیل امین تکمیل دین اور اتمامِ نعمت کا تاج شہنشاہی لے آئے اور یہ آیت نازل ہوئی: ” آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔ “ (سورہ المائدہ:۳)
سرکار دوعالم ﷺ نے لاکھوں کے اجتماع میں اتمامِ نعمت اور تکمیل دین کا یہ آخری اعلان فرمایا، پھر اختتام خطبہ کے بعد حضرت بلالؓ نے اذان دی اور حضور ﷺ نے ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھائی، پھر ناقہ پر سوار ہوکر موقف پر تشریف لائے اور دیر تک دربار الٰہی میں دعائیں کرتے رہے، غروبِ آفتاب کے قریب جب ناقہٴ نبوی ہجومِ خلائق میں سے گزری اور کثرت ہجوم کے باعث لوگوں میں اضطراب سا پیدا ہونے لگا، تو آپؐ ارشاد فرماتے جاتے تھے ” لوگو! سکون کے ساتھ۔ “
مزدلفہ میں نماز مغرب وعشاء ادا کی، پھر نماز عشاء کے بعد لیٹ گئے اور صبح تک آرام فرماتے رہے۔ محدثین لکھتے ہیں کہ عمر بھر میں یہی ایک رات تھی جس کے اندر آپؐ نے نماز تہجد ادا نہیں فرمائی۔ ۱۰؍ ذی الحجہ کو جمرہ کی طرف روانہ ہوئے، چاروں طرف لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا، لوگ مسائل پوچھتے تھے اور آپؐ جواب دیتے تھے، جمرہ کے پاس ابن عباسؓ نے کنکریاں چن کردیں، تو آپؐ نے انہیں پھینکا اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا:
’’ اے لوگو! مذہب میں غلو کرنے سے بچنا، تم سے پہلی امتیں اسی سے برباد ہوئی تھیں۔ ‘‘
تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد فراقِ امت کے جذبات تازہ ہوجاتے، تو آپؐ ارشاد فرماتے کہ ”اس وقت حج کے مسائل سیکھ لو! میں نہیں جانتا کہ شاید اس کے بعد مجھے دوسرے حج کا موقع ملے اور اس کی نوبت آئے۔ “
یہاں سے منیٰ کے میدان میں تشریف لائے، آگے، پیچھے اور دائیں بائیں، مہاجرین، انصار، قریش اور دوسرے قبائل کی صفیں دریا کی طرح رواں تھیں اور ان میں ناقہ نبوی کشتی نوح کی طرح، سفینہٴ نجات بنا ہوا تھا۔
پھر ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب کی حرمت کا اعلان کرتے ہوئے مجمع کو مخاطب کیا اور ارشاد فرمایا: ”مسلمانو! تمہارا مال، تمہارا خون، تمہاری آبرو، اسی طرح محترم ہیں جس طرح یہ دن (یوم قربانی) جس طرح یہ مہینہ (ذی الحجہ) اور جس طرح یہ محترم شہر (بلدة الحرام) ہیں۔ تم میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو، اے لوگو! توحید، نماز، روزہ، زکوٰة اور حج یہی جنت میں داخلے کے ذرائع ہیں، میں نے تمہیں حق کا پیغام پہنچادیا ہے، اب موجود لوگ یہ پیغام ان لوگوں تک پہنچاتے رہیں، جو بعد میں آئیں گے۔ “
آپؐ یہاں سے قربان گاہ کی طرف تشریف لائے اور ۶۳؍ اونٹ خود ذبح فرمائے اور ۳۷؍ کو حضرت علیؓ سے ذبح کرایا اور ان کا گوشت اور پوست سب خیرات کردیا، پھر عبد بن معمرؓ کو طلب کرکے سر کے بال اتروائے اور یہ موئے مبارک تبرکاً تقسیم ہوگئے۔ یہاں سے اٹھ کر آپؐ نے خانہٴ کعبہ کا طواف فرمایا اور زمزم کا پانی نوش فرماکر منیٰ کی طرف واپس تشریف لے گئے اور ۱۲؍ذی الحجہ تک وہیں مقیم رہے، ۱۳؍ کو خانہٴ کعبہ کا آخری طواف کیا اور انصار ومہاجرین کے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف مراجعت فرمائی۔
جب غدیر خم پر پہنچے تو صحابہؓ کو جمع کرکے ارشاد فرمایا:
”اے لوگو! میں بھی بشر ہوں، ممکن ہے اللہ کا بلاوا جلد آجائے اور میں اسے قبول کرلوں، میں تمہارے لئے دو مرکز ثقل قائم کرچکا ہوں، ایک کتاب اللہ، جس میں ہدایت اور روشنی جمع ہیں، اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑلو، اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں، میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمہیں خداترسی کی وصیت کرتا ہوں۔ “
گویا یہ اجتماع امت کیلئے اہل و عیال کے حقوق و احترام کی وصیت تھی، مدینہ کے قریب پہنچ کر رات ذوالحلیفہ میں ٹھہرے اور دوسرے دن مدینہ منورہ میں داخل ہوگئے، حمد کرتے ہوئے اور شکر بجالاتے ہوئے۔